حق بولوتاکہ زندہ رہو!زندگی کا وقفہ نہایت قلیل ہے

ریاض فردوسی
’’اوربات میں اُس شخص سے زیادہ اچھا کون ہے جس نے اللہ تعالیٰ کی طرف بلایا اورنیک عمل کیے اورکہاکہ یقیناََمیں فرماں برداروں میں سے ہوں‘‘(سورہ۔حم سجدہ۔آیت،33۔پارہ،24)حضرت ِ علی کرم اللہ وجہ نے ارشاد فرمایا: انصاف کرو ورنہ یاد رکھنا،حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کے قاتل صرف 4 لوگ تھے مگرپوری قوم غرق ہوگئی،کیوں کہ باقیوں کا جرم خاموش رہنا تھا۔اللہ کی بندگی پر ثابت قدم ہو جانا اور اس راستے کو اختیار کر لینےکے بعد پھر اس سے منحرف نہ ہونابہت بڑی نیکی ہے، جس سے آدمی جنت کا مستحق بن جاتا ہے، لیکن اس سے بڑھ کر حق گوئی اور صداقت شعاری سے زیادہ بلند کوئی درجہ انسان کے لیے نہیں ہے۔آدمی نیک عمل کرے،لوگوں کو اللہ کی بندگی کی طرف بلائے، شدید مخالفت کے ماحول میں بھی حق گوئی اور انصاف پر قائم رہے۔اگرچہ سچ بولنا اپنے اوپر مصیبتوں کو دعوت دیتا ہے،لیکن باآواز بلند سچ کہیں،کسی بھی رشتے کی پرواہ مت کریں۔دور ِحاضر میں حالت یہ ہے کہ جو شخص بھی بلا کسی نفع و نقصان کی فکر کئےسچ کہتا ہے،گویا اس نے درندوں کے جنگل میں قدم رکھ دیا ہے ،جہاں ہر ایک اسے پھاڑ کھانے کو دوڑتا ہے۔ اس سے آگے بڑھ کر جس نے صرف شعائر ِاسلام اورقانونِ اسلام کی خاطر زبان کھولی، اُس نے تو گویا درندوں کو پکار دیا کہ آؤ اور مجھے بھنبھوڑ ڈالو، لیکن کسی شخص کا اللہ کو اپنا رب مان کر سیدھی راہ اختیار کرلینا اور اس سے نہ ہٹنا بلا شبہ اپنی جگہ بڑی اور بنیادی نیکی ہے۔لیکن کمال درجے کی نیکی یہ ہے کہ میں مسلمان ہوںاور نتائج سے بے پرواہ ہو کر اللہ کی بندگی کی طرف خلق خدا کو دعوت دےاور اس کام کو کرتے ہوئے اپنا عمل اتنا پاکیزہ رکھے کہ کسی کو اسلام اور اس کے علمبرداروں پر حرف رکھنے کی گنجائش نہ ملے۔سچائی ایسی صفت ہے، جس کی اہمیت ہر مذہب اور ہر دور میں یکساں طورپر تسلیم کی گئی ہے۔ اس کے بغیر انسانیت مکمل نہیں ہوتی، اسی لئے شریعتِ اسلامیہ میں اس کی طرف خاص توجہ دلائی گئی ہے، اور بار بار سچ بولنے کی تاکید کی گئی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سچائی کو لازم پکڑو، کیونکہ سچ نیکی کی راہ دکھاتا ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے اور آدمی یکساں طور پر سچ کہتا ہے اور سچائی کی کوشش میں رہتا ہے، یہاں تک کہ اللہ کی نظر میں اس کا نام سچوں میں لکھ دیا جاتا ہے اور جھوٹ سے بچتے رہناہے، اس لئے کہ جھوٹ گناہ اور فجور ہے اور فجور دوزخ کی راہ بتاتا ہے اور آدمی مسلسل جھوٹ بولتا ہے اور اسی کی جستجو میں رہتا ہے، یہاں تک کہ اللہ کے نزدیک اس کا شمار جھوٹوں میں لکھ دیا جاتا ہے۔(بخاری ومسلم)
بول کہ سچ زندہ ہے اب تک
بول جو کچھ کہنا ہے کہہ لے
فیض احمد فیضؔ
حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ مجھے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ باتیں یاد ہیں: ’’جو بات شک میں مبتلا کرے، اس کو چھوڑ دو اور اس کو اختیار کرو جو شک میں نہ ڈالے۔ سچائی اطمینان ہے اور جھوٹ شک ہے۔(ترمذی)The Vulture and the little girl نام کی تصویر میں ایک گدھ بھوک سے مر رہی ایک چھوٹی لڑکی کے مرنے کاانتظارکررہاہے،اس تصویرکوجنوبی افریقہ(South Africa) کے فوٹوجرنلسٹ کیون کارٹرنے 1993ء میںسوڈان کے قحط کے وقت کھینچا تھا،اس تصویر کے لئے انہیںPulitzer Priceسے نوازاگیاتھا۔ان کے اس تصویر کی چاروں طرف واہ واہی ہو رہی تھی،دنیا میں ہر طرف ان کے نام اورکام کاہی ذکر ہو رہا تھا،وہ شہرت اور کامیابی کی بلندیوں پر پہنچ گئے تھے۔ایک دن جب وہ اپنے دوستوں کے ساتھ اس انعام کا جشن منا رہے تھے ،شراب اور شباب کی محفل آراستہ تھی،شراب اور شباب ان کی تہذیب کا حصہ ہے ،تو فون پر کسی نے ان کا انٹرویو لینا چاہا،کیون کارٹر انٹرویو کے لئے تیار ہوگئے۔انٹریو کے دوران فون کرنے والے نے ان سے پوچھا اس لڑکی کاکیاہوا؟کارٹر نے کہاوہ یہ دیکھنے کے لئے نہیں رُکے،انہیں فلائٹ پکڑنی تھی۔اس پر فون پر انٹرویولینے والے آدمی نے کہا میں آپ کوبتارہاہوں کہ وہاں 2گدھ تھے ۔کارٹر نے کہا نہیں ۔وہاں صرف ایک گدھ تھا،اس پر اس شخص نے کہا دوسرا گدھ ہاتھ میں کیمرہ لے کر اس کی فوٹو کھینچ رہاتھا۔اس آدمی کی یہ حق گوئی کیون کارٹر سے برداشت نہیں ہوئی ،اس کو اس قدر شرمندگی محسوس ہوئی اور خود سے نفرت ہوگئی،اس کو اپنے گناہ یاد آنے لگے ،آخر کار اپنے گناہوں کی شرمندگی سے تنگ آکر اس نے صرف 33سال کی عمر میں خود کشی کرلی۔کیون کارٹر کے آخری الفاظ: ( ترجمہ)واقعی، واقعی معذرت خواہ ہوں۔زندگی کا درد خوشی کو اس حد تک لے جاتا ہے کہ خوشی کا کوئی وجود نہیںہوتا۔اداس ۔۔۔فون کے بغیر، کرائے کے لیے پیسے۔بچوں کی مدد کے لیے پیسے۔قرضوں کے لیے پیسے۔۔۔پیسے۔۔۔پیسے۔میں قتل اور لاشوں اور غصے اور درد کی واضح یادوں سے پریشان ہوں۔ بھوکے ، زخمی بچوں کی،اپنے آس سے بے پرواہ ہردردسے ناآشنا، خوشی میں مست پاگلوں کی،اکثر پولیس کے،قاتل جلادوں کی یادوں کے۔میں کین میں شامل ہونے گیا ہوں، اگر میں خوش قسمت ہوںآخر میں! جو لوگ بھی یہ سمجھتے ہیں کہ فلاں کا دل گناہ کرتے کرتے مردہ ہوگیا ہے،وہ اس سے سبق لے سکتے ہیں۔کارٹر اگرچہ دن ورات شراب وشباب میں ڈوبا رہتا تھا،لیکن سچ کا سامنا نہیں کرسکا۔مسلمانوں نے اپنے فریضہ سے منھ موڑ لیا ہے(الاماشاء اللہ)خود کو دنیاوی فائدے کے لئے برباد کرڈالا ہے،تماشہ تویہ ہے کہ اس کاہمیں احساس تک نہیں ہے۔ہر جگہ برائی کو دیکھ کر خاموشی ہے۔کہیںرشتے خراب ہونے کا ڈر ،کہیں دولت کے نقصان کا خطرہ۔ایک شخص نے مجھ سے کہا کہ فلاں اخبار آپ کا مضمون اس لئے نہیں شائع کرتا ہے کہ آپ ان کے یہاں حاضری نہیں دیتے۔کیا دین دنیاوی اغراض کے لئے ہے؟کیا بلاچاپلوسی کے کوئی کام نہیں ہوسکتا؟کیا بنا کسی کے ہربات میں ہاں میں ہاں ملائے ،کوئی کسی کی ساتھ نہیں دیگا؟ایک شخص جمعہ یا پنج وقتہ نمازوں میںمسجد دیر سے آکر کیسے آگے کی صف میںسب کو دکھا مکا دے کر شامل ہوجاتاہے،کوئی روک ٹوک نہیں ؟حتیٰ کہ ہم نے بھی گناہوں کو،غلطیوںکودل میں بھی بُرا سمجھنا چھوڑ دیا ہے(الاماشاء اللہ)پھر ہم زندہ کیوں ہیں؟ مولیٰ علی کرم اللہ وجہ ارشاد فرماتے ہیں!اگر کوئی شخص اپنی بھوک مٹانے کے لئے روٹی چوری کرے ،توچور کےہاتھ کاٹنے کے بجائے،بادشاہ کے ہاتھ کاٹے جائیں۔

 

Related Articles