امریکہ میں فارمولہ دودھ کی قلت، مائیں بلیک مارکیٹ کا رخ کرنے پر مجبور: ’ہم اپنے نوزائیدہ بچوں کو کیا پلائیں؟‘
نیویارک،جون۔لورین گالون کو اپنے بچے کے لیے اضافی دودھ لینے کی ضرورت پڑی کیونکہ ان کا بچہ دودھ پینے کے بعد بار بار اْگل رہا تھا۔۔۔اس کا وزن نہیں بڑھ پا رہا تھا اور اسے دو بار ہسپتال لے جانا پڑا۔لیکن امریکہ میں قومی سطح پر نوزائیدہ بچوں کے لیے فارمولا دودھ کی قلت ہے اور لورین بھی کچھ بھی حاصل کرنے میں ناکام رہیں۔لہٰذا لورین نے بلیک مارکیٹ کا رخ کیا اور آن لائن ڈچ برانڈ کا آرڈر دیا جس کی امریکہ میں درآمد پر پابندی ہے۔امریکی انتظامیہ نے بارہا ایسا دودھ خریدنے سے منع کیا ہے جسے امریکہ میں درآمد کرنے کی منظوری نہیں دی گئی۔گذشتہ سال کسٹم حکام نے30000 ڈالر کا یورپی فارمولہ یہ کہتے ہوئے ضبط کیا تھا کہ اس کے اوپر غذائیت کی لیبلنگ مناسب نہیں ہے لہٰذا وہ اس کی ضمانت نہیں دے سکتے۔ اس سے دو سال پہلے انھوں نے سرحد پر 162000 ڈالر مالیت کے فارمولے کی درآمد روک دی تھی۔لورین، میزوری میں ایک نرس ہیں، انھوں نے ماہرین اطفال اور دیگر سے خطرات کے بارے میں مشورہ کیا لیکن انھوں نے زیادہ انتظار نہیں کیا اور بلیک میں خریدنے سے ہچکچائیں نہیں۔وہ کہتی ہیں کہ ’اگر یہ یورپی بچوں کے لیے صحت مند ہے، تو امریکی بچے ان سے مختلف نہیں ہیں۔‘لورینکاکہنا ہے کہ ان کے نزدیک قواعد کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور ان کے علاوہ کئی اور لوگ بھی سوالات کے جواب چاہتے ہیں۔بچوں کے لیے فارمولا کی قلت چوتھے مہینے میں داخل ہو رہی ہے اور اس نے امریکی فوڈ سیفٹی حکام پر اعتماد ختم کر دیا ہے۔ فارمولا کی اس کمی نے امریکہ میں نگرانی کے کمزور اور سخت حکومتی قوانین کو عیاں کیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ انھی قوانین کے باعث یہ صنعت بحران کا شکار ہوئی ہے۔نیو جرسی کی سٹیفنی ایسپوسیتو کہتی ہیں’مجھے غصہ ہے۔‘ ان کے دن اپنے نو ماہ کے بیٹے ڈومینک کے لیے فارمولے کی تلاش میں گزرتے ہیں، جسے الرجی ہے اور وہ صرف گنے چنے مرکبات ہی برداشت کر سکتا ہے۔ وہ پوچھتی ہیں ’ہم اپنے نوزائیدہ بچوں کو کیا کھلائیں؟‘کووڈ ک دوران سپلائی چین کے مسائل کے بعد اس قلت کے آثار گذشتہ سال سامنے آئے۔ فارمولہ بنانے والی کمپنی ایبٹ نیوٹریشن، جو سیمی لیک کے بعد دوسرے نمبر ہے، فروری میں ایبٹ نیوٹریشن کی جانب سے ایک بڑی پروڈکٹ واپیس لیے جانے کے بعد یہ بحران سنگین ہو گیا۔ حکام نے بیکٹیریل آلودگی کا حوالہ دیتے ہوئے فرم کی ایک فیکٹری کو بند کر دیا جس سے امریکی مارکیٹ سے فارمولہ کا ایک بڑا حصہ غائب ہو گیا۔فیکٹری کی صورتحال پر کارروائی کے حوالے سے بہت سے کم لوگ بات کرتے ہیں لیکن حکومت کی جانب سے بحران سے نمٹنے پر بڑے پیمانے پر تنقید کی گئی ہے، خاص طور پر اس انکشاف کے بعد کہ ایک وسل بلور نے انسپکٹرز کی کارروائی سے مہینوں قبل حکام کو سینیٹری کے مسائل سے آگاہ کر دیا تھا۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فارمولہ انڈسٹری کی نگرانی کرنے والے ادارے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے)، نے ایبٹ کے حریفوں کے متعق غلط اندازہ لگایا کہ وہ پیداوار میں اس خلا کو پْر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔۔ اور اسی چیز نے معاملات کو مزید خراب کر دیا، خاص طور پر جب والدین گھبرا گئے اس سے فروخت میں بہت اضافہ ہوا۔امریکہ میں آدھے سے زیادہ شیر خوار بچے تین ماہ کی عمر تک پہنچنے تک کسی نہ کسی طرح کا فارمولہ دودھ لینے لگتے ہیں۔ اس لیے اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے سیاسی دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔پچھلے مہینے، امریکی صدر جو بائیڈن نے ’آپریشن فلائی فارمولہ‘ کا اعلان کیا، جس میں ایف ڈی اے کو اپنے قوانین میں عارضی طور پر نرمی کرنے کی اجازت دی گئی اور بیرون ملک سے فارمولہ منگوانے کے لیے فوجی جیٹ طیاروں کے استعمال کی منظوری دی گئی۔دو درجن سے زائد کمپنیوں نے امریکہ میں فارمولا دودھ درآمد کرنے کے لیے درخواستیں دی ہیں۔ برطانیہ کے کینڈمل، ببس آسٹریلیا اور نیسلے اْن برانڈز میں شامل ہیں جنھیں نومبر تک دودھ ددآمد کرنے کی اجازت ملی ہے۔جارجیا ٹیک کے شیلر کالج آف بزنس میں آپریشنز مینجمنٹ کے پروفیسر موروارد رحمانی کا کہنا ہے کہ واضح طور پر عالمی سطح پر کوئی کمی نہیں ہے اور اگر پہلے ہی ایسے اقدامات کیے جاتے تو بحران کو ٹالا جا سکتا تھا۔لیکن فارمولہ کی قلت سے پہلے ہی ایف ڈی اے کے بارے میں شکوک و شبہات ظاہر کیے جا رہے تھے۔رپورٹوں میں ایف ڈی اے کی زیر نگرانی پروڈکٹس میں خطرناک اجزا کے بارے میں متنبہ کیا گیا تھا، جن میں بچوں کا کھانا، سن سکرین اور کاسمیٹکس مصنوعات شامل تھیں اور کچھ والدین پہلے سے ہی ممنوعہ غیر ملکی دودھ منگوا رہے تھے۔انسٹاگرام پر مشہور میلوری وائٹمور، شیر خوار بچوں کو کھانا کھلانے والی ایک سرٹیفائیڈ ٹیکنیشن ہیں، جنھیں ’فارمولا مم’ کہا جاتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ غیر ملکی مصنوعات کو منظوری دی جا رہی ہے جو بہت اچھی بات ہے لیکن بہت سے والدین اب یہ سوچ رہے ہیں کہ کیا ایف ڈی اے کو اس بات کی فکر تھی کہ ہمارے بچوں کے لیے صحت مند یا محفوظ چیز کیا تھی یا پھر وہ فارمولہ بنانے والی امریکی کمپنیوں کے مفادات کا تحفظ کر رہے تھے۔ایک بار جب غیر ملکی فارمولہ دودھ میں چھوٹ کی اجازت ختم ہو جائے گی تب والدین کو محسوس ہوگا کہ وہ محفوظ نہیں ہیں، تو سوال یہ ہے کہ ’کیا یہ غیر ملکی فارمولے آتے رہیں گے یا نہیں؟‘تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ میں فارمولا فراہم کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ایک اور بحران کو روکنے کے لیے اہم ہے۔برطانیہ کی کینڈمل ان پہلے غیر ملکی برانڈز میں شامل تھی جس نے نئے قوانین کے تحت امریکی منظوری حاصل کی۔لیکن فی الحال دو بڑے کھلاڑی، ایبٹ اور ریکیٹ بینکیزر کے میڈ جانسن، مارکیٹ پر چھائے ہوئے ہیں اور فارمولہ کی مجموعی طور پر 80 فیصد فروخت ان کے پاس ہے۔امریکی مارکیٹ میں ’ان ہونا‘ اور اپنا نام بنانا ایک مشکل کام ہے۔ایبٹ اور ریکیٹ بینکیزر کے پاس سوشل سپورٹ پروگراموں میں اندراج شدہ کم آمدنی والے خاندانوں کو فارمولہ فراہم کرنے کے بہت سے سرکاری معاہدے ہیں، جو کہ امریکی فارمولوں کی فروخت کا نصف حصہ ہے۔ بازار میں نئے آنے والوں کو بارڈر ٹیکسز اور سخت لیبلنگ کے قوانین سے نمٹنا ہو گا۔اسی دوران امریکی فارمولے کی فروخت میں کمی آ رہی ہے کیونکہ شرح پیدائش میں کمی اور دودھ پلانے کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔فارمولا بنانے والی سوئس کمپنی ہولے کی امریکی یونٹ کی مینیجنگ ڈائریکٹر تھوربننلیوسکی کا کہنا ہے کہ کمپنی نے نرمی والے قوانین کے تحت بچوں کے فارمولے کو فروخت کرنے کے لیے درخواست دی ہے۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ درآمد کے لیے ریگولیٹری رکاوٹیں ’بہت زیادہ‘ ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ’ہولے نے طویل عرصے سے اس فیلڈ کا مشاہدہ کیا ہے لیکن بے تحاشہ لاگت اوردیگر اخراجات کی وجہ سے آج تک امریکہ میں فروخت کی درخواست نہیں دی۔‘لورا مودی کا کہنا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ مارکیٹ میں مقابلے کے لیے پابندیاں کم کی جائیں۔ ان کی اپنی کمپنی ’بوبی‘ ایک ’یورپی طرز‘ کا فارمولا بناتی ہے۔ یہ کمپنی اس وقت شروع کی گئی جب وہ خود ماں بنیں اور مارکیٹ میں زیادہ انتخاب کا موقع نہ ملنے پر مایوس ہو گئیں۔وہ کہتی ہیں ’جب آپ اس قلت کی وجوہات کا جائزہ لیتے ہیں تو آپ کو معلوم ہوتا ہے صرف دو کمپنیوں کی مارکیٹ پر اجارہ داری ہے، جب کسی وجہ سے ایک کمپنی بند ہو جاتی ہے تو ہمارے پاس اتنی گنجائش ہونی چاہیے کہ کسی اور کی جانب رجوع کر سکیں۔‘تاہم ایف ڈی اے نے غیر ملکی درآمدات کے لیے دی جانے والی چھوٹ کو عارضی کہا ہے۔گذشتہ ماہ واشنگٹن میں ہونے والی سماعتوں میں کمشنر رابرٹ کیلیف نے خوراک کی نگرانی میں مسائل کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ایجنسی کے اس حصے کو مدد کی ضرورت ہے، اور کمپنی کی سپلائی کی نگرانی کے لیے مزید فنڈنگ اور اختیارات کا مطالبہ کیا۔لیکن انھوں نے حفاظتی معیارات کو برقرار رکھنے کے لیے موجودہ قواعد کا دفاع کیا ہے۔لارین کا کہنا ہے کہ کچھ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ کہتی ہیں ’چیزیں بہتر کریں۔۔۔ ہمارے بچوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔‘