اسلام ۔حقوق انسانی کاعلم بردار
ہر سلیم الطبع، انسانیت پسند اور خالی الذہن انسان جب کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کا عمیق نظری سے مطالعہ کرے گا، پھر اس میں غور و فکر اور تدبر سے کام لے گا تو ان کے سامنے یہ بات بالکل آشکارا ہوجائے گی اور ان کی زبانیں بے ساختہ یہ پکار اٹھیں گی کہ مذہب اسلام انسانی حقوق کا سب سے بڑا علم بردار ہے ۔
اسلام ابتدائے آفرینش سے ہی امن وامان، ظلم و زیادتی سے کوسوں دور، مساوات، نرمی، مصالحت، فرقہ پرستی سے مکمل دوری اور عدل و انصاف کا درس دیتا ہے، وہیں قبول اسلام پر مجبور کرنے سے مکمل طور سے منع کرتا ہے، اسی مضمون کو اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ آیت نمبر 256 میں بیان فرمایا ہے ” لا إكراه في الدين ” کہ دین میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔ دین میں زور زبردستی اس لیے نہیں ہے کہ دین کا تعلق قلب سے ہے اور قلب پر جبر و اکراہ کی گنجائش نہیں ہوتی ہے۔ گویا اس حقیقت کا اعلان ہے کہ ایمان کا تعلق اپنے قصد و اختیار سے ہے، جبر و اضطرار پر بالکل نہیں ہے۔ اللہ رب العزت نے پیغمبر علیہ السلام کی زبانی اس حقیقت کو یوں واضح کیا ہے ” قل يا أيها الناس قد جاءكم الحق من ربكم فمن اهتدى فإنما يهتدي لنفسه ومن ضل فإنما يضل عليها وما أنا بوكيل ” آپ کہہ دیجیے اے لوگو! تمہارے رب کی طرف سے حق آچکا ہے، اب جو سیدھی راہ اختیار کرے گا تو ہدایت اُسی کے لئے مفید ہے اور جو گم راہ ہے، اُس کی گم راہی اسی کے لئے تباہ کن ہے اور میں تمہارے اوپر کوئی حوال دار نہیں ہوں کہ زبردستی مسلمان بنادوں ۔ دوسری جگہ ارشاد ربانی ہے ” نحن أعلم بما يقولون وما أنت عليهم بجبار ” ( ق:45) اے نبی! جو باتیں یہ لوگ بتارہے ہیں ہم انہیں خوب جانتے ہیں، آپ کا کام ان سے جبراً منوانا نہیں ہے ۔
اسی طرح اسلام کا اصول یہ ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ تعلقات، معاہدات اور مصالحت کو اس وقت تک ختم نہیں کرتا ہے جب تک کہ غیر مسلموں کی طرف سے بدعہدی، خیانت اور فتنہ پردازی سامنے نہ آجائے۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ غیر مسلموں سے اہل اسلام کا تعلق اور روابط عام طور پرپُرامن اور خیر خواہانہ ہونا چاہئے، البتہ ان کی بدعہدی، مخالفانہ اقدامات اور مبنی بر فتنہ منصوبہ کا جواب ضرور دیا جائے گا اور یہ سب دائرۂ عدل وانصاف میں رہ کر ہوگا۔ مشرکین عرب سے آپ ؐنے جتنی بھی جنگیں لڑیں، سب مدافعانہ تھیں نہ کہ جارحانہ تھیں۔ غزوہ ٔ خندق میں مشرکین کے تمام قبیلے اہلِ اسلام پر حملہ آور ہوئے تھے تو اُس موقع پر یہ حکم دیا گیا تھا ” وقاتلوا المشركين كافة كما يقاتلونكم كافة ” ( توبه : 36 ) مشرکین سے مل کر لڑئیے جیسا کہ وہ آپ سے مل کر لڑتے ہیں ۔ اسی طرح یہودیوں کے ساتھ جو کچھ آپ علیہ السلام نے کیا، وہ ان کی بدعہدی اور سازشوں کا نتیجہ تھا، ان کو قتل اور جلا وطن کی بھیانک جرم کی سزا تھی ۔
اسلام کی اصول پسندی اور انسانیت نوازی کا واضح ثبوت یہ ہے کہ وہ میدان جنگ میں بچوں، عورتوں، بوڑھوں، مذہبی پیشواؤں اور جنگ سے بیزار شخص کو بھی قتل کرنے سے منع کرتا ہے تو پھر عام وقت میں قتل و قتال کی اجازت تو دور کی بات ہے ۔ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے ،ایک یہودی شخص کا جنازہ گزرا تو آپ علیہ السلام احتراماً کھڑے ہوگئے۔ کسی نے آپؐ سے کہا کہ یہ تو یہودی شخص تھا تو آپؐ نے فرمایا کہ کیا یہ انسان نہیں تھا ؟ یعنی اس کا انسان ہونا ہی اس کے احترام کی دلیل ہے ۔ اسلام اپنے متبعین کو یہ حکم دیتا ہے کہ وہ اپنے معاشرے کے اپاہج، کمزور، بیوہ، یتیموں اور مسکینوں پر اپنے اپنے مال کو خرچ کرے ،خواہ وہ حاجت مند مسلمان ہو یا غیر مسلم ۔ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اپنے خلافت کے زمانے میں ایک نابینا معذور ذمی کافر کو مانگتے ہوئے دیکھا تو فوراً یہ حکم دیا کہ اس سے اور اس جیسے معذور افراد سے جزیہ ساقط کردیا جائے ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس طرح کے بےشمار واقعات اسلامی تاریخ میں موجود ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ اسلام امن پسند، انسانیت دوست اور حقوق انسانی کا سب سے بڑا علم بردار ہے ۔ اب جو ان حقائق سے دانستہ طور پر چشم پوشی کرے گا تو یہ تعصب اور تنگ نظری کا نتیجہ ہی سمجھا جائے گا ۔