الشیخ خضرعدنان نےطن کی آزادی کے لیے اپنی جان قربان کردی
جنین،مئی ۔اسلامی جہاد کے سرکردہ رہ نما 86 روز کی مسلسل بھوک ہڑتال کے بعد آج منگل کو جام شہادت نوش کرگئے۔ اسلامی جہاد نے خبردار کیا تھا کہ الشیخ عدنان کی زندگی کو نقصان پہچنے کے تمام بھیانک نتائج کا ذمہ دار اسرائیل ہوگا۔عبرانی اخبار’یدیعوت احرونوت‘ اخبار نے کہا ہے کہ قیدی خضر عدنان اپنی بھوک ہڑتال کے 87ویں دن میں داخل ہونے کے بعد اپنے سیل میں بے ہوش پائے گئے۔انہیں طبی معائنے کے لیے ہسپتال لے جانے کے بعد پتہ چلا کہ ان کی موت ہو چکی ہے۔خضر عدنان کی موت قابض کی جانب سے مسلسل ہڑتال اور ان کے مطالبات کے جواب میں قابض ریاست کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ان کی صحت کی خرابی کے ساتھ ان کی موت کی وارننگ کو نظر انداز کرنے کے نتیجے میں ہوئی۔گذشتہ روز ان کی اہلیہ رندہ موسیٰ نے فلسطین اور دنیا کے تمام آزاد لوگوں اور زندہ ضمیروں سے اپنے اسیر شوہر الشیخ خضر عدنان کی زندگی بچانے کے لیے مداخلت کی اپیل کی تھی۔ انہوں نے خبردار کیا تھا کہ صہیونی ریاست انہیں قتل کرنے کی منظم منصوبہ بندی کررہا ہے۔ وہ طویل بھوک ہڑتال جاری رکھے ہوئے ہیں اوردشمن انہیں بھوکا مارنا چاہتا ہے۔شہید ہونے والے اسلامی جہاد کے رہ نما کی اہلیہ نے مرکزاطلاعات فلسطین کو بتایا کہ ان کے شوہر نے گذشتہ اتوار کو عوفر میں اپنے مقدمے کی سماعت کے دوران ویڈیو کانفرنس کے ذریعے پیشی کے دوران کہا کہ میں مر رہا ہوں۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ حراست کا ہر لمحہ وہ دباؤ، تنہائی اور جان کو درپیش خطرے کی پالیسیوں کے درمیان گزارتے ہیں۔رندہ موسیٰ نے کہا تھا کہ قابض عدالت نے ان کے شوہر کی ضمانت پر رہائی کے لیے جمع کرائی گئی اپیل کو مسترد کر دیا اور 10 مئی کو گواہوں کو طلب کرنے اور کیس اور فائل کو جوں کا توں رکھنے کا فیصلہ کیا۔انہوں نے کہا کہ وہ ایک ایسے کیس میں 4-5 سال کے لیے مطلوب ہیں جو وکلاء کے اندازوں کے مطابق 4-8 ماہ سے زیادہ کا نہیں ہے، حالانکہ اس کیس کا پہلے فیصلہ کیا گیا تھا۔اسلامی جہاد کے شہید رہ نما خضر عدنان کو اسرائیلی فوج نے رواں سال فروری میں گرفتار کیا تھا۔ حراست میں لینے کے بعد انہیں انتظامی قید میں ڈال دیا گیا جس کے خلاف انہوں نے بھوک ہڑتال شروع کی تھی۔شہید کی اہلیہ نے بتایا کہ وہ اب بھی رملا اسپتال میں تھے مگرہماری درخواست پر انہیں کسی سول اسپتال منتقل کرنے کی اجازت نہیں دی گئی جس کی وجہ سے وہ جاں بر نہیں ہوسکے اور آج چل بسے۔