ہم اپنا محاسبہ کیوں نہیں کرپاتے ؟
سید مصطفیٰ احمد
یہ حقیقت بالکل عیاں ہے کہ جوانسان اپنے اندرون کو جھانکتا ہے، وہ بہت کچھ پاتا ہے۔ ہم اس کو نہ صرف مذہبی لحاظ سے بلکہ سائنسی لحاظ سے بھی سمجھ سکتے ہیں۔ایک انسان خلیات میں بنا ہوا ہےاور انہی خلیوں میں انسان کی ساری حقیقت پنہاں ہے۔گویا اس مادے کے چھوٹے چھوٹے ذرات وہ سارا علم رکھتے ہیں، جو آسمان کو چھونے والی ایک عمارت رکھتی ہے۔جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ گہرا مشاہدہ انتہائی ضروری ہے۔ ایک بلندو بالا عمارت کا راز اگر ایک چھوٹے سے ذرے میں مقید ہے، تو اِدھر اُدھر دیکھنے کی کیا ضرورت ہےجبکہ انسان ہی سب کچھ ہے۔ اس کو اگر دوسرے انداز میں سمجھا جائے تو خالق کو دیکھنا ہو، تو انسان کو دیکھو۔ اِس سے اُس مالک کی پہچان ہوگی،جس نے اس کی تخلیق کی ہے۔ چنانچہ خالق نے ہی اِس دنیا میں بدی کو بھی بنا کر ایک انسان کو اعلیٰ اشرف بننے کی گنجائش رکھی ہے۔ خوبصورت دنیا میں بدی کا عنصر رکھ کر ایک خوبصورت انسان میں نجس وغلاظت رکھ دی۔ اُجالے کے ساتھ اندھیرا رکھا، نیز ہر جگہ پر بدی اور اچھائی کا ٹکراؤرکھا ہے۔ اب امتحان اس چیز کا لیا جائے گا کہ کون کیا کرتا ہے۔ کون دنیا کو ہوکر اُس مالکِ خالق کو بلا بیٹھے، جس نے اُچھلتے پانی سے انسان کو پیدا کیا ہے۔ یہ بات سمجھنے کے لائق ہے کہ دنیا کی ساری چیزیں خدا کی ہے، مگر وہ بار بار دہراتا ہے کہ یہ زینت عارضی ہے، اس میں مگن ہونے کا کوئی بھی فائدہ نہیں ہے۔ یہ سارا نظام میری منشا ہے، مگر تم اس کے لئے نہیں بنے ہو، تم کو تو کہیں اور جانا ہے۔ مگر جب ہم اپنے اردگرد نظر دوڑاتے ہیں تو ہر سُو یہی دکھائی دیتا ہے کہ لگ بھگ سارے انسان کہیں اور گم ہیں۔ سب لوگ جن کاموں میں گم ہیں، اُن کے متعلق پہلے ہی ہوشیار کیا گیا تھا کہ وہ تباہی کے کام ہیں۔ کوئی مکانوں کی دوڑ میں ، کوئی زمین خریدنے کی دوڑ میں، کوئی اپنے سارے بچوں کو گورنمنٹ ملازمت دلانے کی دوڑ میں، کوئی گاڑیوں کی دوڑ میں ،اور کوئی دیگردنیوی زینت کے حصول کی دوڑ میں ہے۔سَرپٹ ان دوڑوں میں دوڑنے والے انسان کو اصلی دوڑ سے بالکل بے خبر ہوچکے ہیں۔ اس کا ایک اوربُرا نتیجہ نہ صرف بےچینی اور ذہنی انتشار ہے بلکہ ایک دوسرے کو اپنی ناکامی اور بُربادی کا ذمہ دارٹھہرانے میں نکلا ہے۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ کوئی سمجھتا ہےکہ وہ بیمار اسلئے ہے کیونکہ فلاں شخص نے اس کے خلاف سازش کی۔ جس کے گھر میں جانور زندہ نہیں رہتے کیونکہ اُس کاہمسایہ چاہتا ہے کہ میں کاروبار میں اس کی برابری نہ کرسکے۔ اب اگر یہ صورتحال ہے، تو اس صورتحال کے لئے بہت سارے وجوہات کا عمل دخل ہے، جن کا ذکر آنے والی سطروں میں آئے گا۔ پہلا ہے مادیت۔ مادیت اگر حد میں ہو اور اس میں دوسروں کو بھی شامل کیا جائے تو کوئی گناہ نہیں ہے۔ مگر خرابی تب پیدا ہو جاتی ہے جب زندگی کا بنیادی مقصد ہی مادیت ہو۔ اس دنیا میں ایک کا حق دوسرے پر ہے۔ حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد بھی بہت ضروری ہے۔ جبکہ اپنی ذات کے بھی کچھ حقوق ہیں، جن میں سرفہرست ہے اپنے اندر جھانکنا۔ جھانکنا کیا ہوتا ہے؟ اس کے متعلق الگ الگ نظریات ہیں مگر بنیادی نظریہ ہے کہ انسان اپنی بناوٹ کو دیکھے، اپنے ابتداء اور انتہا کو سمجھے، اچھائی اور بُرائی کو پہچانے، اپنے اندر کے حیوان کو کنٹرول کرے، وغیرہ وغیرہ۔ جب باہر کی دنیا کا حیوان بدمست ہوجاتا ہے تو پھر اندر کا دروازہ بند ہوجاتا ہے، جس سے بظاہر باہر کا علم تو سمجھ میں آتا ہے، مگر اصلی علم سے ایک انسان بہت دور چلا جاتا ہے۔ دوسرا ہے ایمان کی کمزوری۔ ہم سبب پیدا کرنے والے پر بہت کم بھروسہ کرتے ہیں مگر اُس کی بنائی ہوئی چیزوں کو ہی آخری حد مانتے ہیں۔ اس کو اگر دوسرے انداز میں سمجھا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم رزاق پر بھروسہ کم مگر رزاق کی بنائی ہوئی چیزوں پر ہی تکیہ کئے ہوئے ہیں۔ خوشی کے اسباب مہیا ہو تو ہم لوگ ساتویں آسمان پر چلے جاتے ہیں اور جب غموں کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں تو مایوسی کے دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر ہم نے اپنے آپ کا محاسبہ کیا ہوتا، تو ہم دونوں صورتوں میں ایک جیسا دل رکھتے۔ ہمارے چہروں پر نہ خوشی کے اور نہ ہی غم کے آثار نمایاںہوجاتے، ہمارا دل وہ دل بن جاتا، جو غموں اور خوشیوں سے بےگانہ ہوتا۔ اس کا یہ ہرگزمطلب نہیں کہ اثر نہ ہو۔ اثر لینے کے باوجود بھی اس میں وہ خصائل ہو، جو ایک زندہ دل میں موجود ہوتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہوتے ہیںجو اللہ کے نور سے دیکھتے ہیں کیونکہ ان کو اپنا نور دکھائی دیا ہوتا ہے۔ تیسرا ہے دکھاوا۔ یہ بیماری لگ بھگ ہر کسی میں پائی جاتی ہے۔ جس سے زیادہ نقصان پہنچ جاتا ہے۔ وہ دکھانا ،جو انسان سرے سے ہی نہیں، سب سے بڑی تباہی ہے۔ اس قسم کا انسان ہر طریقہ اپناتا ہے تاکہ وہ کچھ دکھا سکے، جس کی کوئی بھی رمق اُس میں نہیں پائی جاتی ہے۔ اس قسم کے انسان کو در اصل اپنے آپ کی طرف دیکھنے اور اپنے اندرون کو جھانکنےکا موقع ہی نہیں ملتا ہے۔ وہ صرف اُس دھن میں رہتا ہے کہ کیسے اور کس طرح اپنی جھوٹی شان اور پہچان بہتر سے بہتر کروں۔ اس کے علاوہ وہ اس خام خیالی میں مگن ہے کہ اُسے کتنے لوگ دیکھتے ہیں، کتنے لوگ متاثر ہوئے ہیں اور کتنے لوگوں کو متاثر کرنا ہے۔ اس کا براہ راست اثر اُس شخص کے نا بینا ہونے کی شکل میں بھی نکلتا ہے اوروہ خود کا محاسبہ نہیں کرپاتا ہے۔ ایسے ہی لوگ آنکھیں پاکر بھی اندھے کہلاتے ہیں۔آخری ہے تکبر۔ جب انسان کو تکبر کی بیماری لگ جاتی ہے تو وہ اصلیت کو ماننے سے انکار کرتا ہے۔ وہ ایسے ماحول میں پروان چڑھتا ہے جہاںاس کی سوچ اسی حدود میں رہتی ہےکہ میں ہمیشہ ٹھیک ہوں، میں کھبی بھی غلط نہیں ہوسکتا، میرے اندر وہ سارے خصائل ہیں جو ایک دانا اور بینا انسان میں ہونے چاہئے۔ اس قسم کی سوچ کھبی بھی اُسے اپنامحاسبہ کرنے کا موقع نہیں دیتی ۔ محاسبہ کا معنی یہ بھی ہے کہ تم علی الاعلان یہ کہو کہ میں غلط ہوں اور جو میرے مدِ مقابل ہے، وہ حق پر ہے،یہ ہے معرفت۔ مگر تکبراس کے برعکس ہے ۔یعنی’’ میں اعلیٰ ہوں، میں غلط نہیں ہوسکتا، میرے باپ دادا یہ کرتے آئے ہیں، فلاں مولوی اور فلاں پیر صاحب نے ایسا کہاں ہے جو ہرگز غلط نہیں ہوسکتے۔ میرے پاس دلیلیں ہیں، میں کتابوں کے انبار لگاوں گا، میں اپنی بات ثابت کرنے کے لئے کسی بھی حدتک جانے کے لئے تیار ہوں، میں جلتی ہوئی آگ میں بھی کودنے کے لئے تیار ہوں‘‘۔ اس قسم کا رویہ محاسبہ کی راہ میں ایک بڑا پتھر ہے۔ وقت کی ضرورت ہے کہ ہم سب دوسروں پر انگلیاں اُٹھانے سے پہلے ایک انگلی اپنی طرف بھی اُٹھائیں۔ اس سے ہم سکون، خوشی اور قلبِ سلیم سے ہمکنار ہونگے۔ دنیا کو بدلنے سے بہتر ہے کہ اپنے آپ کو بدلا جائے۔ کم از کم ایک بدکار انسان تو کم ہو جائے گا۔