گنگو بائی: ’میری ماں کو جسم فروش دکھایا گیا ہے جو کہ ہتک آمیز ہے‘، گنگو بائی کے بیٹے کی شکایت
ممبئی/ لندن،فروری.بالی وڈ میں عموماً فلم کے ریلیز سے پہلے اور پروموشن کے دوران فلم یا اس کے کرداروں یا پھر اداکاروں کے بارے میں کسی نے کسی طرح کے تنازع کا سلسلہ کچھ زیادہ ہی عام ہو رہا ہے۔ اب چاہے وہ فلم ‘او مائی گاڈ ‘ہو یا عامر خان کی ‘پی کے’ یا پھر دپیکا پادوکون کے ساتھ سنجے لیلیٰ بھنسالی کی فلم ‘پدماوت’۔جہاں تک سنجے لیلیٰ بھنسالی کی فلموں کا تعلق ہے تو پدماوت کے وقت ان کے ساتھ مار پیٹ تک کی نوبت آگئی تھی۔ اب عالیہ بھٹ کے ساتھ بھنسالی صاحب کی فلم ‘گنگو بائی کاٹھیا واڑی‘ پر بھی سوال اٹھائے جا رہے ہیں اور وہ بھی اس فلم کی مرکزی کردار گنگو بائی کے گود لیے بیٹے کی جانب سے۔60 کی دہائی کے حقیقی کردار گنگو بائی کے گود لیے بیٹے بابو جی راؤ شاہ کا کہنا ہے کہ فلم میں ان کی ’ماں کو جسم فروشی کا دھندہ کرنے والی دکھایا گیا ہے جو ان کی شبیہ کو داغدار کرتا ہے اور ہتک آمیز ہے‘۔بابو جی راؤ کا کہنا ہے کہ ٹریلر کی رلیز کے بعد سے لوگ ان کی ماں کے بارے میں ناقابل بیان باتیں کر رہے ہیں۔گزشتہ سال بابو جی راؤ شاہ سنجے لیلی بھنسالی اور عالیہ بھٹ کے خلاف عدالت گئے تھے لیکن ہائی کورٹ نے ہتک عزت کے اس کیس میں کارروائی روک دی تھی۔ فلم اگلے ہفتے تھیئٹرز میں ریلیز ہونے والی ہے اور ریلیز سے پہلے کسی بھی طرح کا تنازع فلم کی تشہیر کے لیے بالی وڈ میں اچھا سمجھا جاتا ہے۔اداکارہ مادھوری دکشت کا کہنا ہے کہ بالی ووڈ میں عورتوں کے مرکزی کردار والی فلمیں اب نئے انداز میں پیش کی جا رہی ہیں۔ ان کے مطابق ان فلموں میں اب عورتیں صرف ظلم کا شکار یا ظالموں سے بدلہ لینے والے کرداروں میں نہیں بلکہ بااختیار اور طاقتور کرداروں میں نظر آ رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ آج کی عورت ہے جو پروفیشنل بھی ہے اور ہاؤس وائف بھی، سپورٹس وومن بھی ہے اور فنکار بھی۔ دراصل مادھوری دکشت نیٹ فلکس پر ایک ویب سیریز کے ساتھ او ٹی ٹی پلیٹ فارم پر قدم رکھ رہی ہیں۔ ‘فیم گیم ‘ نامی اس نئی سیریز میں مادھوری ایک سپر سٹار کے کردار میں ہوں گی۔ ظاہر ہے کہ سیریز کی مرکزی کرادر بھی وہی ہیں۔میڈیا سے بات کرتے ہوئے مادھوری کا کہنا تھا کہ اس وقت انڈسٹری میں عورتوں کے لیے اب تک کا سب سے اچھا دور ہے جہاں فلم کی کہانی ہیروئنز کے گرد گھومتی ہے اور یہ کرادر روایتی بھی نہیں ہیں۔مادھوری نے 1984 میں فلم ’ابودھ‘ سے ڈیبیو کیا تھا اور اس فلم کی کہانی بھی ہیروئن کے گرد گھومتی تھی۔ مادھوری کا کہنا تھا کہ اس دور میں ایسے فلمساز کم ہی تھے جو اس طرح کی فلمیں بنانے میں دلچسپی رکھتے تھے لیکن اب وقت بدل چکا ہے۔یہ درست ہے کہ اب وقت بدل چکا ہے اور ساتھ ہی عورتوں اور فلموں میں ان کے کرداروں کو دیکھنے کا نظریہ بھی اور او ٹی ٹی پلیٹ فارمز نے اس نظریے کو بدلنے میں بہت مدد کی ہے جہاں نئی سوچ اور نظریے کے مالک فلسماز اور مصنف بغیر کسی الجھن کے انقلابی کہانیاں اور کردار لکھ بھی رہے ہیں اور انہیں پیش بھی کر رہے ہیں۔ یہ مصنف پدرشاہی ذہنیت سے آزاد ہو کر جدید حساسیت کے ساتھ سکرپٹ لکھ رہے ہیں۔لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ تھیئیٹر میں جہاں شائقین ایک طاقتور ہیرو کے ’بیچاری ہیروئن‘ کو غنڈوں یا ظالموں کے چنگل سے بچانے کے منظر پر زور زور سے تالیاں بجاتے ہیں وہیں او ٹی ٹی پر لوگ پیروئن کے یکسر مختلف کردار بھی سراہتے ہیں جس کا مطلب شاید یہ ہے کہ اب ناظرین کی سوچ بھی بدل رہی ہے۔بڑے پردے کے ہیرو سے یاد آیا کہ سلمان خان ایک بار پھر ٹائیگر تھری کی شوٹنگ پر پہنچ گئے ہیں اور ان کے ساتھ پہنچی ہیں نئی نویلی دلہن کترینہ کیف جو اس فلم میں ان کی ہیروئن ہیں۔ فلم کے کچھ حصے دلی میں شوٹ کیے جانے ہیں حالانکہ اس بات کو خاصا راز میں رکھنے کی کوشش کی جا رہی تھی تاکہ بھیڑ والے اس شہر میں شوٹنگ کے دوران پریشانی نہ ہو لیکن پھر بھی ان دونوں کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئیں۔2012 میں اس سیریز کی پہلی فلم ’ایک تھا ٹائیگر‘ آئی تھی جس کی بعد ’ٹائگر زندہ ہے‘ آئی تھی جس میں سلمان خان کی صرف ایک مشین گن سے سینکڑوں گولیاں بے شمار غنڈوں کا کام تمام کر رہی تھیں۔ اس فلم نے بھی باکس آفس پر زبردست کامیابی حاصل کی تھی اور اب ٹائیگر تھری کی تیاری ہے۔ دیکھتے ہیں کہ ایک گولی سے چار غنڈوں کو مار گرانے کا یہ فارمولہ لوگ کب تک پسند کریں گے۔