انتخابی نتائج تسلیم کرنا اور اقتدار کی پرامن منتقلی سابق صدر کی ذمہ داری ہوتی ہے، بائیڈن
واشنگٹن ڈی سی،جنوری۔امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ انتخابات میں جب عوام اپنا فیصلہ سنا دیں، تو پھر ہار ہو یا جیت دونوں صورتوں میں ووٹر کا فیصلہ قبول کرنا ہی جمہوریت ہے، اور یہی امریکی جمہوریت کی مشترکہ میراث، روایت، اصول اور ہماری تاریخ رہی ہے ۔بائیڈن نے کہا کہ بحیثیتِ قوم ہم اپنی اقدار اور اصولوں کو کسی طور پر قربان نہیں کر سکتے ۔انھوں نے یہ بات چھ جنوری 2021ء کے روز کیپیٹل ہل کی عمارت پر ہونے والی ہنگامہ آرائی کے پس منظر میں جمعرات کو قانون سازادارے کے احاطے سے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔صدر بائیڈن نے ایوانِ نمائندگان اور سینیٹ کی عمارتوں پر دھاوا بولنے کی مذمت کی۔ یہ واقعہ اس وقت رونما ہوا جب وہاں 2020ء کے صدارتی انتخابات کے نتائج کی توثیق کا عمل جاری تھا۔ قانون ساز ادارے پر حملے سے پہلے وائٹ ہاؤس کے سامنے ایک ریلی منعقد ہوئی تھی،جسے مبصرین جمہوری اقدار کیخلاف بغاوت سے تعبیر کرتے ہیں۔بائیڈن نے کہا کہ تاریخ میں پہلی بار ایک صدر نے انتخابات ہارنے کے بعد پرامن انتقال اقتدار میں رکاوٹ پیدا کی، اور ایک پرتشدد ہجوم نیکیپیٹل بلڈنگ پردھاوا بول دیا ۔ تاہم، وہ ناکام رہے ۔انھوں نے کہا کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ ملک سے اسی وقت پیار کریں جب آپ کو سبقت ملے ۔صدر نے اپنے پیش رو کا نام لیے بغیر کہا کہ یہ سابق صدر کی ذمہ داری تھی کہ وہ انتخابی نتائج اور حقائق کو تسلیم کریں اور اقتدار کی پرامن منتقلی یقینی بنائیں ۔انھوں نے کہا کہ ہمیں یہ فیصلہ ضرور کرنا ہو گا کہ ہم کس قسم کی قوم بننا چاہتے ہیں۔ بقول ان کہ کیا ہم ایسی قوم بننا چاہیں گے جو سیاسی تشدد کو اصول مان لے؟ کیا ہم ایسی قوم بننا چاہیں گے جہاں ہم بیجا طرف داری کرنے والے انتخابی اہل کاروں کو اجازت دیں کہ قانونی طور پر عوام کی رائے کی نفی کریں؟ کیا ہم ایسی قوم بننا چاہیں گے جس پر سچ کی طاقت نہیں بلکہ ملمع سازی کا سایہ رہے؟ جو بائیڈن نے کہا کہ ہم ایسی قوم بننے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ آگے بڑھنے کی واحد راہ یہی ہیکہ ہم سچ کو تسلیم کریں اور اسی کا ساتھ دیں ۔صدر نے کہا کہ ہم امریکہ کی روح کو سربلند رکھنے کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔صدر بائیڈن نے کہا کہ گزشتہ سال چھ جنوری کو یہاں ہونے والے واقعات پر امریکہ سے باہر بھی ابھی تک رائے زنی کی جا رہی ہے۔ان کے الفاظ میں چین سے روس تک اور اس سے بھی آگے، شرطیں لگائی جا رہی ہیں کہ جمہوریت کے دن گنے جا چکے ہیں۔ حقیقت میں انھوں نے مجھے یہ بتایا کہ جمہوریت بہت سست روی سے کام کرتی ہے، اس میں رائے منقسم رہتی ہے، جب کہ دنیا میں تیز تر حرکت جاری ہے، دنیا پیچیدہ ہو چکی ہے۔ اور وہ شرطیں لگا رہے ہیں۔ وہ اس بات پر بھی شرط لگا رہے ہیں کہ ایک دن امریکہ ہمارے جیسا ہو جائے گا۔ وہ یہ شرط لگا رہے ہیں کہ امریکہ کو ایک مطلق العنان، آمر اور مرد ِآہن کی ضرورت ہے۔ میں یہ نہیں سمجھتا۔ ہم ایسے لوگ نہیں ہیں۔ ہم کبھی ایسے لوگ نہیں رہے۔ اور ایسا کبھی بھی، ہرگز نہیں ہو سکتا ۔بائیڈن کے خطاب کے فوری بعد ٹرمپ نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں انھوں نے بائیڈن پر الزام لگایا کہ وہ ملک کو تقسیم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ٹرمپ نے کہا کہ کھلی سرحدوں کی عقل سے عاری پالیسیوں، دھاندلی زدہ انتخابات، توانائی کی تباہ کن پالیسیوں، غیر آئینی اختیارات، نقصان دہ طور پر اسکولوں کو بند رکھ کر، آج میرا نام لے کر امریکہ کو مزید منقسم کیا گیا۔ یہ سیاسی تھیٹر اس لیے لگایا گیا ہے تاکہ اس بات سے دھیان ہٹایا جائے کہ بائیڈن مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں ۔صدر بائیڈن سے پہلے خطاب کرتے ہوئے، نائب صدر کاملا ہیرس نے ووٹنگ کے حقوق سے متعلق قانون سازی پر زور دیا۔ گزشتہ سال ٹرمپ نے اپنے لیے نرم گوشہ رکھنے والے قانون سازوں سے قانون سازی کے لیے مدد مانگی تھی، جو ناقدین کی رائے میں، رائے دہی کے حقوق کو محدود کرنے کی ایک کوشش ہے۔ہیرس نے کہا کہ امریکی جذبے کا امتحان لیا جا رہا ہے۔ یہ وہی عمارت ہے جہاں اس بات پر فیصلہ ہوگا آیا ہم ووٹ کے حق کو سر بلند کرتے ہیں اور آزادانہ اور منصفانہ انتخابات یقینی بناتے ہیں۔ ہمیں ووٹنگ رائٹس کے بل منظور کرنے چاہئیں جو اس وقت سینیٹ کے سامنے موجود ہیں اور امریکی عوام کو اس بات کی اہمیت کو مد نظر رکھنا چاہیے ۔کیپیٹل ہل پر حملے کے دوران کم از کم پانچ ہلاکتیں واقع ہوئی تھیں، جب کہ 130 سے زائد افراد زخمی ہوئے، اور 725سے زائد شرکا پر فرد جرم عائد کی جا چکی ہے۔ احتجاجی مظاہرے میں شریک ٹرمپ کے حامیوں نے سابق صدر کے دعوے کا ساتھ دیا تھا کہ نومبر 2020ء کے صدارتی انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے، حالانکہ اس کا کوئی ثبوت نہیں تھا۔ ایک سال بعد، ہونے والے رائے عامہ کے جائزوں میں بتایا گیا ہے کہ تقریباً 70 فی صد ری پبلیکن بائیڈن کے انتخاب کو جائز خیال نہیں کرتے۔