امریکہ میں سیاسی تشدد میں اضافے کا خدشہ ہے، صدر جوبائیڈن
واشنگٹن،نومبر۔امریکی صدر کا کہنا ہے کہ چونکہ بعض ریپبلکن امریکی انتخابات کی سالمیت کے بارے میں شکوک و شبہات کے بیج بوتے رہتے ہیں، اس لیے ملک میں سیاسی تشدد میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔امریکی صدر جو بائیڈن نے دو نومبر بدھ کے روز وسط مدتی انتخابات سے متعلق اپنی تقریر کے دوران امریکیوں سے سیاسی تشدد اور ووٹروں کو ڈرانے دھمکانے کے خلاف متحد ہونے کی اپیل کی۔امریکہ میں آئندہ ہفتے ہی کانگریس کے وسط مدتی انتخابات ہونے والے ہیں اور انتخابی سالمیت کے دفاع کے بارے میں ان کے یہ ریمارکس اس سے عین قبل آئے ہیں۔ان کا کہنا تھا، جیسا کہ آج میں یہاں کھڑا ہوں، امریکہ میں گورنری کے لیے، کانگریس کے لیے، اٹارنی جنرل کے لیے، وزیر خارجہ کے لیے، ہر سطح کے عہدوں کے لیے امیدوار میدان میں کھڑے ہیں، ان میں سے بہت سے لوگ ان انتخابات کے نتائج کو بھی قبول کرنے کا عہد نہیں کریں گے جس کے لیے وہ میدان میں ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا، یہ امریکہ میں افراتفری کا ایک راستہ ہے۔ یہ بے نظیر بات ہے۔ یہ غیر قانونی بھی ہے اور، یہ امریکی روایات کے برعکس بھی ہے۔ وسط مدتی انتخابات سے متعلق زیادہ تر پیشین گوئیوں میں ریپبلکنز کو ایوان کا کنٹرول سنبھالنے کی جانب اشارہ کیا جا رہا ہے، جبکہ سینیٹ میں دونوں جماعتوں کے درمیان سخت مقابلہ ہونے کا امکان ہے۔
بائیڈن کا سیاسی تشدد پر افسوس کا اظہار:ایک ہفتے قبل امریکی ایوان کی اسپیکر نینسی پیلوسی کے گھر میں دراندازی کے ایک واقعے کے بعد صدر بائیڈن کا یہ خطاب ہوا، جس میں بظاہر نینسی پیلوسی کو یرغمال بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔ جب حملہ آور کو سینیئر ڈیموکریٹ کے بارے میں یہ پتہ چلا کہ وہ گھر میں نہیں ہیں، تو اس نے ان کے شوہر پر حملہ کر دیا۔جو بائیڈن نے تقریر کے دوران اس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، حملہ آور گھر میں یہ پوچھتے ہوئے داخل ہوا تھا کہ نینسی کہاں ہے؟ نینسی کہاں ہے؟’ یہ وہی الفاظ تھے جن کا ہجوم نے چھ جنوری کو امریکی کیپیٹل پر دھاوا بولتے وقت استعمال کیا تھا۔ صدر نے کہا کہ 2020 کے صدارتی انتخابات کے نتائج کو مسترد کرنے والے اور ووٹ میں دھاندلی کے بے بنیاد الزامات لگانے والے ریپبلکنز کی اس طرح کی بیان بازی ووٹرز اور اہلکاروں کے خلاف تشدد کو مزید ہوا دینے کے لیے کام کرتی ہے۔انہوں نے مزید کہا، اس ملک میں سیاسی تشدد کو نظرانداز کرنے والے یا محض خاموش رہنے والے لوگوں کی تعداد میں تشویشناک اضافہ ہوا ہے۔ خاموشی تو ایک طرح کی شراکت ہے۔ بائیڈن نے یہ بھی کہا کہ بہت ممکن ہے کہ وسط مدتی انتخابات کے بعد مکمل ووٹوں کی گنتی میں اسی طرح زیادہ وقت لگ سکتا ہے، جیسا کہ نومبر 2020 میں ہوا تھا، جب مکمل نتائج کو جمع ہونے میں پانچ دن لگے تھے۔انہوں نے کہا کہ امریکی وقت رہتے ہی بذریعہ ڈاک بیلٹ کے ذریعے ووٹ ڈال رہے ہیں اور یہ کہ قانونی اور منظم طریقے سے ان کا حساب لگانے میں وقت لگے گا۔ انہوں نے کہا کہ شہریوں کے لیے صبر کرنا ضروری ہے۔