فرانس اور جرمنی کے رہنماؤں کا صدر پوتن کو فون
صدر زیلنسکی سے براہ راست سنجیدہ مذاکرات کا مطالبہ
ماسکو/برلن،مئی۔جرمن چانسلر کے دفتر نے اعلان کیا ہے کہ فرانس اور جرمنی کے سربراہوں نے روس کے صدر ولادیمیر پوتن پر زور دیا ہے کہ وہ یوکرین کے صدر کے ساتھ براہ راست (اور) سنجیدہ مذاکرات کریں۔اعلان کے مطابق، ایمینوئل میکروں اور اولف شولز نے پوتن سے فون پر 80 منٹ تک گفتگو کی ہے۔جرمن چانسلر کے دفتر نے کہا کہ شولز نے پوتن سے فوری جنگ بندی اور روسی فوجیوں کے انخلا پر اصرار کیا۔ کریملن کے مطابق روس کے رہنما نے کہا کہ ان کا ملک یوکرین کے ساتھ مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لیے تیار ہے۔اس اعلان میں پوتن اور ان کے یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کے درمیان براہ راست بات چیت کے امکان کا ذکر نہیں کیا گیا۔یوکرین کے صدر نے اس سے قبل کہا تھا کہ وہ مذاکرات کے خواہش مند نہیں ہیں، تاہم انھوں نے مزید کہا کہ ممکنہ طور پر تنازعہ کو ختم کرنے کے لیے بالآخر مذاکرات ضروری ہوں گے۔24 فروری کو روس کے حملے کے بعد سے روسی اور یوکراینی وفود نے کئی مربتہ مذاکرات کیے ہیں، لیکن یہ کوششیں کافی عرصے سے تعطل کا شکار ہیں۔فرانس اور جرمنی نے بھی مسٹر پوتن پر زور دیا کہ وہ ماریوپول میں ازووسٹل اسٹیل ورکس میں جنگی قیدی بنائے گئے 2500 یوکرائنی جنگجوؤں کو رہا کر دے۔وسیع و عریض فیکٹری جنوبی بندرگاہی شہر میں یوکرینی فوجوں کا آخری محاذ بن گئی تھی، اس فیکٹری پر روسی فوج نے اندھا دھند بمباری کی تھی جس کی وجہ سے یہ اب کھنڈرات میں بدل چکی ہے۔اس ماہ کے شروع میں ماسکو میں حکام نے کہا تھا کہ فیکٹری کے پلانٹ کا دفاع کرنے والے آخری جنگجوؤں نے ہتھیار ڈال دیے ہیں، جب کہ صدر زیلنسکی نے کہا تھا کہ انہیں وہاں سے نکلنے کی اجازت دی گئی تھی۔روس نے پہلے کہا تھا کہ 900 سے زیادہ جنگجوؤں کو روس کے زیر قبضہ ڈونیسک کے ایک گاؤں اولینیوکا کی ایک بڑی جیل میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ ڈونیسک کے قصبے نوواازوسک کے ایک اسپتال میں ان فوجیوں کی ایک چھوٹی تعداد کو شدید زخمی حالت میں منتقل کیا گیا ہے۔یوکرین کو امید ہے کہ انہیں قیدیوں کے تبادلے کے حصے کے طور پر رہا کیا جائے گا – لیکن روس نے اس کی تصدیق نہیں کی ہے۔ کچھ روسی قانون سازوں کا کہنا ہے کہ جنگجوؤں پر مقدمہ چلایا جانا چاہیے یا انہیں پھانسی بھی دی جانی چاہیے۔اس کے علاوہ ٹیلی فون پر گفتگو کے دوران فرانسیسی اور جرمن رہنماؤں نے مسٹر پوتن سے کہا کہ روس یوکرین کی بندرگاہ اوڈیسا کی ناکہ بندی ختم کر دے تاکہ یوکرین سے گندم کی برآمدات کا آغاز ہو سکے۔کریملن نے کہا کہ مسٹر پوتن نے خوراک کے عالمی بحران کے خطرے سے نمٹنے میں مدد کے لیے آپشنز پر غور کرنے کی پیشکش کی لیکن مغرب سے پابندیاں ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔روس نے فرانس اور جرمنی کو یوکرین کو ہتھیاروں کی سپلائی میں اضافے کے حوالے سے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے عدم استحکام مزید بڑھ سکتا ہے۔صدر پوتن اور صدر میکروں اور چانسلر شولٹز کے درمیان ٹیلی فون پر ہونے والی گفتگو کی کریملن سے جاری ہونے والی رپورٹ کو پڑھنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ روس یوکرین میں امن مشن کی کارروائی کر رہا ہے۔ ماریوپول کی جنوبی بندرگاہ میں اس کے اقدامات ایک ایسا شہر جو ملبے کا ڈھیر بن گیا ہے یہ سب پرامن زندگی کے قیام اور آزادی کے لیے کیا جا رہا ہے۔یہ نہ صرف یورپی یونین کے اتحادیوں کے موقف کے بالکل برعکس ہے – جن کا کہنا ہے کہ یہ گفتگو تمام آزاد مبصرین کے شواہد کے ساتھ ہتھیار ڈالنے والے 2,500 جنگی قیدیوں کی فلاح و بہبود کی لیے کی گئی تھی۔ ان آزاد شواہد میں یوکرین کے مشرقی حصے میں قابض روسی افواج کی طرف سے جنگی جرائم کی متعدد، مصدقہ اطلاعات شامل ہیں۔اس کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ یورپی یونین کے دو طاقتور ترین رہنما روس کے صدر کے ساتھ براہ راست بات چیت کر رہے ہیں۔سفارتی حل کے لیے ان کے مطالبے کو، یہاں تک کہ جب روسی افواج ڈونباس میں پیش قدمی کر رہی ہیں، تمام مغربی اتحادیوں کی حمایت حاصل نہیں ہے، جنہیں خدشہ ہے کہ اس سے امن کے بدلے میں یوکرین پر علاقہ چھوڑنے کے لیے دباؤ ڈالا جا سکتا ہے۔یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب ماسکو نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے یوکرین کے اہم شہر لیمن پر قبضہ کر لیا ہے جو کہ دو شہروں کے سنگم پر واقع ہے اور سیویروڈونسک پر اپنا حملہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ صنعتی شہر کو کئی دنوں سے گھیرے میں لیا گیا ہے۔ ایسی اطلاعات بھی آرہی ہیں کہ یوکرین وہاں سے اپنی افواج کے اسٹریٹجک پسپائی کا حکم دے سکتا ہے۔یہ کہنا بہت جلد ہوگا کہ آج کی سفارت کاری کی کوششیں مغربی اتحاد کے بکھرنے کا اشارہ دے رہی ہیں… تاہم اس سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ اب یورپ میں مختلف موقف واضح ہو رہے ہیں۔اتوار کو جاری ہونے والی فوجی کارروائیوں کی تفصیلات میں بتایا گیا ہے کہ یوکرین کے فوجی حکام نے کہا کہ سیویروڈونسک شہر کے ارد گرد شدید لڑائی جاری ہے جو کہ یوکرین کا سب سے مشرقی مقام ہے اب بھی یوکرین کی فوج کے کنٹرول میں ہے۔ لوہانسک کے علاقے کے گورنر سیرہی ہیدائی نے کہا کہ اْس جگہ دو شہری رات کی بمباری کے دوران مارے گئے۔ روس نے میزائل اور توپ خانے سے شہر پر شدید فائرنگ جاری رکھی ہوئی ہے۔ جمعہ کو حکام نے کہا کہ اس کے دو تہائی علاقے کو روسی افواج نے گھیر لیا ہے۔مسٹر ہیدائی نے اپنے اس مشاہدے کے ساتھ کہ یہ ممکن ہے کہ گھیرے میں نہ آنے کے لیے، انہیں وہاں سے جانا پڑے، کہا تھا کہ یوکرین کے فوجی سیویروڈونسک سے پسپائی پر مجبور ہو سکتی ہے۔ لیکن علاقے کی ایک مقامی رکن پارلیمان یلیزاویتا یاسکو نے اتوار کو کہا کہ کیف کی فوجیں پورے شہر میں موجود ہیں۔انھوں نے کہا کہ پوتن کے لیے سیویروڈونسک ان جگہوں میں سے ایک بن گیا ہے جس پر وہ واقعی قبضہ کرنا چاہتا ہے کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ اس سے اسے پورے ڈونباس کے علاقے پر روس کی فوجی طاقت میں اضافہ ہو گا لیکن جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ لڑائیاں کتنی ہی سخت کیوں نہ ہوں، پھر بھی انہوں نے اس پر قبضہ نہیں کیا۔ مس یاسکو نے کہا لیکن میرے لیے یہ کہنا بہت تکلیف دہ ہے کیونکہ ہم اب بھی وہاں ہونے والے واقعات کے متاثرین کی تعداد کے بارے میں جانتے اور سنتے ہیں اور بدقسمتی سے وہاں انسانی ہمدردی کے لحاظ سے بھی صورت حال بد تر ہوتی جا رہی ہے۔ ہفتے کے روز بی بی سی کو دیئے گئے تبصروں میں، یوکرین کے وزیر اعظم ڈینس شمیہال نے کہا کہ ان کے ملک پر روسی حملے نے 25,000 کلومیٹر (15,000 میل) سے زیادہ سڑکیں، کئی سو پل اور 12 ہوائی اڈے تباہ کر دیے ہیں۔انہوں نے کہا کہ 100 سے زیادہ تعلیمی ادارے، 500 سے زیادہ ہسپتال، اور 200 فیکٹریاں بھی تباہ یا خراب ہو چکی ہیں۔انہوں نے یہ کہتے ہوئے کہ منجمد روسی اثاثے تعمیر نو کے کاموں کے لیے فنڈز کے لیے یوکرین کو منتقل کیے جائیں روس سے مطالبہ کیا کہ اس نے جو تباہی پیدا کی ہے اْسے اس کی قیمت ادا کرنے پر مجبور کیا جائے۔