اسیران ڈیل کے ذریعے حماس کا اردن کے لیے ہمدردی کا پیغام
عمان،نومبر۔فلسطینی تنظیم”حماس” برسوں سے عمان کی محبت حاصل کرنے کے لیے اپنی پالیسی کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے اختیارات کو متنوع بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ دونوں فریقین کے درمیان تعلقات جمود اور بے حسی کی کیفیت سے دوچار ہیں۔ بیس سال قبل اردن نے حماس کے دفاتر بند کردیے تھے اور تحریک کی قیادت کو بیدخل کردیا تھا۔ بیس سال بعد حماس اوراردن کے درمیان رابطے جاری ہیں۔ پس چلمن جاری ان رابطوں کا اصل محرک ذاتی اور انسانی نوعیت کا ہے ناکہ سیاسی نوعیت کا۔تقریباً دو سال سے تحریک اردن کے ساتھ اپنے مفادات کے لیے تعلقات کی سطح میں مثبت پیش رفت کی کوشش کر رہی ہے۔ حماس کے رہ نما عمان کو اس کے سیاسی موقف کے اعتبار سے دیگر عرب دارالحکومتوں کی نسبت زیادہ قریب سمجھتے ہیں۔ خاص طور پر فلسطین کے مسئلے، سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے لیے پیش کردہ سنچری ڈیل کو مسترد کیے جانے اور یروشلم میں اسلامی اور مسیحی مقدسات کی اردن کی ہاشمی مملکت کی نگرانی میں اسرائیلی مداخلت جیسے امور میں حماس اور اردن کے درمیان قربت پائی جاتی ہے۔
اردنی پابندی اور سیاسی ویٹو:دوسری طرف اردن کی ہچکچاہٹ ان تمام کوششوں کے سامنے واضح ہے جس کا مقصد تحریک کے رہ نماؤں کے اردن کے دارالحکومت کے سرکاری دورے کو کامیاب قرار دینا تھا۔ تمام اعداد وشماراس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اردن کا کمپاس ابھی تک کسی بڑی کشادگی کی طرف اشارہ نہیں کرتا۔ اس سمت میں مقامی دھاروں کے دباؤ کے باوجودعمان کی جانب سے خطے میں اسرائیل پر دباؤ کے ایک آلے کے طور پر استعمال کرنے اور اس کے اسٹریٹجک اختیارات کو متنوع بنانے کے لییعمان نئے اتحاد کی کوشش کررہا ہے۔یہ مطالبات اردن کی پارلیمنٹ میں "اخوان المسلمون” اور اس کے پارلیمانی بلاک کی طرف سے پیش کیے گئے ہیں لیکن عمان نے اب تک فلسطینی اتھارٹی کو فلسطینی علاقوں میں اہم سیاسی شراکت دار ماننے پر اصرار کیا ہے۔”حماس” کے رہ نما اسماعیل ھنیہ کے ساتھ اردنی انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر کی طرف سے چند ماہ قبل کیے گئے رابطے کے سوا دونوں فریقین کے درمیان کوئی حقیقی رابطہ نہیں ہے جس سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ یہ تعلق ابھی تک محدود ہے جو سیاسی سطح پر نہیں بلکہ محدود پیمانے پر صرف سیکیورٹی کی حد تک محدود ہے۔ البتہ سیاسی سطح پر حماس اور اردن کے درمیان تعلق کو سنہ 1999 کی پوزیشن پر واپس لانا مشکل ہے۔حتیٰ کہ تحریک کی جانب سے چند ماہ قبل تحریک کے اردنی رہنما انجینیر ابراہیم غوشہ کی نماز جنازہ میں اسماعیل ہنیہ اور خالد مشعل کی شرکت دراصل عمان کی طرف سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پردی گئی اجازت کا حصہ تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ اْردن میں سیاسی "ویٹو” ابھی تک برقرار ہے۔ایسا لگتا ہے کہ اس موقف کا اطلاق فلسطین کے تمام اسلام پسندوں پر ہوتا ہے، کیونکہ اردنی حکام نے 1948 میں مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے اندرسرگرم "اسلامی تحریک” کے سربراہ شیخ رائد صلاح کو بھی ملنے سے روک رکھا ہے۔
اردنی قیدیوں کا پتا:ان حقائق کی روشنی اور اردنی فریق کی جانب سے "حماس” کے ساتھ تعلقات کو محدود رابطوں تک محدود رکھنے کی خواہش کے بعد حماس کو لگا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کی ممکنہ ڈیل میں اردنی قیدیوں کا نام شامل کرکے عمان کی ہمدردی حاصل کرسکتی ہے۔تحریک نے اردن کی پارلیمانی اور سیاسی شخصیات سے وعدے کیے جن میں اردنی قیدیوں کے نام بھی اس ممکنہ معاہدے میں شامل کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔اسرائیلی جیلوں میں اردنی قیدیوں کے معاملے کو ایک کانٹے دار اور باعث عار فائل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ خاص طور پر اردن میں عوامی سطح پر حکومت پر لاپرواہی کا الزام لگایا گیا ہے اورکہا گیا ہے کہ ان کی رہائی کے لیے سنجیدگی سے کوشش نہیں کی جا رہی ہے۔اسرائیلی جیلوں میں 21 اردنی قیدی موجود ہیں جن میں سے زیادہ ترعمرقید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ 1967 سے لاپتہ ہونے والے درجنوں افراد بھی شامل ہیں جن کے بارے میں آج تک کچھ پتا نہیں۔
تہران تعلقات میں رکاوٹ:سنہ 2020 کے اوائل میں عمان نے حماس تحریک کے سیاسی بیورو کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی جانب سے مملکت کا دورہ کرنے کی درخواست کو مسترد کر دیا۔ اس کی وجہ اسماعیل ھنیہ کا متنازع دورہ تہران تھا جس میں انہوں نے ایران میں "قدس فورس” کے کمانڈرقاسم سلیمانی کی آخری رسومات میں شرکت کی تھی۔اردن نے اس وقت ہنیہ کے اقدام کے بارے میں اورسلیمانی کے قتل کے حوالے سے "حماس” تحریک کے عمومی موقف پراپنی ناراضگی کا اظہار کیا خاص طور پر یہ کہ مؤخر الذکر پر مملکت کی سرزمین پر دہشت گردی کی متعدد سازشوں میں ملوث ہونے کا الزام تھا۔تحریک کے بار بار اردنی ریاست کے اعلیٰ مفادات کے تئیں اپنی دلچسپی کا اثبات کرنے اور یکے بعد دیگرے ٹیلی گرام بھیجنے کے باوجود اردن کے شاہ عبداللہ دوم تمام سیاسی اسلام کی تحریکوں کے لیے گرم جوشی کا مظاہرہ نہیں کررہے ہیں۔ سنہ 2013 میں انہوں نے اخوان پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ "بھیڑوں کے لباس میں بھیڑیے” ہیں۔