امریکا نے قدیمی عراقی ثقافت کا نایاب نمونہ واپس کر دیا
بغداد/واشنگٹن،ستمبر۔عراقی سرزمین پر بہتے دریاؤں دجلہ و فرات کے درمیانی علاقے کو تہذیبوں کا ’پالنا‘ قرار دیا جاتا ہے۔ اسی علاقے میں سمیری قوم کی ثقافت نے عروج پایا تھا۔ یہ تین ہزار قبل از مسیح کی بات ہے۔سمیری تہذیب کے عظیم بادشاہ گِلگامش کی جو سلیٹ عراق کو امریکا نے واپس کی ہے، اس کو قدیم ترین اور محفوظ ترین ادب کا ایک مختصر نمونہ قرار دیا جاتا ہے۔ اس سلیٹ یا ٹیبلٹ پر گِلگامش بادشاہ کی ایک رزمیہ نظم کندہ ہے۔ اسی بادشاہ کی حکومت قدیمی شہر اوروک میں قائم تھی اور اس تہذیب کے کھنڈرات موجودہ عراقی شہر سماوہ کے قْرب میں ہیں۔امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں عراق کے وزیر ثقافت حسن ناظم نے یہ قدیمی نایاب سلیٹ وصول کی۔ اس موقع پر حسن ناظم نے کہا کہ گِلگامش کی رزمیہ والی سلیٹ کی واپسی سے ان کی ملکی معاشرت کا عزت و وقار اور اعتماد بڑھے گا۔اپنے حجم کے حساب سے یہ ٹیبلیٹ چھوٹی سے ہے لیکن اس کی تاریخی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ اس سلیٹ پر سمیری قوم کے عظیم بادشاہ کی جنگی مہم کی طویل نظم کا ایک حصہ درج ہے۔ اس منظوم نمونے کو انسانی تاریخ کے معلومہ قدیم ترین لٹریچر کا نشان قرار دیا جاتا ہے۔اقوام متحدہ کے ثقافتی ادارے یونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل آؤدرے آڑولے کا کہنا ہے کہ سمیری بادشاہ کی مہماتی نظم نے توحیدی ادیان کو بہت متاثر کیا اور اس کے اثرات کے نشانات ہومر کی یونانی رزمیہ نگاری کے شاہکاروں الیاڈ اور اوڈیسی میں بھی دکھائی دیتے ہیں۔یونیسکو کی سربراہ نے گِلگامش کی ٹیبلیٹ کو ساری دنیا کا مشترکہ ورثہ قرار دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ نایاب اور شاہکار پتھر کی سلیٹ واپس اپنے درست مقام پر پہنچائی جا رہی ہے اور یہ بین الاقوامی برادری کی ایسے افراد پر فتح ہے، جو ایسے نایاب ورثے کو خراب یا برباد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ امریکا کے نائب اٹارنی جنرل کینیتھ پولائٹ کا کہنا ہے کہ اس سلیٹ کی واپسی بھی ایک رزمیہ نظم کا حصہ محسوس ہوتی ہے۔ایسے اندازے لگائے گئے ہیں کہ عراقی میوزیم میں سے یہ مٹی کی بنی ہوئی سلیٹ قریب سن 1991 میں چرائی گئی تھی۔ یہ دور خلیج کی پہلی جنگ کا ہے۔ پھر یہ دس برسوں بعد برطانیہ میں ظاہر ہوئی۔ اس ٹیبلیٹ کو سن 2003 میں ایک امریکی آرٹ ڈیلر نے لندن میں مقیم ایک اردنی خاندان سے خرید کر امریکا پہنچایا۔ اس کی سن 2007 میں دوبارہ فروخت پچاس ہزار ڈالر میں جعلی شناختی مقام کے ساتھ کی گئی۔یہ ٹیبلیٹ سن 2014 میں دوبارہ چوری ہو گئی اور پھر نادر نمونوں کا کاروبار کرنے والے خاندان ہابی لابی کو 1.67 ملین ڈالر میں فروخت کر دی گئی۔ قدامت پسند مسیحی خاندان ہابی لابی اس ٹیبلیٹ کو مسیحیت سے منسوب واشنگٹن میں واقع اپنے ذاتی میوزیم میں رکھنا چاہتا تھا۔ اس میوزیم کا نام بائیبل‘ ہے۔ اس کی شناخت کے مقام پر سوال اٹھے تو اس نایاب نمونے کو امریکی حکومت نے سن 2019 میں ضبط کر لیا۔عراق کی آثار قدیمہ کے نمونوں کی نگران وزارت اس کوشش میں ہے کہ بقیہ نایاب و قدیمی نمونے تلاش کر کے واپس وطن لائے جائیں۔ اس مناسبت سے اس نے دنیا بھر کے عجائب گھروں، یونیورسٹیوں، اداروں اور نایاب اشیاءکے جمع کرنے والوں سے اپیل کی ہے کہ وہ ان کے ملک سے لوٹے گئے ایسے قدیمی نوادرات کی تلاش میں مدد کریں۔اس ادارے کے مطابق سترہ ہزار کے قریب نایاب قدیمی نمونے امریکا نے رواں برس جولائی میں عراق کو واپس کیے تھے۔ ان اشیا کا تعلق چار ہزار سال قبل کے دور سے تھا۔ عراق میں ایسی نادر قدیمی اشیا کو لوٹنے کا سلسلہ اس ملک میں سن 2003 میں امریکی فوج کشی کے بعد شروع ہوا تھا۔