پوپ کا پیغام امن روزہ رکھنے کا فلسفہ
سفیان وحید صدیقی
یہ امن کے خواب تھے جو سوچا نہ تھا کہ پورے ہوپائے گے لیکن مسلسل اب چل پڑھتے ہیں جب یہ آواز آئی کیاللہ کی وحدانیت کو بنیاد بنا کر دنیا امن کا گہوارہ بنائی جاسکتی ہے تب مز ید پیش رفت اس طرح سامنے آئی کے مسلمان، عیسائی اور یہودی ایک ساتھ رہ اور ایک جیسے خواب دیکھ سکتے ہیں، بظاہر یہ بات لوگوں کو اتنی اہم نہیں لگی کیونکہ ذاتی مفادات پر حکمرانوں کے خواب ذاتی نوعیت کے ہیں جس پر ان کی اولادیںترقی اور پیسہ کماتی ہیں لیکن حکمران عوام کا کچھ بھلانہیں چاہتے ہیں۔مذہب کا نام تو لیتے ہیں لیکن مذہبی عقائد پر ایماندار و دیانتدار افرادکو معاشرے میں ان کی ایمانداری پرگالی بنادیتے ہیں۔ اور یہ سچ ہے کے آل ابراہیم ایک ساتھ رہ اور ایک جیسے خواب دیکھ سکتے ہیں اور یوں امریکی بین المذاہب ہم آہنگی دنیا کی تاریخ میں امن بحالی اورخوشحالی کی جانب اب نئی سمت گامزن ہورہی ہے۔ ایسے میں مسلم امہ بھی اس امن فلسفیکو امن کی جانب بڑھتاہوا قدم دیکھ رہے ہیں اور اس کی تکمیل پر ہی آراء ہے میری کے جتنا جلد ہو مسئلہ فلسطین کا منصفانہ حل تلاش کیا جائے کس پر یہ لازم دکھائی دیتاہے، فلسطین انبیائکی سرزمین ہے اور مقبوضہ بیت المقدس (یروشلم) کو آزادشہر بنادیا جائے۔ وقت ابراہیم کی اولادوں کا ان کے آباؤ اجداد کے اس عہد کو پورا کرنے کا آ گیا ہے جہاں آل ابراہیم سرزمین بیت المقدس (یروشلم) پر ایک دوسرے کو گلے لگا کر نفرتوں کی کھوکلی دیواروں کو گرا کر ام کا پودا لگا ئیں گے اور دین ابراہیم کیمتضاد مذاہب سے بامقصد مذاکرات کے دروازے کچھ اس طرح کھولیں گیکے جس پر تمام ہی مذاہب کا احترام اور انسانی خدمات پر ایک نقطے پر ہونا لازم ہے اور وہ فلسفہ امریکی ریاست نے دنیا کو بہت پہلے اپنی جمہوری روایت کی بدولت دیا ہوا ہے۔ امریکہ رنگ نسل زبان تقسیم سے بالاتر ہو کر انسانی اقوات و خدمات کو اپنا نسب العین بناتا ہے ہیں، دنیا بھر سے آئے ہوئے تارکین وطن امریکہ میں اپنا مستقبل تلاش کرتے ہیں کامیاب ہوتے ہیں اپنا گھر بناتے ہیں اپنی نسل کو آگے بڑھاتے ہیں اور سب سے خوبصورت بات یہ ہے کے وہ اپنی آبائی و ابستگی کو اپنے ساتھ دل سے لگاتے ہیں لیکن امریکی جمہوری روایات میں اس پر کوئی ممانعت نہیں بلکہ امریکہ اس طرزعمل کو خوش آئند قرار دیتا ہے۔یہی وہ امریکی خصوصیات ہیں جن پر چلتے ہوئے تمام ہی مذاہب اور اقوام امریکی امن فلسفے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ پاپ آف فرانس کے بیان افغانستان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر آتا ہے کے افغانستان امن کیلئے لوگ روزہ رکھیں، ابراہیم سے پہلے اور بعد میں آنے والے تمام انبیا ء اور چار رسولوں پر روزے فرض کئے گئے تھے۔ پاپ آف فرانس کے بیان این کا وہ دروازہ ہے جس کے اتفاق پر سب ہی یک آواز ہیں۔ ایسے میں میری نظر یہ دیکھ رہی ہے کے بین المذاہب ہم آ ہنگی میں امریکی مخالصانہ کوشش پر مذہبی رہنما کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے ماضی میں جو کچھ ہوا اب بھلا دیا جائے امن کی جانب گامزن ہونا دنیا کے امن پر اہمیت کا حامل ہے ایسے میں امام کعبہ امت مسلمہ کے بہترین فیصلوں کے کرنے کا اختیار رکھتے ہیں کیونکہ مسلم حکمرانوں نے امت کو بے حد مایوس کیا۔ابراہیم کی آل اولادوں میں حضرت موسیٰؑ اورمحمدﷺ کے پیرو کاروں کا ایمان ہے کے حضرت عیسیٰؑ نے واپس آنا ہے۔ موسیٰ علیہ سلام کے ماننے والوں کا اس معاملے پرمتفق ہونا امن کی جانب بہت بڑا قدم ہوگا۔ جنگوں نے کچھ نہیں دیا سوائے معصوم انسانی جانوں کے جاںبحق ہونے پر آنسوں بہانے کے کچھ اور نہیں دیا۔ لیکن یہاں ایک اوربڑا مسئلہ جودو قومیتوں کر درمیان زمینی جھگڑے کا ہے اس کے منصفانہ تقسیم پراقوام متحدہ کا دور یاستی حل ناگزیر ہے۔ لیکن یہ دونوں اقوام آپس کے جھگڑے کو مذہبی رنگ دے رہیہیں جبکہ بیت المقدس (یروشلم) تو تمام انبیاء کی سرزمین ہے جس کو اب آزادشہر بنادیا جائے اور انتظامی امور اقوام متحدہ کے زیرنگرانی کر دیا جائے کیونکہ تمام ہی مالک اقوام متحدہ کو اپنا مرکز مانتے ہیں اور مالک امریکی بین المذاہب ہم آہنگی کوشش پر دیگر مذاہب اور مما لک آل ابر اہیم کی سرزمین کو خوشحال بنانے کے لئے مالی معاونت کر سکتے ہیں یہ ایک تجویز ہے تا کہ اہل کتاب اپنے اباؤ اجدادکی سرزمین پر برابری کے حق سے عبادت اور زیارت سکیں۔ جو کچھ آج وہاں تعمیراتی حوالے سے موجود ہے اس پر ایک انچ برابر فرق نہ آنے پائے جس پر اقوام متحدہ کا بہت اہم کردارہے۔ تاہم اس امن کے پودے کو لگانے میں جہاں امریکی مخلصانہ جد و جہد دکھائی دے رہی ہے وہیں دیگر بڑے ممالک کی سعودی عرب و دیگر عرب ممالک، برطانیہ، روس، یورپی ممالک سمیت پاکستان ترکی، ایران، ملائیشیا ء سینٹرل ایشیاء ممالک اور افغانستان اپنا کردار ادا کریں۔ سعودی عرب اور ملکہ برطانیہ اس ان پودے کو لگانے پر امریکی بین المذاہب کوششوں پراپنی شفقت کا ہاتھ رکھیں۔