کیا امریکہ تیل و گیس کی قیمتیں کم کرنے میں کامیاب ہو سکے گا؟

نیو یارک،جون۔ٹیکساس کے تیل و گیس کے تاجر جیسن ہیرک آج کل زیادہ سے زیادہ پیٹرول نکالنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ جب پٹرولیم کی قیمتیں بڑھیں گی تو انھیں منافع کمانے کا اچھا موقع ملے گا، لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود انھیں نہیں لگ رہا کہ اس سال بھی ان کی خاندانی کمپنی کی تیل کی پیداوار بڑھے گی۔یہ مسلسل تیسرا سال ہو گا جب کمپنی کی تیل کی پیداوار میں کمی دیکھنے میں آئے گی۔پچھلے کئی برسوں سے جیسن بیرک کی کمپنی ’پنٹیرہ اینرجی‘ نے پیداوار بڑھانے کے لیے کوئی سرمایہ کاری نہیں کی۔ کووڈ کی وجہ سے پٹرول اور گیس کی قیمتوں میں زبردست کمی آئی تھی۔ کووڈ کے ابتدائی دنوں میں توانائی کی قیمتیں صفر تک پہنچ گئی تھیں۔وہ کہتے ہیں کہ ’ہمارا کام زیادہ سے زیادہ پیداوار کرنا ہے، ہم جتنا کر سکتے تھے کر چکے ہیں لیکن اب بھی ہم اس میں بہت پیچھے ہیں اور ایسا نہیں لگتا کہ ہم پیداوار میں ہونے والی کمی کو پورا کر پائیں گے۔‘یہ دنیا کے سب سے بڑے تیل اور گیس پیدا کرنے والے ملک امریکہ سے ملنے والے اشاروں میں سے ایک ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مہنگے تیل اور گیس سے پریشان عوام کی مشکلات ابھی ختم ہونے والی نہیں ہیں۔سنہ 2021 سے دنیا بھر میں تیل اور گیس کی قیمتیں دگنی سے بھی زیادہ ہو گئی ہیں۔ یہ قیمتیں اتنی ہی تیزی سے بڑھی ہیں جتنی تیزی سے 2020 میں کووڈ لاک ڈاؤن کے دوران کم ہوئی تھیں۔اب جیسے جیسے تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے، ویسے ہی اندازے ہیں کہ امریکہ میں اس سال تیل اور گیس کی پیداوار میں روزانہ دس لاکھ بیرل اضافہ ہو گا۔ لیکن یہ اضافہ مجموعی پیداوار کا دس فیصد سے بھی کم ہو گا اور بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرنے کے قابل نہیں ہو گا۔2014 میں جب تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہوا تو امریکہ میں ان کی پیداوار میں 20 فیصد اضافہ ہوا اور فریکنگ (توانائی کی پیداوار کے لیے ڈرلنگ ٹیکنالوجی) انقلاب بھی عروج پر تھا۔کمپنیاں اگر پیداوار بڑھانے کے موڈ میں نہیں دکھائی دے رہیں تو اس کی وجوہات، تیل اور گیس کی پیداوار کی لاگت میں اضافہ، خام مال اور مزدوروں کی کمی اہم دشواریاں ہیں۔اس کے علاوہ سرمایہ کار یہ بھی پوچھ رہے ہیں کہ اس وقت دنیا میں تیل اور گیس کی کتنی ضرورت ہوگی کیونکہ دنیا بھر کے لوگ موسمیاتی تبدیلیوں کی تشویش کے باعث فوسل فیول کم استعمال کرنے پر زور دے رہے ہیں۔آئل ایکسپلوریشن کمپنی لون سٹار پروڈکشن کے انجینئر مائیک وینڈٹ کا کہنا ہے کہ ان کی کمپنی کے پاس نئے منصوبے موجود ہیں لیکن وہ سٹیل کے پائپ حاصل کرنے سے قاصر ہیں جس سے پیداوار میں تاخیر اور لاگت میں اضافہ ہو رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ ‘ہم جلد از جلد ڈرلنگ کرنا چاہتے ہیں لیکن ہمارے پاس سامان کی کمی ہے۔ اس طرح کے مسائل تیل کی منڈی کا گلا گھونٹنے کے مترادف ہیں۔سیاسی حلقوں نے تیل و گیس کی صنعت میں خوف و ہراس پھیلا دیا ہے۔اس صنعت کو یہ لگ رہا ہے کہ صدر جو بائیڈن نے اپنی انتخابی مہم میں موسمیاتی تبدیلی کو ایک اہم مسئلہ بنایا تھا لہذا وہ کاربن کے اخراج کو کم کرنے والے قوانین پر عمل درآمد پر اصرار کریں گے اور قابل تجدید توانائی کے ایجنڈے کو بھی تیز کریں گے۔ تاہم اس کے لیے ان کی اہم تجاویز ابھی تک رْکی ہوئی ہیں اور ان میں کامیابی کے امکانات بھی کم دکھائی دے رہے ہیں۔ریپبلکن پارٹی کے رہنما تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کا ذمہ دار بائیڈن کی ماحولیات سے متعلق پالیسی کو ٹھہرا رہے ہیں۔ انہوں نے امریکہ سے قدرتی گیس کی برآمدات بڑھانے، تیل کے قومی ذخائر جاری کرنے اور توانائی کی کھدائی کے لیے سینکڑوں اجازت ناموں کی منظوری کے معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔گلوبل انرجی مانیٹر سے منسلک تجزیہ کار، رابرٹ روزنسکی کہتے ہیں کہ ‘ بائیڈن انتظامیہ ماحولیاتی تحفظ کے اپنے دیرینہ وعدوں کو پورا کرنے میں ہچکچاتی نظر آ رہی ہے۔لیکن صرف ماحولیاتی تحفظ اور موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں امریکہ کے موقف میں تبدیلی کوئی انوکھی چیز نہیں ہے۔ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن سمیت کئی مغربی رہنماؤں نے تیل اور گیس کے لیے سعودی عرب اور تیل پیدا کرنے والے دیگر ممالک سے مدد مانگی ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ان کے پاس سرمایہ کاری کے بغیر پیداوار بڑھانے کی صلاحیت موجود ہے۔کینیڈا، امریکہ، سعودی عرب اور روس کے بعد تیل پیدا کرنے والا چوتھا بڑا ملک ہے۔ اس نے اپنے تیل اور گیس کے رْکے ہوئے منصوبوں کو مکمل کرنے کے لیے بات چیت بھی دوبارہ شروع کر دی ہے۔ مثال کے طور پر یورپ تک گیس پہنچانے کے منصوبوں پر کام شروع کرنے کی بات ہو رہی ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا سیاسی ہوا بدلنے سے تیل کی منڈی کے شکوک و شبہات دور ہو جائیں گے؟ خاص طور پر جس طرح سے لوگ نئے آئل گیس ٹرمینلز اور پائپ لائنوں جیسے توانائی کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں یہ منصوبے برسوں تک تاخیر کا شکار ہو سکتے ہیں۔پیئریڈی اینرجی کے سی ای او الفریڈ سورنسن کا کہنا ہے کہ یہ سوچ کی مکمل تبدیلی کی علامت ہے۔ سرمایہ کاروں کی کمی کی وجہ سے اس کمپنی نے نووا سکوٹیا میں اپنا ایل این جی ٹرمینل بنانے کا منصوبہ روک دیا ہے، لیکن حکومت کی جانب سے مزید حمایت ملنے کے اشارے کے بعد وہ اسے دوبارہ شروع کر سکتی ہے۔’سیاسی رہنما اور تیل کی صنعت فی الحال اس خیال کو ہوا دے رہے ہیں کہ صرف یورپ تیل اور گیس کو بچا سکتا ہے اور اسے بچانا چاہیے’۔ان کا کہنا ہے کہ ‘ہم اب بھی 20 ویں صدی کے اصول نافذ کر رہے ہیں، لیکن ہم جانتے ہیں کہ یہ کارآمد ثابت نہیں ہوگا’۔ مثال کے طور پر، 2027 تک پیئریڈی نیچرل گیس ٹرمینل سے گیس برآمد نہیں کی جا سکتی۔ اس لیے موجودہ بحران کے حل میں اس کا کوئی کردار نہیں ہوگا۔وہ کہتے ہیں ‘پائیدار توانائی کے ذرائع کی ترقی یورپ، کینیڈا اور امریکہ میں توانائی کی حفاظت کا ایک طریقہ ہے اور یہ ممکن ہے اور اسے کرنا بھی ضروری ہے’۔

Related Articles