ممبر اسمبلی نوشاد صدیقی اور ان کے 88حامیوں کو ایک ماہ تک حراست میں رکھنے پر کلکتہ ہائی کورٹ نے سوال کھڑے کئے

مگر ضمانت آج بھی نہیں ملی۔اسمبلی اسپیکر نے بھی ضمانت کی حمایت کی

کلکتہ ،فروری ۔ آئی ایس ایف کے ممبر اسمبلی نوشاد صدیقی کی درخواست ضمانت پر سماعت کرتے ہوئے کلکتہ ہائی کورٹ نے ریاستی حکومت سے سخت سوالات کئے ۔آخر احتیاطی طور پر نوشاد صدیقی اور ان کے حامیوں کو ایک مہینے سے حراست میں رکھنے کا جواز کیا ہے ؟کیا کسی اور ممبر اسمبلی کے ساتھ اس طرح کا سلوک کیا جاتا ہے۔جسٹس جے مالیہ باگچی نے سوال کیا کہ ایک معاملے میں 88افراد کو حراست میں رکھنے کی حکمت عملی کیا ہے؟جج نے یہ بھی سوال کیا کہ ان 88افراد کے جرم کو ثابت کرنے کےلئے پولس کے پاس کوئی ویڈیو ریکارڈنگ موجود ہے ۔نوشا د صدیقی کے وکیل نے سوال کیا کہ ایک ممبر اسمبلی کی حیثیت سے انہیں احتجاج کرنے اور حکومت کی غلط پالیسیوں کے خلاف پروگرام کرنے کا جمہوریت میں اجازت ہے یا نہیں ہے۔کیا جمہوریت کے نام پر اس قسم کا رویہ اختیار کرنے کی اجازت دی جاسکتی ہے؟دوسری جانب حکومت کی جانب وکلا نے ان سوالوں کا جواب دینے کےلئے عدالت سے وقت مانگا جسے عدالت نے قبول کرلیا ہے اور اب اس معاملے میں الگی سماعت یکم مارچ کو ہوگی۔خیال رہے کہ بنک شال کورٹ نے انہیں 28فروری تک حراست میں رکھنے کا حکم دیا ہے۔خیال رہے کہ نوشا صدیقی کی قیادت میں 21جنوری کو کلکتہ میں پارٹی کا یوم تاسیس کا اہتمام کیا گیا تھا ۔تاہم پروگرام میں شرکت کرنے کےلئے آنے والے پارٹی ورکروں پر حملے کے خلاف پروگرام کے بعد کلکتہ شہر کے قلب دھرم تلہ میں احتجاج کیا گیا ۔اس کے بعد پولس نے لاٹھی چارج کرکے مجمع کو منتشر کردیا ۔اس کے بعد پارٹی ورکر اور پولس کے درمیان مبینہ طور پر جھڑپ ہوئی۔پولس نے آئی ایس ایف کے ممبر اسمبلی نوشاد صدیقی اور ان کے ساتھیوں کو پولس نے گرفتار کرلیا ۔اس کے بعد سے ہی نوشاد صدیقی جیل میں ہیں ۔نوشاد صدیقی کی گرفتاری پر ممتا بنرجی کی حکومت پر سوالات اٹھ رہے ہیں ۔بی جے پی کے لیڈران بھی اس کو اقلیت مخالف قدم قرار دے رہے ہیں ۔سیاسی لیڈروں کا کہنا ہے کہ اسی کلکتہ میں کئی احتجاجی پروگرام ہوئے ہیں اور پولس کے ساتھ جھڑپ ہوئے ہیں مگر کسی میں بھی اتنے بڑے پیمانے پر گرفتاری نہیں ہوئی ہے۔تاہم نوشاد صدیقی اور ان کے حامیوں کے خلاف حکومت کا سخت رویہ کیوں ہے؟ اس پر سوالات اٹھ رہے ہیں ۔دوسری جانب کلکتہ اسمبلی کے اسپیکر کلیان بنرجی نے کہا کہ ایک وکیل کے طور پر میں سمجھتا ہوں کہ نوشا د صدیقی کو ضمانت ملنی چاہیے ۔انہیں عدالت ضمانت کیوں نہیں دے رہی ہے ۔میں نہیں سمجھ سکتا ہوں ۔جج چاہتے تو ضمانت دے سکتے تھے ۔آئی ایس ایف کی ترجمان جوبی ساہا نے کہاکہ اسپیکرنے جو بیان دیا ہے وہ اچھا ہے تاہم یہ دیر سے سچائی کا اعتراف ہے۔ ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ یہ بیان ایک ماہ پہلے آنا چاہیے تھا۔ بی جے پی کے ترجمان شیامک بھٹاچاریہ نے کہا کہ اسپیکر کہتے ہیں کہ بحیثیت وکیل میں سمجھتا ہوں کہ انہیں ضمانت ملنی چاہیے۔مگر انہیں یہ بتانا چاہیے کہ وہ بحیثیت اسپیکرکیا سوچتے ہیں ۔

Related Articles