کیا ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ صدر بننے کی تیاری کر رہے ہیں؟
واشنگٹن،اکتوبر۔آئیوا، امریکی صدارتی انتخابی عمل میں ایک اہم ریاست ہے اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے آئیوا کے حالیہ دورے نے ان چہ مگوئیوں کو جنم دیا ہے کہ ٹرمپ 2024 میں صدارتی انتخاب لڑنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ ریپبلکن پارٹی کی ووٹروں انتہائی مقبولیت ہونے کے ساتھ ساتھ ریپبلکن سیاستدان ان کی کہی ہر بات مانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پارٹی میں وہ ابھی بھی ایک اہم ستون ہیں۔ لیکن اگر وہ صدارتی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں تو اس پارٹی میں وہ اکیلے ہیں۔ کم از کم کچھ قدامت پسند ایسے ہیں جو ان کے صدارتی انتخاب لڑنے کے خیال سے متفق نہیں ہیں۔ سنیچر کی رات ریاست آئیوا میں ڈی موئن کے مقام پر ڈونلڈ ٹرمپ کی ریلی ایک اہم لمحہ تھا۔ اپنی تقریباً دو گھنٹے کی تقریر کے تقریباً وسط میں انھوں نے سینیٹر چک گراسلی کو سٹیج پر بلایا اور ان کی آئندہ انتخابی مہم کی حمایت کا اعلان کیا۔ 88 سالہ سینیٹر گراسلی امریکی سینیٹ میں سب سے طویل عرصے سے کام کرنے والے ریپبلکن سینیٹر ہیں۔ جب وہ پہلی مرتبہ کسی پبلک آفس کے لیے منتخب ہوئے تھے تو ڈوائٹ آئیزن ہاور صدر تھے۔ انھوں نے اپنے گذشتہ چار انتخابات تقریباً 34 فیصد کی حمایت سے جیتے ہیں اور 1980 سے کسی رپبلکن نے انھیں چیلنج نہیں کیا ہے۔ اگر ریپبلکن پارٹی میں کوئی واحد شخص ہے جسے الیکشن جیتنے کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کی ضرورت نہیں ہے وہ چک گراسلی ہیں۔ گذشتہ جنوری میں گراسلی متعدد اہم رپبلکن سیاستدانوں کی طرح ڈونلڈ ٹرمپ سے اپنے روابط منقطع کرنے والے نظر آئے۔ انھوں نے 6 جنوری کو امریکی سینیٹ کی عمارت یو ایس کیپیٹل پر ٹرمپ حامیوں کے دھاوا بولنے کو امریکی جمہوریت پر حملہ قرار دیا تھا۔ فروری میں انھوں نے ایک پریس ریلیز جاری کی جس میں انھوں نے کہا کہ اگرچہ وہ ٹرمپ کے خلاف اس دھاوے کو ہوا دینے کے لیے الزام پر مواخذے کے مقدمے میں ان کے حق میں ووٹ ڈال رہے ہیں، انھوں نے اس وقت کے صدر کے انتخابات کے نتائج قبول نہ کرنے پر تنقید کی اور ان کے الفاظ کو ’شدید، جارحانہ اور غیر ذمہ دار‘ قرار دیا۔ مگر اکتوبر کی اس شام سابق صدر کے حامی اجتماع کے سامنے انھوں نے کھلے عام اپنے اقدام کا اعتراف کیا۔ انھوں نے کہا کہ‘میں رات کے وقت پیدا ضرور ہوا تھا۔ مگر میں کل رات پیدا نہیں ہوا۔ اگر میں اس شخص کی حمایت حاصل نہ کرتا جس نے ریپبلکن پارٹی کے 91 فیصد ووٹ حاصل کیے تو میں کچھ زیادہ سمجھدار نہ ہوتا۔‘ گراسلی کا اشارے ایک حالیہ سروے کی جانب تھا جو کہ اخبار ڈموئن رجسٹر نے کیا اور جس کے مطابق صدر ٹرمپ آئیوا میں اس وقت اپنی صدارت کے دور سے بھی زیادہ مقبول ہیں۔ اور ریپبلکن ووٹروں میں تو انھیں تقریباً سب کی سپورٹ حاصل ہے۔ اور ان کی یہی سپورٹ ان کی ریلی کے شرکا کی عکاس تھی۔ گراسلی کے ساتھ آئئوا کے گورنر کم رینلڈز اور امریکی ایوانِ نمائندگان میں آئیوا کے تین میں سے دو نمائندے موجود تھے۔ ایک ایسی ریاست جہاں 2024 کے صدارتی امیدوار کے لیے ملک کا پہلا ریپبلکن کاکس ہونا ہے، وہاں یہ ٹرمپ کی ریلی ایک طاقت کا اچھا مظاہرہ تھا۔ ڈی موئن میں ڈریک یونیورسٹی میں سیاست کی پروفیسر ریچل کاؤفیلڈ کہتی ہیں کہ ’یہی وہ جگہ ہے جہاں ڈونلڈ ٹرمپ نے سپورٹ حاصل کی تھی، ان دور دراز دیہی علاقوں میں جہاں یہ تاثر ہے کہ ان کی سیاسی نظام میں رسائی نہیں ہے اور واشنگٹن میں طاقتور عناصر ان پر توجہ نہیں دیتے۔‘ ڈونلڈ ٹرمپ کو ایسے لوگوں سے بات کرنے کا گر آتا ہے۔ وائٹ ہاؤس میں چار سال گزارنے اور پھر الیکشن ہارنے کے باوجود، یہ لوگ ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اس موقعے پر ٹرمپ ریلی ایک سیاسی موومنٹ کی صاف ترین شکل ہے۔ یہاں آئے لوگ پک اپ ٹرکوں میں آئے ہیں، یہاں ٹھیلے والے بائیڈن کو برا بھلا کہنے والی شرٹیں اور دیگر اشیا بیچ رہے ہیں، ماگا ٹوپیاں پہننے ان کے پکے مداح یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ڈیموکریٹس نے 2020 کا الیکشن چوری کیا اور ویکسینز حکومتی آمریت کا طریقہ ہے۔ شاید ان کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ ٹرمپ 2024 میں لوٹ آئیں گے۔ اس ریلی کے باہر لگے پوسٹروں پر ڈونلڈ ٹرمپ کی تصویر پر لکھا ہوا ہے، ’میں یاد آیا اب؟‘ اور ریلی کے اندر اس سوال کا جواب یک زبان ’ہاں‘ ہے۔ وسکانسن سے پانچ گھنٹے کا سفر کر کے آنے والی شنوا ہینسن کہتی ہیں کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ وہ واپس آئیں۔ وہ ان کے جیسے ہی ہیں وہ ان میں سے ہی آئے ہیں جن کی وہ نمائندگی کرتے ہیں۔ اس لیے ان کی آواز برسراقتدار لوگوں سے زیادہ بہتر ہے۔‘ روزنامہ واشنگٹن پوسٹ نے گزشتہ ہفتے خبر دی تھی کہ ٹرمپ اگست ہی میں اس وقت اپنی صدارتی مہم کا اعلان کرنے والے تھے جب صدر جو بائیڈن افغانستان سے انخلا میں الجھے ہوئے تھے۔ مگر انھیں اس بات پر قائل کر لیا گیا کہ وہ آئندہ برس گانگریس کے وسط مدتی انتخابات تک اپنا فیصلہ مؤخر کر دیں۔ اگر ٹرمپ ایک بار پھر سیاسی اکھاڑے میں کودنے کا سوچ رہے ہیں تو اس امکان کو ان کی ریلیوں سے باہر پذیرائی ملنا مشکل ہے۔ پیو کی حالیہ ریسرچ کے مطابق دو تہائی ریپبلکن ٹرمپ کو سیاسی میدان میں ایک اہم کھلاڑی کے طور پر دیکھنے کے حامی ہیں، نصف سے کچھ کم چاہتے ہیں کہ وہ تیسری صدارتی مدت کے لیے بھی پارٹی کے امیدوار بنیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر ٹرمپ 2024 میں پھر سے صدارتی امیدوار بننا چاہتے ہیں تو انھیں کئی ریپبلکن سینیٹروں کو اپنی جیت کا قائل کرنا ہوگا۔ بوب وینڈر پلاٹس آئیوا کے اہم اِوینجلیکل لیڈر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دوسرے ریپبلکن امیدوار بھی جن کی کارکردگی خاصی متاثر کن ہیں، جیسا کہ سابق نائب صدر مائیک پینس، سابق وزیر خارجہ مائیک پومپیو وغیرہ۔ مگر اس دوڑ میں ٹرمپ کی عمر بھی آڑے آ سکتی ہے۔ اس وقت ان کی عمر 75 سال ہے۔ پھر نیویارک میں ان کی تجارتی سرگرمیوں اور جارجیا میں الیکشن حکام پر دباؤ ڈالنے کے سلسلے میں ان کے خلاف مجرمانہ تحقیقات بھی ہو رہی ہیں۔ یہ معاملات ان کے لیے رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ صدر بائیڈن کی صدارت صرف نو ماہ پر محیط ہے۔ اگلے صدارتی انتخابات سے پہلے ابھی تین سال سے زیادہ کا عرصہ باقی ہے۔ مگر امریکہ میں کامیابی صدارتی مہم کئی برس پر پھیلی ہوئی ہوتی ہے جس پر ایک ارب ڈالر کے لگ بھگ خرچ آتا ہے، اور ایوان صدر کا راستہ آئیوا سے گزر کر جاتا ہے۔