نریندر مودی کا دورہ امریکہ
انڈیا کے نئے کواڈ اتحاد میں چین کے خلاف کیا حکمت عملی بن سکتی ہے؟
دہلی،ستمبر۔گذشتہ ڈیڑھ سال کے دوران اکثر میٹنگز کی طرح کواڈ اتحاد، جس میں امریکہ، آسٹریلیا، انڈیا اور جاپان شامل ہیں، کا پہلا اجلاس بھی ’ورچوئل‘ تھا۔ان ملکوں کے سربراہان نے مارچ میں رابطہ قائم کیا تھا اور ایشیا کے ملکوں کے لیے سنہ 2022 کے اواخر تک ایک ارب کووڈ ویکسین بھیجنے کے منصوبے میں تعاون پر اتفاق کیا تھا۔لیکن اب جمعہ کو کواڈ کا پہلا ’اِن پرسن‘ اجلاس واشنگٹن ڈی سی میں ہونے جا رہا ہے۔ لیکن یہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے کہ جب رواں ہفتے کے اوائل میں ایک نئے بین الاقوامی سکیورٹی معاہدے نے تنازع کھڑا کر دیا ہے۔متنازع آکس معاہدے میں امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا شامل ہیں۔ اس معاہدے کے تحت آسٹریلیا کو پہلی بار امریکہ کی جوہری ایندھن سے چلنے والی آبدوز کی ٹیکنالوجی تک رسائی مل جائے گی۔تو کیا آکس معاہدے سے کواڈ پر کوئی فرق پڑے گا؟ ان ممالک کے سربراہان نے اجلاس کے دوران چین کے براہ راست تذکرے سے اجتناب کیا ہے۔ لیکن خیال ہے کہ اس تعاون کی کوششوں کا اصل مقصد انڈو پیسیفک خطے میں چین کے اثر و رسوخ کو کم کرنا ہے۔انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی کے ذہن میں چین ضرور ہو گا جب وہ کواڈ کے دیگر رہنماؤں سے ملاقات کریں گے۔ انڈیا اس گروہ میں وہ واحد ملک ہے جس کی سرحد چین کے ساتھ ہے۔ کئی مقامات پر اس سرحد پر جھڑپیں ہو چکی ہیں۔ گذشتہ سال دونوں ملکوں کے فوجیوں کی ایک لڑائی میں ہلاکتیں بھی ہوئی تھیں۔حالیہ برسوں میں انڈیا بین الاقوامی اجلاسوں میں بارہا شرکت کرتے پایا گیا ہے اور یہاں اس کی شمولیت کو اہم سمجھا جاتا ہے۔ انڈیا کچھ ایسے اجلاسوں میں بھی موجود ہوتا ہے جہاں چین بحیثیت ایک رکن موجود ہوتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ آکس اور کواڈ دونوں کے وجود سے انڈیا کو فائدہ پہنچے گا۔کواڈ کے اجلاس سے نئی دہلی دیگر تین رکن ممالک کے ساتھ اپنی تشویش کا اظہار کر سکے گا اور یہ تمام ملک اس پر ایک مشترکہ حکمت عملی ترتیب دے سکیں گے۔’کنٹرول رسکس‘ نامی ادارے میں ساؤتھ ایشیا کے ڈائریکٹر پراتش راؤ کہتے ہیں کہ اس اجلاس میں رکن ممالک خطے میں چین کے بڑھتے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے حکمت عملی بنا سکتے ہیں۔راؤ کہتے ہیں کہ ’اس اجلاس میں طویل مدتی تعاون کی بنیاد ڈالی جا سکتی ہے جس میں پیچیدہ ٹیکنالوجی، فوجی تعاون اور خطے میں انفراسٹرکچر کی تعمیر کے لیے مالی وسائل پر کام ہو سکے گا۔‘ان کا کہنا تھا کہ دونوں فورم، آکس اور کواڈ، خطے میں ایک دوسرے کی حمایت کریں گے اور انڈو پیسیفک خطے میں علاقائی سکیورٹی کے معاملے میں رکن ممالک ایک دوسرے کی مدد کریں گے۔خیال ہے کہ کواڈ ماحولیاتی تبدیلی، سائبر سکیورٹی، انفراسٹرکچر کی تعیر اور نئی ٹیکنالوجی جیسے فائیو جی انفراسٹرکچر پر معلومات کی شیئرنگ جیسے امور پر تعاون کا اعلان کرے گا۔واشنگٹن کے تھینک ٹینک ویلسن سینٹر کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل کوگلمین کا کہنا ہے کہ کواڈ نے پہلے ہی ٹھوس نتائج کا اعلان کیا ہے، جیسا کہ کووڈ ویکسین کی پیداوار اور تقسیم۔کوگلمین کا کہنا ہے کہ ’انڈیا ایسے نتائج سے مشکل میں نہیں پڑے گا کیونکہ یہ چین کے لیے زیادہ اشتعال انگیز نہیں۔‘لیکن تجزیہ کار کہتے ہیں کہ کواڈ کے فریم ورک میں انڈیا کے کچھ مسائل غیر حل شدہ ہی رہیں گے۔ انڈیا کو درپیش بڑے چیلنجز میں سے ایک بحیرہ ہند اور چین کے ساتھ سرحد کا ہے۔چین کی جانب سے پاکستان میں سرمایہ کاری کی جا رہی ہے ۔ یہ منصوبہ چینی بیلٹ اینڈ روڈ پراجیکٹ کا حصہ ہے۔ اب بیجنگ افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے اور یہ بھی نئی دہلی کے لیے باعث تشویش ہے۔تو کیا کواڈ انڈیا کی مدد کر سکے گا تاکہ اس کے لیے سکیورٹی کی مشکلات حل ہو سکیں؟ سابق انڈین سفارتکار جیتیندر ناتھ مشرا کہتے ہیں کہ انڈیا کے لیے سب سے بڑا خدشہ سمندری مفادات کا تحفظ ہونا چاہیے۔
مشرا کہتے ہیں کہ ’انڈیا کو اس اتحاد سے کچھ مشکل سوال پوچھنے ہوں گے جیسا کہ ان سمندری حدود کے مفادات کا تحفظ کیسے ہو گا جہاں چین کئی برسوں سے اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے۔‘کواڈ اجلاس کے علاوہ مودی پہلی بار امریکی صدر جو بائیڈن سے ’ون آن ون‘ ملاقات بھی کریں گے۔ اس ملاقات میں دونوں رہنماؤں کے پاس ایک موقع ہو گا کہ ایک دوسرے کو اچھے سے جان سکیں۔مودی اور بائیڈن شاید چین کے بارے میں براہ راست بات نہ کر سکیں۔ تاہم ماہرین کے مطابق یہ رہنما انڈو پیسیفک خطے اور افغانستان میں بیجنگ کے بڑھتے عمل دخل پر بات چیت کریں گے۔امکان ہے کہ انڈیا امریکہ سے مطالبہ کرے گا کہ وہ طالبان کو پابند کرے کہ وہ ’جیش محمد‘ اور ’لشکر طیبہ‘ جیسے مسلح گروہوں کو افغانستان کی سرزمین استعمال نہ کرنے کی اجازت دیں جس سے انڈیا پر حملوں کی منصوبہ بندی کی جا سکتی ہے۔کئی ملک ابھی سے طالبان کے ساتھ روابط کی شرائط کا تعین کرنے میں مشکلات سے گزر رہے ہیں۔ انڈیا اپنی پالیسی بنانے میں اس مسئلے کو مدنظر رکھے گا۔کچھ دیگر مسائل میں تجارتی جھگڑے شامل ہوں گے جیسے انڈیا کی جانب سے روس سے ایس-400 میزائل دفاعی نظام کی خریداری کا غیر حل شدہ معاملہ۔ امریکہ نے تاحال وضاحت نہیں کی کہ آیا وہ اس خریداری پر انڈیا کو کوئی ریلیف دے گا۔یہ دو طرفہ ملاقات شاید ان مسائل پر کوئی ٹھوس حل نہ دے۔ لیکن اس سے مودی اور بائیڈن کو ایک موقع ملے گا کہ جھگڑوں سے ہٹ کر نئی منصوبہ بندی کر سکیں اور آگے بڑھ سکیں۔راؤ کہتے ہیں کہ دونوں ممالک دیگر شعبوں میں بھی تعاون کی یقین دہانی کرائیں گے جیسے امریکی ویکسین کے کھیپ سے فائدہ لینا اور انڈیا کی پیداواری صلاحیت کی حمایت کرنا جس میں گیوی اور کوویکس جیسے منصوبے مضبوط ہو سکیں گے۔ان کا کہنا ہے کہ ’ماحول دوست ٹیکنالوجی میں مشترکہ سرمایہ کاری سے ماحولیاتی تبدیلی کا مقابلہ بھی زیر بحث ہو گا جبکہ دفاع و سکیورٹی کے مسائل پر تعاون کے استحکام پر بات ہو گی۔‘