فلاح پا گیا وہ جس نےپاکیزگی اختیار کی اور اپنے رب کا نام لیتا رہا، پھر نماز پڑھی
گوہر مسلیانی
للہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں انسان کو تزکیے کی تلقین کی ہے۔ جتنے بھی احکامات ہیں، جتنی بھی ہدایات ہیں، سب کی اساس تزکیہ ہے۔ جو انسانی زندگی کو اس طرح نکھارتی ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ اور محسنِ انسانیتؐ کی اطاعت کرنے کے قابل ہوجاتا ہے اور دُنیوی و اُخروی فلاح کو پانے کی جدوجہد کرسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایک خاص عائلی مسئلے میں تزکیے کی برکت کا یوں اظہار کرتا ہے:’’اور جب تم عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت (پوری ہونے) کو آپہنچیں تو انہیں اچھے طریقے سے (اپنی زوجیت میں) روک لو یا انہیں اچھے طریقے سے چھوڑ دو، اور انہیں محض تکلیف دینے کے لئے نہ روکے رکھو کہ (ان پر) زیادتی کرتے رہو، اور جو کوئی ایسا کرے پس اس نے اپنی ہی جان پر ظلم کیا، اور اﷲ کے احکام کو مذاق نہ بنا لو، اور یاد کرو اﷲ کی اس نعمت کو جو تم پر (کی گئی) ہے اور اس کتاب کو جو اس نے تم پر نازل فرمائی ہے اور دانائی (کی باتوں) کو (جن کی اس نے تمہیں تعلیم دی ہے) وہ تمہیں (اس امر کی) نصیحت فرماتا ہے، اور اﷲ سے ڈرو اور جان لو کہ بیشک اﷲ سب کچھ جاننے والا ہے۔‘‘ (البقرہ:۲۳۱)اللہ تعالیٰ نے اس ناپسندیدہ عمل سے گریز کرنے کا ذکرکرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اس سے بچنا بھی تزکیے کے زمرے میں آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:’’اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو، یہاں تک کہ تم ان سے اجازت لے لو اور ان کے رہنے والوں کو (داخل ہوتے ہی) سلام کہا کرو، یہ تمہارے لئے بہتر (نصیحت) ہے تاکہ تم (اس کی حکمتوں میں) غور و فکر کرو، پھر اگر تم ان (گھروں) میں کسی شخص کو موجود نہ پاؤ تو تم ان کے اندر مت جایا کرو یہاں تک کہ تمہیں (اس بات کی) اجازت دی جائے اور اگر تم سے کہا جائے کہ واپس چلے جاؤ تو تم واپس پلٹ جایا کرو، یہ تمہارے حق میں بڑی پاکیزہ بات ہے، اور اللہ ان کاموں سے جو تم کرتے ہو خوب آگاہ ہے۔‘‘ (النور: ۲۷۔۲۸) اللہ تعالیٰ کی ذات کس قدر ہمدرد، مصلح اور انسانوں کی مددگار ہے کہ وہ ان اسباب کا خاتمہ کرنے کی بھی فکر کرتی ہے جو کسی شخص کو اس بُرائی میں مبتلا ہونے پر اُکساتے ہوں ، اس کیلئے مواقع بہم پہنچاتے ہوں یا اس پر مجبور کردیتے ہوں۔جاہلیت میں اہلِ عرب کا طریقہ یہ تھا کہ وہ صبح بخیر، شام بخیر کہتے ہوئے بے تکلف ایک دوسرے کے گھر میں گھس جاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی اصلاح کیلئے یہ اصول مقرر کیا کہ ہرشخص کو اپنے رہنے کی جگہ میں تخلیے (privacy) کا حق ہے اور کسی دوسرے شخص کو اس کے تخلیے میں اس کی مرضی اور اس کی اجازت کے بغیر دخل انداز ہونے کی اجازت نہیں دی۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تخلیے کے اس حق کو صرف گھروں میں داخل ہونے کے سوال تک محدود نہیں رکھا بلکہ اسے ایک عام حق قرار دیا جس کی رُو سے دوسرے کے گھر میں جھانکنا، باہر سے نگاہ ڈالنا، حتیٰ کہ دوسرے کا خط اس کی اجازت کے بغیر پڑھنا بھی ممنوع ہے۔ حضرت ثوبانؓ (نبیؐ کے آزاد کردہ غلام) کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا: اذا دخل البصر فلا اذن ’’جب نگاہ داخل ہوگئی تو پھر خود داخل ہونے کی اجازت مانگنے کا کیا موقع رہا۔‘‘ (ابوداؤد)۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپناقاعدہ یہ تھا کہ جب کسی کے ہاں تشریف لے جاتے تو آپؐ دروازے کے دائیں یا بائیں کھڑے ہوکر اجازت طلب فرمایا کرتے۔ (ابوداؤد) ایسی اور بھی احادیث مختلف کتبِ حدیث میں منقول ہیں۔ اگر تین دفعہ دروازہ کھٹکھٹانے کے بعد صاحبِ خانہ کی طرف سے اجازت نہ ملے یا وہ ملنے سے انکار کر دے تو واپس چلے جانا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ہی پاکیزہ طریقہ کہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہی تزکیہ ہے جو نفسانی خواہشات، بے راہ روی اور فحش اقدام سے بچاتا ہے۔ان تعلیمات کے بعد پھر ربِ جلیل نے محسنِ انسانیتؐ کو اہلِ ایمان کے تزکیے کے لیے ایک انداز کا حکم فرمایا ہے:’’ اے نبیؐ! مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ یہ ان کے لئے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے، جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اس سے باخبر رہتا ہے۔‘‘ (النور:۳۰)حقیقت یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیوی یا اپنی محرم خواتین کے سوا کسی دوسری عورت کو نگاہ بھر کر دیکھنے کو حلال نہیں قرار دیا ہے بلکہ اس دیدہ بازی کو آنکھ کی بدکاری سے تعبیر کیا ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے کہ آدمی اپنے تمام حواس سے زنا کرتا ہے۔ بُری نظر سے دیکھنا آنکھوں کا زنا ہے۔ لگاوٹ کی بات چیت زبان کا زنا ہے، آواز سے لذت لینا کانوں کا زنا ہے۔ ہاتھ لگانا اور ناجائز مقصد کے لیے چلنا ہاتھ اور پاؤں کا زنا ہے (بخاری، مسلم، ابوداؤد)۔ آں حضورؐ سے اس نظربازی کے سلسلے میں بہت سی احادیث منقول ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک نظر کے بعد دوسری نظر نہ ڈالی جائے، فوراً پھیر لی جائے یا نیچی کرلی جائے۔ مسلم، ابوداؤد اور احمد نے نبی کریمؐ کا ارشاد نقل کیا ہے: کوئی مرد کسی مرد کے ستر کو نہ دیکھے، کوئی عورت کسی عورت کے ستر کو نہ دیکھے۔ الغرض جس شخص نے اپنی آنکھوں کی حفاظت کی اس نے تزکیہ کیا اور گناہوں سے محفوظ ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس پاکیزگی کے عمل کو پسند فرمایا ہے۔سورۂ لیل کا مطالعہ کیجیے، جس میں زندگی کے دو مختلف راستوں کا فرق اور ان کا انجام واضح کیا اور ان نتائج کو دل میں اُتارا گیا ہے، جن میں ایک بھلائی کا راستہ ہے اور دوسرا بُرائی کا راستہ۔ پہلی قسم کی خصوصیت کو بھی دو حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ پہلی یہ کہ انسان مال دے، خداترسی اور پرہیزگاری اختیار کرے اور بھلائی کو بھلائی مانے۔ دوسری یہ کہ انسان بخل کرے۔ خدا کی رضا اور ناراضی کی فکر سے بے پروا ہوجائے اور بھلی بات کو جھٹلا دے۔ یہ دونوں راستے نتائج کے لحاظ سے ہرگز یکساں نہیں۔ پہلے طریقے میں بھلائی کرنے والے کے لیے بدی کرنا مشکل ہوجائے گا اور دوسرے طرزِعمل میں اللہ تعالیٰ اس کے عامل کیلئے زندگی کے بدی کے راستے کو سہل کردے گا۔سورہ کے دوسرے حصے میں تین حقیقتیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ نے انسان کو بے خبر نہیں چھوڑا، اس نے یہ راستہ بتا دینا اپنے ذمے لیا ہے کہ زندگی میں انسان کے لیے سیدھا راستہ کون سا ہے۔ دوسری حقیقت یہ بیان کی گئی ہے کہ دنیا اور آخرت دونوں کا مالک اللہ ہے۔ دنیا مانگو تو دنیا دے گا۔ آخرت کی فلاح مانگو تو فلاح دے گا۔ تیسری حقیقت یہ بیان کی گئی ہے کہ جو بدبخت اس بھلائی کو جھٹلائے گا، جو رسولؐ اور کتاب کے ذریعے سے پیش کی گئی ہے، اس کے لیے بھڑکتی ہوئی آگ تیار ہے۔ اور جو خدا ترس آدمی پوری بے غرضی کے ساتھ محض رضاے الٰہی کے لیے اپنا مال راہِ خیر میں خرچ کرے گا، اس کا رب اس سے راضی ہوگا اور اسے اتنا کچھ دے گا تو وہ خوش ہوجائے گا۔اس سورہ کی آخری پانچ آیات تزکیہ اور اس کے انعامات کو بیان کرتی ہیں:’’ جو بڑا پرہیزگار ہے وہ بچا لیا جائے گا۔ جو اپنا مال دیتا ہے تاکہ پاک ہو۔ وہ اس لئے نہیں دیتا کہ اس پر کسی کا احسان ہے، جس کا وہ بدلہ اُتارتا ہے، بلکہ اپنے خداوند اعلیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے اور وہ عنقریب خوش ہوجائے گا۔‘‘ (اللیل ۹۲:۱۷۔۲۱)یہی رضائے الٰہی کا حصول ہی تو حقیقی تزکیہ ہے، جو انسان کی متاعِ آخرت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو واضح طور پر بتلا دیا ہے کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے۔ اس کی شیطنت صحرا بہ صحرا، دریا بہ دریا، کو بہ کو پھیلی ہوئی ہے۔ کیسے کیسے وساوس، کیسے کیسے حربے اور کیسے کیسے نفس پرستی کے ہچکولے اس کی سرشت میں جلا پاتے ہیں کہ ہرانسان کو صراطِ مستقیم سے بھٹکا دیتا ہے۔ حقیقتاً وہ ہمارا ازلی دشمن ہے۔ اسی لئے تو خالقِ بنی نوع انسان نے ہمیں متنبہ کیا ہے:’’ اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، شیطان کے نقشِ قدم پر نہ چلو۔ اس کی پیروی کوئی کرے گا تو وہ اسے فحش اور بدی ہی کا حکم دے گا۔ اگر اللہ کا فضل اور اس کا رحم و کرم تم پر نہ ہوتا تو تم میں سے کوئی شخص پاک نہ ہوسکتا۔ مگر اللہ ہی جسے چاہتا ہے پاک کردیتا ہے،اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔‘‘ (النور ۲۴:۲۱)اس آیت سے قبل اس سورہ میں واقعۂ افک کا تذکرہ کیا ہے، جس میں اُم المومنین حضرت عائشہؓ پر تہمت لگائی گئی تھی، مگر اس کے بارے میں ربِ علیم و خبیر نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ تم نے حُسنِ ظن کیوں نہ کیا، سُوئے ظن کیوں کیا۔ اس کے بعد اس آیت میں اہلِ ایمان کو خبردار کیا ہے کہ شیطان کے نقشِ قدم کی پیروی نہ کرو۔ وہ تو فحش اور بدی کی طرف بلاتا ہے۔ تم لوگ نہیں جانتے اس طرح کی ایک ایک حرکت کے اثرات معاشرے میں کہاں کہاں تک پہنچتے ہیں۔ کتنے افراد متاثر ہوتے ہیں اور اس اجتماعی زندگی کے نقصانات کتنے ہیں جو اللہ ہی خوب جانتا ہے۔ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں نہیں ہیں، بہت بڑی باتیں ہیں۔ شیطان کے ان حربوں سے بچو۔ ان وساوس کی زد میں آکر کوئی شخص بھی پاک صاف نہیں ہوسکتا۔ قرآنِ مجید نے نفسِ انسانی کے تزکیہ کیلئے رہنمائی کی ہے اور بتلا دیا ہے کہ اللہ اہلِ ایمان کا تزکیہ کرتا ہے۔ انبیائے کرام ؑ کو اہلِ ایمان کا تزکیہ کرنے کا حکم دیتا ہے اور پھر اہلِ ایمان کو خود تزکیہ کی روش اختیار کرنے کی ہدایت فرماتا ہے تاکہ اس کے بندے نیکی، خداخوفی اور فضائلِ اخلاق سے آراستہ ہوکر اس کے پسندیدہ اور فرمانبردار بندے بن جائیں اور دنیوی اور اُخروی کامیابی سے ہمکنار ہوں۔قرآنِ کریم نے تزکیۂ نفس کے اور بھی عوامل کا ذکر کیا ہے۔ تقویٰ اختیار کریں، انفاق فی سبیل اللہ کو اپنی فائدہ مند تجارت بنائیں، باطنی صفات میں اخلاص کو کلید ِ تزکیہ بنائیں۔ ذکروفکر سے تزکیے میں مدد لیں اور خلوصِ دل سے استغفار کے لئے نماز، زکوٰۃ اور فریضہ ٔ حج کو اپنی فلاح کا ذریعہ بنائیں۔ چنانچہ دل کی گہرائیوں میں اُتار لیں کہ ’’فلاح پا گیا وہ شخص جس نے پاکیزگی اختیار کی اور اپنے رب کا نام یاد کیا پھر نماز پڑھی۔‘‘