اگر شریعت کے موافق کسی امر پر قسم کھائی ہے تو اس کو پورا کریں
مولانا ندیم احمد انصاری
قسم کھانا یا حلف اٹھانا کسی بات کی اہمیت یا حقانیت ثابت کرنے کے لیے ہوتا ہے، لیکن آج کل بے ضرورت قسم کھانا اس قدر عام ہو گیا ہے کہ قسم کی پہلی جیسی اہمیت باقی نہیں رہی۔ جس کو دیکھو بات بات پر قسمیں کھاتا ہے، بلکہ جو جتنا جھوٹا ہو، وہ اتنی جرأت کے ساتھ زیادہ قسمیں کھاتا ہے۔ جب کہ رسول اللہ ﷺنے جھوٹی قسم کھانا کبیرہ گناہوں میں سے فرمایا ہے۔آج کے میںمضمون ہم قَسم کی مختلف قِسموں اور ان سے متعلق احکامات پر قدرے تفصیل پیش کریں گے۔
عوام قسم کھانے کے بعد اسے پورا کرنے کا اہتمام نہیں کرتے بلکہ قسم توڑ کر بے پرواہ ہو جاتے ہیں، اور اس کا کفارہ بھی ادا نہیں کرتے، بلکہ وجوبِ کفارہ تک سے نا واقف رہتے ہیں۔یہ بڑی غفلت اور سخت غلطی ہے۔ اگر شرع کے موافق کسی امر پر قسم کھائی ہے تو اس کو پورا کرے اور اگر وہ قسم خلافِ شرع ہے تو اس کو توڑ ڈالے اور کفارہ ادا کرے۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص کسی بات پر قسم کھائے اور پھر اسے دوسری بات اس سے اچھی نظر آئے تو اسے چاہیے کہ اپنی قسم کا کفارہ ادا کرے اور اُس کام کو کر لے۔[مستفاد اغلاط العوام]
قسم تین طرح کی ہوتی ہے؛ اول یہ کہ گذشتہ واقعے پر جان بوجھ کر جھوٹی قسم کھائے۔ مثلاً قسم کھا کر یوں کہے کہ میں نے فلاں کام نہیں کیا، حالاں کہ اس نے کیا تھا۔ محض الزام کو ٹالنے کے لیے جھوٹی قسم کھالی یا مثلاًقسم کھا کر یوں کہا کہ فلاں آدمی نے یہ جرم کیا ہے، حالاں کہ اس بے چارے نے وہ نہیں کیا تھا۔ محض اس پر الزام دھرنے کے لیے جھوٹی قسم کھا لی۔ ایسی جھوٹی قسم ’یمینِ غموس‘ کہلاتی ہے اور یہ سخت گناہِ کبیرہ ہے۔ اس کا وبال بڑا سخت ہے۔ اگر کسی سے ایسا گناہ سرزد ہو جائے تو اسے چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے دن رات توبہ و استغفار کرے اور معافی مانگے۔ یہی اس کا کفارہ ہے۔ اس کے سوا کوئی کفارہ نہیں [اور جس کا حق ضائع کیا ہے اس کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتا رہے]۔ دوم یہ کہ کسی گذشتہ واقعے پر بے علمی کی وجہ سے جھوٹی قسم کھا لے۔ مثلاً قسم کھا کر کہا کہ زید آ گیا ہے، حالاں کہ زید نہیں آیا تھا، مگر اس کو دھوکا ہوا اور اس نے یہ سمجھ رکر کہ واقعی زید آگیا ہے، جھوٹی قسم کھا لی۔ اس پر بھی کفارہ نہیں اور اس کو ’یمینِ لغو‘ کہتے ہیں۔ سوم یہ کہ آیندہ زمانے میں کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کی قسم کھا لے، اس کو ’یمینِ منعقدہ‘ کہتے ہیں۔ ایسی قسم توڑنے پر کفارہ لازم آتا ہے۔[آپ کے مسائل اور ان کا حل جدید،بتغیر]
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:(مفہوم) اللہ تعالیٰ تمھاری بے ارادہ قسموں پر تم سے مواخذہ نہیں کرے گا، لیکن پختہ قسموں پر مواخذہ کرے گا(جب کہ ان کو توڑ ڈالو)۔ اس کا کفارہ دس مسکینوں کو اوسط درجے کا کھانا کھلانا ہے، جو تم اپنے اہل و عیال کو کھلاتے ہو۔ یا ان کو کپڑے دینا یا ایک غلام آزاد کرنا۔ اور جس کو اتنی استطاعت نہ ہو وہ تین روزے رکھے۔ یہ تمھاری قَسموں کا کفارہ ہے، جب تم قَسم کھا لو (اور اسے توڑ دو) اور (تمھیں) چاہیے کہ اپنی قسموں کی حفاظت کرو۔ [المائدہ]اس جگہ قرآنِ کریم کی آیت ِ مذکورہ میں بظاہر لغو سے وہی قَسم مُراد ہے، جس پر کفارہ نہیں خواہ گناہ ہو یا نہ ہو کیوں کہ بالمقابل عقدتم الأیمان مذکور ہے۔ جس سے معلوم ہوا کہ یہاں مواخذے سے مراد صرف دنیا کا مواخذہ ہے، جو کفارے کی صورت میں ہوتا ہے اور سورۂ بقرہ میں ہے:لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلٰكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ۔اس میں لغو سے مراد وہ قَسم ہے جو بلا قصد و ارادہ زبان سے نکل جائے یا اپنے نزدیک سچی بات سمجھ کر قَسم کھا لے مگر وہ واقع میں غلط نکلے۔ اس کے بالمقابل وہ قسم مذکور ہےجس میں قصداً جھوٹ بولا گیا ہو، جس کو یمینِ غموس کہتے ہیں۔ کیوں کہ غموس کے معنی ڈوبا دینے والے کے ہیں۔ یہ قسم انسان کو گناہ اور وبال میں غرق کر دینے والی ہے، اس لیے اس کو اصطلاحِ فقہا ء میں یمینِ غموس کہتے ہیں۔ اس لیے اس آیت کا حاصل یہ ہوا کہ یمینِ لغو پر تو کوئی گناہ نہیں بلکہ گناہ یمینِ غموس پر ہے، جس میں قصد کرکے جھوٹ بولا گیا ہو۔تو سورۂ بقرہ میں حکم آخرت کے گناہ کا بیان ہے اور سورۂ مائدہ کی متذکرہ آیت میں دنیوی حکم یعنی کفارے کا۔ حاصل یہ ہوا کہ یمینِ لغو پر اللہ تعالیٰ تم سے مواخذہ نہیں کرتا یعنی کفارہ واجب نہیں کرتا بلکہ کفارہ صرف اس قسم پر لازم ہے جو آیندہ زمانے میں کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں منعقد کی گئی ہو اور پھر اسے توڑ دیا گیا ہو، جسے یمینِ منعقدہ کہتے ہیں۔ اس کے بعد کفّارے کی تفصیل اس طرح ارشاد فرمائی ہے:فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ۔یعنی تین کاموں میں سے کوئی ایک اپنے اختیار (و استطاعت کے مطابق) کر لیا جائے؛اول یہ کہ دس مسکینوں کو متوسط درجے کا کھانا صبح و شام دو وقت کھلا دیا جائے۔ دوم یہ کہ دس مسکینوں کو بہ قدر ستر پوشی کپڑا دے دیا جائے۔ مثلاً ایک پاجامہ یا تہبند یا لمبا کُرتا۔ سوم یہ کہ کوئی مملوک غلام آزاد کر دیا جائے۔ اس کے بعد ارشاد ہے: فمن لم یجد فصیام ثلٰثۃ أیامیعنی اگر کسی قسم توڑنے والے کو اس مالی کفارے کے ادا کرنے پر قدرت نہ ہو کہ دس مسکینوں کو کھانا کھلا سکے، نہ کپڑا دے سکے اور نہ غلام آزاد کر سکے، تو پھر اس کا کفارہ یہ ہے کہ تین دن روزے رکھے۔
بعض روایات میں اس جگہ تین روزے پے در پے مسلسل رکھنے کا حکم آیا ہے۔ اسی لیے امام اعظم ابو حنیفہؒ اور بعض دوسرے ائمہؒ کے نزدیک کفارۂ قَسم کے تین روزے مسلسل ہونا ضروری ہیں۔ نیز آیتِ مذکورہ میں کفارۂ قسم کے متعلق اوّل لفظ ’اطعام‘ آیا ہے اور اطعام کے معنی عربی لغت کے اعتبار سے کھانا کھلانے کے بھی آتے ہیں اور کسی کو کھانا دے دینے کے بھی۔ اس لیے فقہا رحمہم اللہ نے آیتِ مذکورہ کا یہ مفہوم قرار دیا ہے کہ کفارہ دینے والے کو دونوں باتوں کا اختیار ہے کہ دس مسکینوں کی دعوت کرکے کھانا کھلا دے یا کھانا ان کی ملکیت میں دے دے۔ مگر پہلی صورت میں یہ ضروری ہے کہ متوسط درجے کا کھانا جو وہ عادۃً اپنے گھر میں کھاتا ہے ، دس مسکینوں کو دونوں وقت پیٹ بھر کر کھلا دے۔ اور دوسری صورت میں ایک مسکین کو بہ قدر ایک فطرے کے دے دے، مثلاً پونے دو سیر گیہوں یا اس کی قیمت۔ تینوں میں سے جو چاہے اختیار کرے۔ لیکن روزہ رکھنا صرف اس صورت میں کافی ہو سکتا ہے جب کہ ان تینوں میں سے کسی پر قدرت نہ ہو۔
آیت کے آخرمیں بہ طور تنبیہ دو امر ارشاد فرمائے ہیں؛ اول: ذٰلک کفارۃ أیمانکم اِذا حلفتمیعنی یہ ہے کفارہ تمھاری قسم کا، جب تم نے قسم کھا کر توڑ دی ہو۔ امام اعظمؒ اور دوسرے اکثر ائمہؒ کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تم کسی آیندہ کام کے کرنے یا نہ کرنے پر حلف کرو اور پھر اس کے خلاف ورزی ہو جائے تو اس کا کفارہ وہ ہے جو اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ کفارے کی ادایگی قسم ٹوٹنے کے بعد ہونی چاہیے۔ قسم توڑنے سے پہلے اگر کسی وجہ سے کفارہ دے دیا جائے تو وہ معتبر نہ ہوگا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ کفارہ لازم ہونے کا سبب قسم توڑنا ہے، جب تک قسم نہیں ٹوٹی تو کفارہ واجب ہی نہیں ہوا تو جیسے رمضان سے پہلے رمضان کا روزہ نہیں ہوتا،ا سی طرح قسم ٹوٹنے سے پہلے قسم کا کفارہ بھی ادا نہیں ہوتا۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا: واحفظوا أیمانکمیعنی اپنی قَسموں کی حفاظت کرو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی چیز کی قسم کھا لی ہے تو بلا ضرورتِ شرعی یا طبعی قسم کو نہ توڑو اور بعض حضرات نے فرمایا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ قسم کھانے میں جلد بازی سے کام نہ لو، اپنی قسم کو محفوظ رکھو، جب تک شدید مجبوری نہ ہو قسم نہ کھاؤ۔[معارف القرآن، بتغیر]
بعض لوگ بات بات پر اللہ کی قسم کھاتے ہیں، جب کہ بے ضرورت بات بات پر قسم کھانا بُری بات ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کے نام کی بڑی بے تعظیمی و بے حُرمتی ہوتی ہے۔ اس لیے جہاں تک ہو سکے سچی بات پر بھی قسم نہ کھانا چاہیے۔ اکثر آج کل بیٹے، باپ یا ماں وغیرہ کی قسم کھایا کرتے ہیں، اس سے بھی بہت احتیاط برتنا چاہیے، یہ مشرکوں کا عمل ہے۔ بعض عوام سے سنا گیا ہے کہ قسم کھاتے وقت بائیں ہاتھ کا انگوٹھا موڑ لیا جائے تو قسم نہیں ہوتی، سو یہ غلط ہے۔ اس طرح کرنے کے بعد بھی قَسم ہو جاتی ہے۔