چھاتی کے کینسر کے بعد ریڈیو تھراپی سے30 سال بعد بہتری کے امکانات نہیں ہوتے

لندن ،نومبر۔ ریسرچرز نے دریافت کیا ہے کہ چھاتی کینسر کے بعد ریڈیو تھراپی سے 30 سال بعد کینسر دوبارہ نہ ہونے کے امکانات میں کوئی بہتری نہیں آتی۔ ریسرچرز کا کہنا ہے کہ ریڈیو تھراپی، کیموتھراپی یا ہارمون ابتدائی 10 سال کے دوران تو کینسر کو دوبارہ ہونے سے روکتی ہے لیکن 30سال بعد اس کے زندہ رہنے کے امکانات میں کوئی بہتری نہیں آتی۔ یورپی بریسٹ کینسر کانفرنس میں پیش کی جانے والی اس نئی سٹڈی پر تبصرہ کرتے ہوئے بعض ماہرین نے کہا ہے کہ جن خواتین کو اس سٹڈی میں شامل کیا گیا، انھوں 3 عشرے قبل علاج کرایا تھا لیکن اس کے بعد سے ریڈیو تھراپی کے علاج کی زیادہ جدید ترین ٹیکنالوجیز آچکی ہیں۔ نئی سٹڈی کی قیادت کرنے والے ایڈنبرا یونیورسٹی کے کلینکل آنکولوجی کے اعزازی پروفیسر یان کنکلر کا کہنا ہے کہ یہ چھاتی کے کینسر کا آپریشن کرانے والی خواتین کا سب سے طویل عرصہ پرانی صورت حال کی سٹڈی ہے۔ سکاٹ لینڈ میں کی جانے والی اس سٹڈی میں 70سال سے کم عمر 585 مریضوں کا 30سال تک جائزہ لیا گیا۔ ان تمام خواتین کی سرجری کے بعد کیموتھراپی کی گئی تھی یا پھر ایک دوا tamoxifen دی گئی تھی۔ ان میں سے نصف مریضائیں ریڈیوتھراپی بھی کراچکی تھیں، ان میں سے جن خواتین نے ریڈیوتھراپی کرائی تھی، ان میں ابتدائی علاج کے ایک عشرے کے بعد ان میں دوبارہ کینسر ہونے کے خدشات میں 60فیصد کمی نظر آئی لیکن 10 سال دونوں گروپوں کی خواتین میں کینسر دوبارہ ہونیکے خدشات یکساں ہوگئے اور ان کے علاج کے 30سال بعد ریڈیو تھراپی کرانے والی 24فیصد خواتین زندہ تھیں جبکہ ریڈیو تھراپی نہ کرانے والی 27.5فیصد خواتین زندہ تھیں۔ پروفیسر کا کہنا ہے کہ چھاتی کے کینسر میں طویل عرصے بعد کی صورت حال کا جائزہ لیتے رہنا ضروری ہے تاکہ مکمل صورت حال سامنے آسکے۔ ریڈیو تھراپی سے بہتری کے نتائج ابتدائی 10برسوں کے دوران ہی نظر آتے ہیں۔ پروفیسر کنکلر کا کہنا ہے کہ ان باتوں کے انکشاف کے بعد اب اسی طرح کی طویل مدت پر مبنی سٹڈی سے اس کا موازنہ کیا جانا چاہئے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہر خاتون کے چھاتی کا کینسر دوسرے سے مختلف ہوتا ہے اور سرجری کے بعد ریڈیو تھراپی کرانا ہے یا نہیں، اس کا فیصلہ مریض اور ڈاکٹر کو مریضہ کے چھاتی کینسر کی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے سنجیدگی کے ساتھ مشاورت کرنا چاہئے۔ شفیلڈ ٹیچنگ ہسپتال کے ریڈیو تھراپی فزکس کے سربراہ ڈاکٹر سٹیفن ٹوزر لوفٹ نے اس سٹڈی پر تبصرہ کرتے ہوئے اس سٹڈی کو انتہائی اہم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سٹڈی کا کمزور پہلو یہ ہے کہ یہ آج سے 30 سال قبل کرائے جانے والے علاج کے بارے میں ہے جبکہ اس کے بعد انتہائی جدید طریقے اور طریقہ علاج سامنے آچکے ہیں، جن پر عملدرآمد کیا جا رہا ہے۔یورپی بریسٹ کینسر کانفرنس کی شریک سربراہ ڈاکٹر ٹنجا اسپینک نے کہا کہ ہمیں کئی عشرے پرانے مریضوں پر اس طرح کے مزید تجربات کرنے چاہئیں تاکہ علاج کیطویل المیعاد اثرات کا جائزہ لیا جاسکے۔

Related Articles