قلم اور انسان
مفتی محمد قاسم اوجھاری
اپنی بات کو دوسروں تک پہنچانے کے دو طریقے ہیں، زبان اور قلم، زبان اور قلم کی ضرورت ہر زمانے میں رہی ہے اور اس دور میں کچھ زیادہ ہی ہے کیونکہ آج کا دور الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کا دور ہے، تقریر و تحریر اپنے عروج پر ہے، زبان و قلم رب کائنات کی اس عظیم نعمتوں میں سے ہیں جو اس نے انسانی نفوس میں ودیعت فرمائی ہیں۔ یہ قلمی ولسانی نعمت وہ ہے جس کے ذریعے ماضی میں انقلاب آیا اور آج کے بگڑے ہوئے ماحول میں بھی اس سے نکھار لایا جا سکتا ہے، آج تاریخ کی بہت سی وہ شخصیات جن کا تذکرہ ہم اپنی محفلوں اور مجلسوں میں کرتے رہتے ہیں وہ قلم ہی کی وجہ سے ہمارے درمیان زندہ ہیں، وہ اپنی تصنیفات و تالیفات ہی کی وجہ سے ہمارے درمیان موجود ہیں۔ ان کے زندہ و جاوید رہنے میں قلم کو خاصی اہمیت حاصل ہے، قلم ہی کی وجہ ہے کہ آج تک دنیا ان کے علوم و معارف سے مستفید ہو رہی ہے اور ہمیشہ ہوتی رہے گی۔
رہتا سخن سے نام قیامت تلک ہے ذوق
اولاد سے تو ہے یہی دو پشت چار پشت
زبان سے مخاطب کو وقتی طور پر مطمئن کیا جاتا ہے جبکہ قلم سے نکلنے والے انمول موتی عرصہ دراز تک افادہ اور استفادے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قلم کی اہمیت بمقابلہ زبان کے ہر زمانے میں زیادہ رہی ہے اور آج کے دور میں کچھ زیادہ ہی ہے کیونکہ بیان وخطابت تو صرف وعظ و نصیحت کے دائرے میں گھرتا جارہا ہے جبکہ موجودہ زمانے میں اپنی بات خواص و عوام میں منوانے کے لیے تحریری ثبوت از حد ضروری ہے، اس لیے تحریر سیکھنا اور قلم میں مہارت حاصل کرنا زمانے کی بھی ضرورت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ سب سے پہلے اللہ نے قلم کو پیدا کیا اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتابیں سب قلم ہی کے ذریعے لکھی گئیں اور رہتی دنیا تک باقی رہیں گی، اگر قلم نہ ہوتا تو دین ودنیا کے سارے ہی کام مختل ہوجاتے۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ قلم اللہ کی بڑی نعمت ہے، اگر یہ نہ ہوتا تو نہ کوئی دین قائم رہتا اور نہ دنیا کے کاروبار درست ہوتے۔ (معارف القرآن 784/8) علمائے سلف و خلف نے ہمیشہ تحریر کا بہت اہتمام کیا ہے جس پر ان کی تصانیف کے عظیم الشان ذخائر آج تک شاہد ہیں، مگر افسوس کہ آج کے دور میں قلم کی اہمیت سے صرف نظر کرنے کا رواج عام ہوگیا ہے، اور اس کی بہت سی تاویلات سامنے آتی ہیں جس کا ماحول پر برا اثر مرتب ہوتا ہے جس کی بنا پر اس زہریلے ماحول میں طالبین بھی اس میدان میں آگے نہیں بڑھتے اور اپنا مستقبل خوب تابناک نہیں بنا پاتے، اپنے اندر افادہ اور استفادے کا ملکہ بہم پہنچانے سے قاصر رہتے ہیں اس لیے وہ اس پوزیشن میں نہیں ہوتے کہ بین المذاہب پیش آمدہ مسائل کا بخوبی حل کرسکیں، اور نت نئے فتنوں کا مقابلہ کرسکیں۔ لہذا ضروری ہے کہ قلم کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اپنے اندر قلمی استعداد و صلاحیت پیدا کرنے کی کوشش کی جائے تاکہ پیش آمدہ مسائل کا صحیح انداز میں حل کیا جاسکے اور تبلیغ دین کا کام بخوبی انجام دیا جاسکے۔