امریکہ میں دوائیں دوسرے ملکوں سے بہت زیادہ مہنگی کیوں ہیں؟

واشنگٹن،نومبر۔امریکی کانگریس کے ڈیموکریٹک اراکین نے اس ہفتے آب و ہوا کی تبدیلی اور سماجی اخراجات کی صدر بائیڈن کی قانون سازی میں ایک اضافے کی تجویز پیش کی ہے، جس سے عمر رسیدہ امریکیوں کے لیے صحت کی دیکھ بھال کے وفاقی پروگرام ‘میڈی کیئر’ کو براہ راست دوا ساز کمپینوں سے بعض ادویات کی قیمتوں پر بات چیت کرنے کی اجازت مل جائے گی۔امریکی صارفین ترقی یافتہ ملکوں کے مقابلے میں ڈاکٹر کے نسخے پر ملنے والی ادویات کے لیے زیادہ قیمتیں ادا کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے بدلنے کے لئے امریکی سیاست دان اور ان کے حامیوں کی اب تک جدوجہد بے نتیجہ ثابت ہوئی ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر اب یہ تجویز منظور ہونے کے بعد قانون سازی کے لیے کانگریس میں چلی جاتی ہے تو اس دیرینہ مسئلے کے حل میں کچھ پیش رفت ممکن ہو سکے گی۔اس سے میڈی کیئر پروگرام کے حکام کو امریکی مارکیٹ میں ڈاکٹر کے نسخے پر ملنے والی ہزاروں دوائیوں کی قیمتوں پر گفت و شندید کا اختیار مل جائے گا۔اس کام کا آغاز تقریباً 10 ادویات سے ہو گا جو بعد ازاں بڑھ کر 20 ہو جائیں گی۔ کانگریس کے قدامت پسند اراکین نے اس سے پہلے یہ توقع ظاہر کی تھی کہ میڈی کیئر اتھارٹی ہر سال 250 مہنگی ادویات کی قیمتوں پر بات چیت کرے گی۔اگرچہ اس تجویز میں شامل کی جانے والے ادویات کی یہ تعداد مختصر ہے۔ لیکن میڈی کیئر انتظامیہ کو ان ادویات کی خریداری پر سالانہ بھاری رقوم صرف کرنی پڑتی ہے۔صحت سے متعلق غیر سرکاری ادارے کائزر فیملی فاؤنڈیشن کی طرف سے اس سال جاری کی گئی ایک تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ میڈی کیئر پارٹ ڈی کے تحت2019 میں 10 سب سے زیادہ فروخت ہونے والی دواوں پر ادارے کے کل اخراجات کا 16فی صدخرچ ہوا تھا۔دواؤں کی فہرست میں شامل 50 دوائیں، جو اس پروگرام کی تمام ادویات کا محض ساڑھے 8 فی صد ہیں، ان پر کل اخراجات کا 80 فی صد خرچ ہوتا ہے۔کائزر فیملی فاؤنڈیشن کے مطابق، 10 سرفہرست ادویات میں کینسر کی تین، ذیابیطس کی چار، دو اینٹی کوگولنٹ اور ایک گٹھیا کے علاج کی دوا شامل ہے۔
مبہم نظام:بیرونی دنیا کے بہت سے ممالک کے برعکس، جہاں حکومتیں ادویات کی قیمتوں پر گفت و شنید اور صحت عامہ کی دیکھ بھال کے قومی نظام کے تحت لاگت کم کرنے کا اختیار رکھتی ہیں، امریکہ میں صورت حال زیادہ گھمبیر ہے۔ ہیلتھ انشورنس رکھنے والے زیادہ تر امریکی نجی شعبے کی منافع بخش کمپنیوں کی پالیسیوں کے تحت سہولتیں حاصل کرتے ہیں۔65 سال اور اس سے زیادہ عمر کے امریکی میڈی کیئر کے اہل ہیں جو کہ پرائیویٹ انشورنس کی جگہ لیتا ہے۔ لیکن کئی سالوں سے، میڈی کیئر ڈاکٹری نسخے پر ادویات فراہم نہیں کر رہا، جس کی وجہ سے میڈی کیئر کے مریض دوائیں اپنی جیب سے خریدنے یا اس کے لیے ایک الگ انشورنس لینے پر مجبور ہوتے ہیں۔سال 2003 میں کانگریس نے میڈی کیئر پارٹ ڈی کی منظوری دی، جس کے تحت نجی بیمہ کمپنیوں نے ادویات کی فراہمی شروع کی، جو وفاقی حکومت کی قائم کردہ کم از کم ضروریات کو پورا کرتی ہیں۔اگرچہ اس پروگرام نے بہت سے امریکی بزرگوں کے اخراجات میں کمی کر دی ہے، لیکن اس میں موجود بعض خامیوں کی وجہ سے بہت سے افراد پر مالی بوجھ پڑتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صحت کی انشورنس کمپنیاں اپنے طور پر دوا ساز کمپنیوں سے قیمتوں پر بات چیت کرتی ہیں اور اس سلسلے میں کوئی قومی پالیسی نہیں ہے۔
ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے لیے اعانت:برسوں سے یہ کہا جا رہا ہے کہ دواساز کمپنیاں دوسرے ملکوں کے مقابلے میں امریکہ میں بہت زیادہ قیمت پر ادویات فروخت کرتی ہیں۔۔ اس سال رینڈ کارپوریشن نے 32 دیگر ممالک کے ساتھ امریکہ کے موازنے پر ایک رپورٹ جاری کی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ میں ادویات کی قیمتیں دیگر ملکوں کے مقابلے میں اوسطاً 256 فی صد زیادہ ہیں۔واشنگٹن ڈی سی میں ایک تھنک ٹینک، کامن ویلتھ فنڈ میں کنٹرولنگ ہیلتھ کیئر کاسٹ پروگرام کی نائب صدر لوویسا گسٹافسن نے کہا ہے کہ، امریکی صارفین دنیا کے لیے ادویات پر سبسڈی دے رہے ہیں۔ یہ مسئلہ اس وقت مزید مشکل ہو جاتا ہے جب امریکیوں کی ایک بڑی تعداد کو نسخے کی دوائیوں کی لاگت کا ایک بہت بڑا حصہ دینے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔لوویسا گسٹافسن کا کہنا ہے کہ امریکہ میں مریضوں کو دوسرے ممالک کے مقابلے میں بہت زیادہ قیمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، صرف اس وجہ سے کہ ان کے پاس انشورنس ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ مریض اپنی ضرورت کی دواؤں کی بہت زیادہ قیمت ادا کرنے کے قابل ہیں۔اس سلسلے میں ہونے والے متعدد مطالعاتی جائزوں سے پتا چلتا ہے کہ 20 فی صد سے 25 فی صد امریکی اپنے معالج کی تجویز کردہ دوائیں اس وجہ سے نہیں لے سکتے کیونکہ ہیلتھ انشورنس نہ ہونے کی وجہ سے وہ اس کے اخراجات برداشت کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔

Related Articles