الریاض کے شاہ فیصل مرکز میں قدیم مخطوطات کی نمائش

الریاض،مارچ۔سعودی دارالحکومت الریاض میں تاریخی مخطوطات کی نمائش جاری ہے۔اس میں پیش کیے گئے مخطوطات میں بعض 2000 سال قدیم ہیں۔شاہ فیصل مرکز میں منعقدہ اس نمائش کا افتتاح شہزادہ ترکی الفیصل بن عبدالعزیز اورخطہ الریاض کے نائب گورنر شہزادہ محمد بن عبدالرحمٰن نے اتوار کو کیا تھا۔شاہ فیصل مرکز برائے تحقیق اوراسلامی تعلیمات (کے ایف سی آر آئی ایس) میں واقع اسفار نمائش اب عوام کے لیے کھول دی گئی ہے۔اس میں زائرین کو متعدد مذہبی اور ادبی کاموں کا جائزہ لینے کا موقع فراہم کیا گیا ہے۔اسفار’سفر‘ کا عربی جمع اسم ہے۔اس کا ترجمہ بڑی یا ضخیم کتاب ہے۔کے ایف سی آر آئی ایس کی سربراہ برائے نمائش اور تقریبات رعنا الشیخ نے افتتاح کے موقع پر العربیہ انگلش کو بتایا کہ ’’اسفار 36 مخطوطات اورمطبوعہ کتابوں پرمشتمل ہے اورچھے حصے ’علم کاسفر‘سے شروع ہوتے ہیں اور ’گوٹن برگ کی دنیا‘میں ختم ہوتے ہیں۔انھوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے یہاں مرکز میں موجود نایاب ترین اور قیمتی مخطوطات کا انتخاب کرنے کی کوشش کی ہے اورپیش کی گئی بہت سی تصانیف خود مصنفین نے ہاتھ سے لکھی ہیں۔نمائش میں کچھ انتہائی نایاب اصل مخطوطات شامل ہیں۔اس وقت دنیا میں موجود بعض مخطوطات کی واحد نقول شاہ فیصل مرکزمیں رکھی گئی ہے۔نمائش میں رکھی گئی کتب 178,500 مخطوطات میں سے منتخب کی گئی ہیں جو مرکزکے ذخیرے میں محفوظ ہیں، جہاں ایک ٹیم انھیں اچھی حالت میں رکھنے کے لیے کام کرتی ہے۔شہزادہ ترکی اور شہزادہ محمد نے نمائش کے افتتاح کے بعد اس کے مختلف حصے دیکھے اور مخطوطات کو ملاحظہ کیا اور شاہ فیصل مرکز کے کام کے بارے میں بتایا گیا۔واضح رہے کہ کے ایف سی آر آئی ایس کی بنیاد 1983 میں شہزادہ ترکی الفیصل نے رکھی تھی۔وہ سعودی عرب کے جنرل انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ (جی آئی ڈی) کے ڈائریکٹرجنرل رہ چکے ہیں۔وہ اس سے پہلے امریکا، برطانیہ اور آئرلینڈ میں سعودی سفیر کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے تھے۔نمائش کا پہلا حصہ،جس کا عنوان ’علم کا سفر‘ ہے، ابتدائی محققین اور سفرنگاروں کے مخطوطات کے لیے وقف ہے۔اس میں ابن المقفیٰ کی کلیلہ ودمنہ کی دوسری قدیم ترین نقل شامل ہے۔ یہ آٹھویں صدی میں لکھی گئی اوراصل میں عربی میں ترجمہ شدہ کہانیوں کا ایک اہم مجموعہ ہے۔دوسرے حصے میں ایک ہزار قدیم مخطوطات میں متعدد ادبی تصانیف آویزاں ہیں۔ان میں آٹھویں صدی کے مصنف الجاحظ کی البیان والتبیین یا اظہار کی خوبصورتی اور تشریح کی وضاحت بھی شامل ہے۔تیسرا حصہ خواتین اور علم کے فروغ میں ان کے کردار سے متعلق ہے۔اس میں مسلم دنیا میں تعلیم کے فروغ میں خواتین کے کردار کو اجاگر کیا گیا ہے۔نمائش میں پیش کی جانے والی تصانیف میں سے ایک مملوک دور کا قرآن کا نسخہ ہے جو اپنے حجم اور فنی خطاطی کے لیے قابل ذکر ہے۔چوتھے سیکشن میں مصنفین کے اپنے ہاتھ سے لکھے گئے مخطوطات نمائش کے لیے پیش کیے گئے ہیں۔ان میں سے ایک کتاب ’العبرالمبتدا والخبر ہے۔یہ چودھویں صدی کے مشہور مؤرخ عبدالرحمٰن ابن خلدون نے لکھی تھی۔ اس کے مخطوطے میں مصنف کے تبصرے اور ہاتھ سے لکھے گئے حواشی بھی شامل ہیں۔سیکشن پانچ نایاب مخطوطات کے لیے وقف ہے۔اس میں مؤطا الامام مالک کاایک قدیم نسخہ ہے جو جدید دور کے اسپین کے شہرغرناطہ میں سترھویں صدی عیسوی میں لکھا گیا تھا۔چھٹا اورآخری سیکشن، ’گوٹنبرگ کی دنیا‘کے نام سے موسوم ہے۔اس میں گوٹنبرگ پریس کی آمد کے بعد مطبوعہ کام دکھاتا ہے۔کچھ قابل ذکرمثالوں میں ایک عربی زبان کی بائبل شامل ہے جسے میڈیسی پرنٹنگ ہاؤس نے سنہ1591ء میں روم میں چھاپا تھا۔

 

Related Articles