ایرانی القدس فورس کے سربراہ کا اربیل کا غیر علانیہ دورہ
اربیل،جنوری۔ایرانی پاسدارن انقلاب کی القدس فورس کے کمانڈر اسماعیل قاآنی نے کل اتوار کی شام بغداد کے شمال میں اربیل کا دورہ کیا۔ یہ دورہ عراق میں سیاسی قوتوں بالخصوص شیعہ حلقوں کے بیچ خلیج ختم کرنے کی آخری کوشش نظر آ رہی ہے۔ اس کا مقصد "قومی اکثریت” کی حکومت کی تشکیل کے سلسلے میں مقتدی الصدر کے موقف کو آگے بڑھانا ہے۔باخبر ذرائع کے مطابق قاآنی کے اربیل کے دورے کا مقصد کرد سیاسی جماعتوں بالخصوص کردستان ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ سے ملاقات کرنا تھا۔ اس طرح نئی حکومت کی تشکیل کے معاملے پر تمام فریقوں کے نقطہ ہائے نظر کو قریب لایا جا سکے۔ اس لیے کہ مقتدی الصدر اور اریان کے ہمنوا رابطہ گروپ کے بیچ سمجھوتا ڈیڈ لاک کا شکار ہو چکا ہے۔جیہان یونیورسٹی میں بین الاقوامی قانون کے پروفیسر مہند الجنابی کے نزدیک اسماعیل قاآنی کا دورہ حکومتی تشکیل کے دوسرے مرحلے (ملکی صدر کے انتخاب) کے فیصلے سے قبل ایک آخری کوشش نظر آ رہی ہے۔ اس کا مقصد مقتدی الصدر اور ایرانی ہمنوا رابطہ گروپ کو ایک موقف پر لانا ہے۔العربیہ ڈاٹ نیٹ سے گفتگو کرتے ہوئے الجنابی کا کہنا تھا کہ قاآنی نے کردستان میں مسعود بارزانی سے اس بات پر قائل کرنے کے لیے ملاقات کی کہ وہ یا تو مقتدی الصدر کے ساتھ اپنا اتحاد ختم کر دیں اور یا پھر کردستان یونین پارٹی کے حق میں صدارت سے دست بردار ہو جائیں۔دوسری جانب مسلح جماعتوں کے امور کے ماہر اور تجزیہ کار فراس الیاس نے العربیہ ڈاٹ نیٹ کو بتایا کہ قبل از وقت انتخابات کے نتائج کے اعلان کے بعد سے ہی ایران عراقی مسلح گروپوں کو انہیں قبول کرنے پر اکسا رہا ہے۔ تاہم قاآنی کے اس دورے کا مقصد مقتدی الصدر پر دباؤ ڈالنا ہے کہ وہ تہران کے ہمنوا رابطہ گروپ کو نئی حکومت میں شامل کر لیں۔ ایران کا مسئلہ عراق میں اپنے نفوذ سے متعلق بحران تک محدود نہیں بلکہ یہ قاآنی کو سونپے گئے ایرانی مشن میں ناکامی کے ساتھ بھی مربوط ہے۔یاد رہے کہ مقتدی الصدر نے آخری انتخابات میں پارلیمنٹ کی 73 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ یہ 329 نشستوں کے ایوان میں کسی بھی جماعت کی سب سے زیادہ حاصل کردہ تعداد ہے۔اب موجودہ وزیر اعظم مصطفی الکاظمی کی حکومت کی جگہ نئی حکومت کی تشکیل اولین ترجیح ہے۔ تاہم یہ عمل پیچیدگیوں سے خالی نہیں ہے کویں کہ عموما ملک میں کوئی ایک گروپ تنہا اقتدار میں آنے میں کامیاب نہیں ہوتا۔ اس مقصد کے لیے اسے دیگر گروپوں اور جماعتوں کے ساتھ اقتدار کو تقسیم کرنا پڑتا ہے۔