امریکہ کو اُس کا تکبر لے ڈوبا
پروفیسر عتیق فاروقی
امریکی صدر جوبائیڈن نے کچھ عرصہ پہلے جب یہ اعلان کیاتھا کہ وہ 31؍اگست تک اپنے فوجیوںکو افغانستان سے ہٹالیںگے تبھی سے یہ چرچہ شروع ہوگئی تھی کہ امریکہ طالبان کو کنٹرول کیے بنا وہاں سے نکل رہاہے اوراُس کا منفی نتیجہ ضرور سامنے آئے گا۔ طالبان نے امریکی صدر کے اعلان کے بعد ہی افغانستان کے شہروں پر قبضہ کرناشروع کردیاتھا۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ افغان فوجیوںنے شاید ہی کہیں پر طالبان کا مقابلہ کیا ہو۔ ایسے حالات میں بھی امریکہ کا اندازہ یہ تھا کہ طالبان کے کابل تک پہنچنے میں کم ازکم 90دن لگ جائیں گے لیکن وہ ایک ہفتہ کے اندر ہی وہاںجادھمکے۔ اسی کے ساتھ افغانستان کو لیکر امریکی خفیہ ایجنسی کے اندازے کی پول کھل گئی۔طالبان کے کابل پر قبضہ کے ساتھ ہی ہزاروں افغانی شہری جس طرح ملک چھوڑنے کیلئے ہوائی اڈے پر جمع ہونے لگے اوراس سبب جیسے حالات پیدا ہوئے وہ دل دہلانے والے تھے۔ کئی لوگ افغانستان سے باہر نکلنے کیلئے ہوائی جہاز کے باہر ہی لٹک گئے اوراپنی جان گنوا بیٹھے۔ کئی والدین اپنے بچوںکو امریکی فوجیوں کو سونپنے لگے تاکہ ان کی جان بچ سکے۔
امریکہ نے گزشتہ بیس سالوںمیں قریب ۲ٹریلین ڈالر افغانستان میں خرچ کردیے۔ اُن میں سے قریب 80فیصد رقم امریکی فوجیوں اورکمپنیوں پر خرچ ہوئی۔باقی بیس فیصد وہاں کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں خرچ ہوئی۔ آخراتنی رقم خرچ کرنے کے بعد بھی امریکہ افغان فوجیوں کو اہل کیوں نہیں بناسکا؟ اِس کا یہی جواب ہے کہ امریکہ نے افغانستان میں وہی غلطی کی جوویتنام ،عراق،لیبیاوغیرہ نے کی تھی۔ امریکہ نے جس بھی ملک میں وہاںکے حالات اپنے حساب سے کنٹرول کرنے کی کوشش کی وہاں وہ ناکام ہی ہوا کیونکہ اُس نے کبھی بھی متعلقہ ملک کا سماجی ڈھانچہ اورزمینی حقیقت پر غور نہیں کیا۔ امریکی انتظامیہ ہمیشہ اس تکبرمیں رہاکہ اپنی فوجی طاقت کی بدولت وہ کسی بھی ملک میں اپنے پٹھو قائدین کو کھڑا کرکے استحکام پیدا کرے گا۔ تاریخ شاہد ہے کہ وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب نہیں رہا۔ امریکی انتظامیہ افغانستان کے چیلنج کو سمجھنے سے انکار کرتارہا۔ اُس نے یہی سمجھا کہ وہ صدر اشرف غنی کو جمہوری طاقت بنانے کے ساتھ افغان فوج کو مضبوط بنارہاہے۔ اس کی یہ سوچ غلط ثابت ہوئی۔اُس کا ذمہ دار وہی ہے ۔ اُس نے جب دوحہ میں طالبان سے سمجھوتہ کیا تب غنی حکومت کو اس سے باہر رکھا۔اُس سے غنی حکومت اورافغان فوج دونوںکے حوصلے پست ہوئے۔ افغانستان کو لیکر امریکہ نے کئی ایسی غلطیاں کیں جس کا اُسے جواب دیناہوگا۔ایک توفوج کے انخلاء کا اُس کا فیصلہ سوالوں کے گھیرے میں ہے اور دوسرے اُسے اس بات کا بھی جواب دیناہوگا کہ اس بات کو یقینی کیوں نہیں بنایاگیا کہ امریکی فوج کے جدید ترین اسلحے اورسازوسامان طالبان کے ہاتھوں نہ لگنے پائے۔ طالبان کے ہاتھ لگے یہ اسلحے آج ساری دنیا کیلئے خطرہ بن سکتے ہیں۔
افغان فوجیوںنے طالبان کے سامنے جس طرح ہاتھ کھڑے کردیے اُس سے ظاہر ہوتاہے کہ وہ ایک کمزور فوجی طاقت تھی۔ملک چھوڑ کر بھاگے اشرف غنی نے صفائی دی کہ انہیں اپنی جان کابھی خطرہ تھا کیونکہ انہیں طالبان نے پچیس سال قبل افغانستان کے اُس وقت کے صدر نجیب اللہ کو ہلاک کرکے لیپ پوسٹ پر لٹکادیاتھا ۔ اُن کا خوف صحیح بھی ہوسکتاتھا لیکن یہ بھی دیکھنا ہوگاکہ انہوں نے امریکہ کو اندھیرے میں رکھا اورخود امریکی افسران بھی یہ نہیں دیکھ سکے کہ افغان فوج کس حال میں ہے؟افغان فوجیوں کو وقت سے تنخواہ ملنا تو دور رہا،وردی اور جوتے تک اُنہیں نہیں ملتے تھے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ امریکہ اورافغان افسران کی بدعنوانی کے سبب تین لاکھ کی تعداد والی افغان فوج صرف کاغذوں پر کھڑی ہوئی ہو۔
امریکہ سے ایک بڑی بھول یہ بھی ہوئی ہے کہ اُس نے طالبان کی جڑ پر حملہ نہیںکیا۔طالبان کی جڑیں پاکستان میں بھی بتائی جاتی ہیں۔ اُن کے کابل میں قابض ہوجانے کے بعد پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے یہ کہا کہ اب افغانستان غلامی سے آزاد ہوگیا۔ پاکستان طالبان کے ذریعہ افغانستان پر دبدبہ بنانا چاہتاہے۔یہ بات امریکہ بھی جانتاتھا پر اُس نے اپنے قومی مفاد کے مدنظر پاکستان کو کبھی سزا نہیں دی۔اُس کی ایک اور وجہ بھی ہے ، چاہے طالبان ہو یا دنیا کی دوسری دہشت گرد تنظیمیں ہوں سبھی امریکہ کی کوششوں سے وجود میں آئی ہیں۔ بظاہر امریکہ کا سب سے بڑا دشمن اُسامہ بن لادن افغانستان سے فرار ہوکر پاکستان میں ہی چھپا تھا۔ امریکی انتظامیہ پاکستان کی اصلیت کو سمجھتے ہوئے بھی آنکھیں بند کیے ہوئے تھی ۔ اُس نے اس کے تئیں آگاہ کرنے والی امریکی دانشوروں کی رپورٹوں کو بھی نظرانداز کیا۔ ایسا کیوں ہے؟9/11؍ابھی بھی ایک پہیلی بنا ہواہے۔ ان دوسوالوںکاجواب امریکہ آج تک نہیں دے سکا۔اول،جس دن ٹریڈ سینٹر پر حملہ ہوا اُس دن وہاں سارے یہودی غیرحاضرکیوں تھے؟دوئم، جب امریکی فوجیوں نے پاکستان میں چھپے اُسامہ بن لادن کو مارڈالا تو اُس کی لاش کو دنیا کی نظروں سے کیوں غائب کردیا؟شاید ان سوالات کا جواب امریکہ دینا نہیں چاہتا۔اگراُس نے اِ ن کے جواب دیے تو اُسامہ بن لادن سے متعلق ساری کہانی پلٹ سکتی ہے۔
ہندوستان بھی امریکہ کو پاکستان کے منصوبوں کو لیکر آگاہ کرتارہالیکن اُس نے انجانے میںیاجان بوجھ کر اپنی آنکھیںنہیں کھولیں ۔ امریکہ کی کوششوں سے پاکستان چند دہشت گرد تنظیموں کی جائے پناہ بھی ہے۔ وجہ جو بھی ہو پاکستان کے تئیں امریکہ کی خارجہ پالیسی کھوکھلی بھی ہے اوربے سمت بھی ہے ۔آج اگر امریکہ ہر طرف مذاق اڑایاجارہاہے اوراس پر یہ الزام عائد کیاجارہاہے کہ اُس نے افغانستان کو مکمل طور پر برباد کردیا تو اُس کی وجہ اُس کی پاکستان کے تئیں ڈھلمل خارجہ پالیسی ہے۔ طالبان افغانستان پرقابض تو ہوگئے لیکن ان کیلئے ایڈمنسٹریشن آسان نہیں ہے۔ افغانستان میں غریبی بے تحاشہ ہے اورمعیشت تنگ حال ہے ۔ ملک کی معیشت افیم کی کھیتی پر منحصر ہے ۔افغانستان میں افیم ،ہیروئن وغیرہ کی پیداوارسب سے زیادہ ہے۔ امریکہ نشے کے اس کاروبار کو بھی کنٹرول نہیں کرسکا۔
دراصل اپنے ملک کے عوام اورحکمراں جماعت کا عام نظریہ ہے کہ افغانستان میں طالبان کے جس گروپ نے اپنی کوششوں سے جنگ لڑکر اقتدار حاصل کیاہے وہ چاہے جو بھی دعویٰ کرے اس میں کوئی بنیادی تبدیلی ہوتی ہوئی نظرنہیںآرہی ہے لیکن دراصل یہ موقف روایتی اورجانبدارانہ ہے ۔ افغانستان میں برسرِ اقتدارطالبان نے جودعوے کیے ہیں اورجس طرح سے اپنے مخالفین کو عام معافی دینے کا اعلان کیاہے وہ قابل احترام ہے۔ حکمراں طالبان نے سبھی کو امن وآشتی کا پیغام دیاہے اورہندوستانی ایمبسی کے عملہ کو طالبان کے اراکین نے اپنی نگرانی میں ائیرپورٹ تک محفوظ طریقہ سے پہنچایاتھا۔انہوں نے افغانستان میں عورتوںکے حقوق کو محفوظ رکھنے کا بھی یقین دلایاہے۔اِن حالات میں براہ راست انہیں دہشت گرد کہہ دینا غیرمناسب بات ہے۔ دراصل ہمیں اِس بات کو سمجھنا ہوگا کہ پاکستان کی تحریک طالبان اورافغانستان کی حکمراں طالبان میں واضح فرق ہے ۔پاکستانی تحریکِ طالبان کو اگردہشت گردکہاجائے تو غلط نہ ہوگاکیونکہ یہ لوگ پاکستان میں بھی دہشت گردی کے واقعات میں ملوث رہے ہیں۔ پاکستانی حکومت خود انہیں سالوں سے جھیل رہی ہے ۔ تحریک طالبان کا ایک گروپ اب بھی افغانستان میں طالبان حکومت کے خلاف سرگرم ہے۔ لہٰذا ہماری حکومت کو پہلے افغانستان کی طالبان حکومت سے مذاکرہ کرناچاہیے اوراس کے بعد افغانستان سے متعلق خارجہ پالیسی مرتب کرنی چاہیے۔ہمارے ملک میں افغانستان نے اچھی خاصی سرمایہ کاری کی ہے اوریہ ہمارے مفاد میں ہوگا کہ وہاں کے حالات کاگہرائی سے جائزہ لیں اور وہاں سے متعلق خارجہ پالیسی مرتب کرنے میں ہماری حکومت جلدبازی نہ کرے۔ اقوام کے متحدہ کے جنرل سکریٹری اینٹونیو گوٹرس نے بھی دنیا کے تمام ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ افغانستان میں حکمراں طالبان سے مذاکرہ کریں اورپھراُسے تسلیم کریں۔ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگاکہ پاکستان اورچین کس حدتک افغانستان کے نوتعمیر اورحسب معمول زندگی کی بحالی کا کردار ادا کرنے کیلئے تیار ہیں۔ چین کی خواہش بیلٹ اینڈروڈ منصوبہ افغانستان تک لے جانے کا ہے۔ جہاںتک ہمارے ملک کا تعلق ہے افغانستان کے نوتعمیر اوربنیادی ڈھانچے میں تین ارب ڈالر پہلے ہی خرچ ہوچکے ہیں۔ اب ضرورت اِس بات کی ہے کہ پاکستان ،چین،افغانستان اورہندوستان آپسی تعلقات میں سدھار کرکے ایک ساتھ چلیں تاکہ ہمیں امریکہ جیسے ناقابل بھروسہ ملک پر بہت زیادہ انحصار نہ کرناپڑے۔ روس اب بہتر آپشن ہے ۔