کابل کے بش بازار میں امریکی سامان کی شاپنگ پر نکلے طالبان
کابل،ستمبر,چھوٹی چھوٹی گلیوں والے کابل کے بش بازار میں آپ کو زیادہ تر امریکی و نیٹو افواج کا دفاعی سامان ملے گا۔یہ سامان یہاں کام کرنے والے کنٹریکٹرز اپنا پراجیکٹ ختم ہونے پر انتہائی کم داموں پر فروخت کر دیا کرتے تھے۔ایسا سامان بگرام ایئر بیس سے یہاں آیا تھا۔ایک چھوٹی سی گلی سے شروع ہونے والا یہ بازار پہلے فروش گاہ آریا کے نام سے جانا جاتا تھا۔ لیکن پھر امریکہ کی آمد اور اس کے امپورٹڈ سامان کے بعد یہ بْش بازار کہلانے لگا۔فوجی کپڑے، ٹیکٹیکل یونیفارم، جوتے، جنگ کے دوران سپاہیوں کے زیر استعمال رہنے والی میڈیکل کٹ، سرچ لائٹس اور بْلٹ پروف جیکٹ سے لے کر رائفل اور بندوقوں کے تیل، میگزین ہولڈر اور مخصوص گلاسز تک یہاں سب بِکتا ہے۔یہی نہیں بلکہ اس کے علاوہ جوسر، بلینڈر اور الیکٹرانک مشینیں بھی دکانداروں کے پاس ہوتی ہیں جنھیں وہ ’میڈ ان امریکہ‘ کہہ کر بیچتے ہیں۔مگر اسی کے ساتھ چوری شدہ نیٹو کنٹینرز کا سامان بھی یہاں سے مل جاتا ہے۔اور دلچسپ بات یہ ہے کہ بنا ٹیکس کے سستے داموں بِکنے والے اس سامان کو یہاں مقامی ہی نہیں غیر ملکی بھی خریدتے پائے جاتے تھے۔ان اشیا کے علاوہ اچھے برانڈ کے جوتے یہاں بیس سے پینتالیس ڈالر کے مل جاتے تھے۔سنہ 2014 اور 2015 کے بعد جب امریکیوں نے اپنا سب کچھ یہاں لپیٹنا شروع کیا تو بازار میں اشیا مہنگی بکنے لگیں کیونکہ سپلائی کم ہوتی جا رہی تھی۔گذشتہ دوپہر لنچ کے بعد میں نے نامہ نگار سکندر کرمانی کے ساتھ اس بازار کا رْخ کیا۔ وہاں پہنچے تو ایک شخص نے بتایا کہ اب یہاں چین سے بھی سامان سپلائی ہوتا ہے۔ابھی میں ایک دکانوں پر ہی گیا تھا کہ مجھے بتایا گیا کہ وہاں کچھ طالبان جنگجو آگئے ہیں۔میں کچھ دیر میں باہر نکلا تو ایک طالب بندوق پر لگانے والی دوربین لے رہا تھا۔اس نے کہا کہ ’دیکھنے میں تو یہ چینی لگتی ہے۔‘میں نے پوچھا ’آپ کس ملک کی چیز کو ترجیح دیتے ہیں؟‘تو اس نے کہا کہ ’ہم امریکی چیز کو ترجیح دیتے ہیں، اس کی کوالٹی کی وجہ سے۔‘پھر وہ بولا ’اصلی نہیں ملی تو اسی سے گزارا کروں گا۔‘اس طالب نے بتایا کہ ’ہمارا تعلق صوبہ بدخشاں سے ہے۔‘ابھی یہ گروپ وہیں تھا تو اگلی دکانوں پر ہمیں طالبان کا ایک اور گروپ ملا جس نے کہا کہ ’ہم اپنی کٹ کا ضروری سامان لینے آئے ہیں۔ ہم پہاڑوں میں جاتے ہیں تو پانی کی بوتلیں اور جیکٹس اور ورزشی جوتے چاہیے ہوتے ہیں۔‘ان کا بھی یہی کہنا تھا کہ ’ہم کوشش کر رہے ہیں کہ ہمیں امریکی سامان مل جائے۔‘لگتا تھا بازار میں آج طالبان ہی شاپنگ کر رہے ہیں۔وہیں ایک اور گروپ آیا۔ ایک طالب نے روسی رائفل اٹھائی ہوئی تھی اور اس کا سیفٹی کیچ آف تھا۔میں نے اس سے کہا کہ ’اسے تو آن کرو۔‘ بندوق کی سیفٹی آف دیکھ کر ڈر تو کسی کو بھی لگ سکتا ہے۔تو جواب ملا ’نہیں! ابھی خطرہ ہے۔ اس لیے میں اسے آف رکھتا ہوں۔‘خیر میں مزید کچھ کہہ نہیں سکتا تھا۔طالبان کو مختلف جوتوں کے برانڈز کے نام یاد تھے اور میرے لیے یہ بات باعث حیرت تھی کہ یہ بھی امپورٹڈ اور برانڈڈ کی دوڑ میں شامل ہیں۔ان مارکیٹس میں جہاں دیگر اشیا بہت مقبول ہیں وہیں سر فہرست ایم 65 جیکٹ بھی ہے جو اب اصلی بہت کم ہی ملتی ہے۔میں نے مجاہدین کے دور میں اور پھر طالبان کے زمانے میں مشہور ہونے والی ایم 65 جیکٹ دیکھی تو میں نے پوچھا ’کیا یہ اصلی ہے؟‘اس نے کہا ’نہیں اب اصل نہیں ملتی۔ یہ پرانی ہے۔‘یہ جیکٹ دراصل 1965 میں امریکیوں کے لیے ڈیزائن ہوئے تھی اور آج بھی استعمال کی جا رہی ہے۔اگرچہ بعد میں امریکہ نے اسے بنانا تو بند کر دیا تھا لیکن اس سے ملتے جلتے ورڑن بھی بنتے رہے ہیں۔اگر آج بھی آپ اسے لیں تو یہ سیکنڈ ہینڈ بھی آٹھ سے دس ہزار افغانی تک کی ملے گی۔بازار سے نکلتے ہوئے پھر کچھ نوجوان طالبان ٹکرائے جنھوں نے بتایا کہ ’ہم ابھی منگل کی شام پنجشیر سے لوٹے تھے اور اب اپنی کٹ کے لیے سامان خرید رہے ہیں۔‘میں نے ان سے پوچھا ’وہاں حالات کیسے ہیں؟‘ تو جواب ملا سب ٹھیک ہے۔ ’ہم جنگ جیت چکے ہیں۔‘ یہ کہہ کر وہ وہاں سے آگے بڑھ گئے۔وہیں قریب کھڑے اور پنجشیری دکاندار نے ان کے جانے کے بعد مجھے کہا کہ ’آپ کیسے صحافی ہو؟ خود جاؤ نا پنجشیر۔ ان سے کیا پوچھتے ہو۔‘میں نے کہا ’کیا آپ وہاں جا سکتے ہیں؟‘ تو بولا نہیں۔ میں نے جواب دیا ’بتائیں جب آپ نہیں جا سکتے تو ہمیں کون جانے دے گا۔‘بْش بازار میں اب امریکی کم اور چین کا سامان زیادہ بکتا ہے۔ کچھ لوگ تو پہچان لیتے ہیں لیکن کچھ نقل کو ہی اصل سمجھ کر خرید کر خوش خوش باہر نکل جاتے ہیں۔میں واپس ہوٹل لوٹا تو صبح سویرے ناشتے کے وقت ہوٹل میں آیا بھونچال ختم ہو چکا تھا۔بڑی بڑی گاڑیوں میں قطریوں کا سامان لادا جا رہا تھا۔میں نے پوچھا ’یہ کیا قطری جا رہے ہیں؟‘ تو جواب ملا ’جا نہیں رہے بلکہ ایئرپورٹ شفٹ کر رہے تھے۔ تاکہ وہاں ہی کام کریں۔ کوشش ہے کہ ایک ہفتے میں کام مکمل ہو جائے گا اور پھر پروازیں بھی کھل جائیں۔‘