طالبان نے ہلمند میں داڑھی تراشنے پر پابندی عائد کر دی
ہلمند،ستمبر۔افغانستان کے صوبے ہلمند میں طالبان نے ہیئر ڈریسرز پر مردوں کی داڑھی تراشنے یا چھوٹی کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ اسلامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔طالبان حکام کا کہنا ہے کہ اس اصول کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا دی جا سکتی ہے۔دارالحکومت کابل میں بھی کچھ سیلون مالکان کو اسی طرح کے احکامات دیے گئے ہیں۔یہ اقدامات طالبان کے سابقہ دور کی عکاسی کرتے ہیں کہ جب ایسے سخت احکامات جاری کیے جاتے تھے۔ طالبان کی عبوری حکومت کی تشکیل سے قبل ان کے ترجمانوں نے وعدہ کیا تھا کہ اس بار وہ اقتدار میں آنے کے بعد لوگوں پر اتنی سختی نہیں کریں گے۔گذشتہ ماہ اقتدار میں آنے کے بعد سے ایسے واقعات سامنے آئے ہیں جن میں طالبان نے اپنے مخالفین کو سخت سزائیں دی ہیں۔ سنیچر کو ان کے جنگجوؤں نے چار مبینہ اغواکاروں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا اور ہرات صوبے کی ایک گلی میں ان کی لاش سب کے سامنے لٹکا دی تھی تاکہ باقیوں کو ’عبرت‘ حاصل ہو سکے۔جنوبی صوبے ہلمند میں سیلون کے باہر یہ نوٹس لگا دیکھا جاسکتا ہے جس میں طالبان نے ہیئر ڈریسرز کو متنبہ کیا ہے کہ وہ بال اور داڑھی تراشتے ہوئے اسلامی شریعت کی پیروی کریں۔بی بی سی کی جانب سے دیکھے گئے اس نوٹس میں کہا گیا ہے کہ ’کسی کو بھی شکایت کا حق نہیں۔‘کابل میں ایک حجام نے بتایا ہے کہ ’(طالبان) جنگجو آتے رہتے ہیں اور ہمیں حکم دیتے ہیں کہ داڑھی تراشنا ترک کر دو۔ ایک نے مجھے کہا کہ وہ ہمیں پکڑنے کے لیے سادہ لباس میں جاسوس بھیج سکتے ہیں۔‘ایک دوسرا ہیئر ڈریسر جو افغانستان کے بڑے سیلون میں سے ایک چلاتا ہے، نے بتایا کہ انھیں ایک شخص کی کال موصول ہوئی جو خود کو حکومتی عہدیدار کہہ رہا تھا۔ اس نے انھیں کہا کہ ’امریکی سٹائل کی پیروی کرنا چھوڑ دیں‘ اور آئندہ کسی کی داڑھی مت مونڈنا۔طالبان کے گذشتہ دور میں سنہ 1996 سے 2001 کے درمیان سخت گیر اسلامی حکومت نے مختلف سٹائل کے بالوں اور داڑھیوں پر پابندی عائد کر دی تھی۔اس کے بعد ملک میں کلین شیو افراد عام ہونے لگے اور کئی افغان مرد فیشن کی پیروی کے لیے کسی سیلون کا رْخ کرتے۔ان ہیئر ڈریسرز کی حفاظت کے لیے ان کے نام ظاہر نہیں کیے جا رہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان نئے اصولوں کی وجہ سے اب ان کا ذریعہ آمدن متاثر ہوگا۔ایک نے بی بی سی کو بتایا کہ ’کئی برسوں تک میرا سیلون ان نوجوانوں کے لیے تھا جو اپنی مرضی کی شیوو اور سٹائل چاہتے تھے۔ اب یہ کاروبار جاری رکھنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آرہی۔‘ایک دوسرے سیلون کے مالک نے بی بی سی کو بتایا کہ ’فیشن سیلون اور ہیئر ڈریسرز کی دکانیں اب غیر قانونی کاروبار بنتی جارہی ہیں۔ گذشتہ 15 سال سے یہ میرا روزگار تھا۔ اور اب مجھے نہیں لگتا میں اسے جاری رکھ سکوں گا۔‘مغربی شہر ہرات کے ایک ہیئر ڈریسر نے بتایا کہ اسے کوئی سرکاری حکم نامہ موصول نہیں ہوا مگر اس نے خود سے داڑھیاں کاٹنا چھوڑ دیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ’لوگ اپنی راڑھی نہیں کٹوا رہے (کیونکہ) وہ سڑکوں پر موجود طالبان جنگجوؤں کا ہدف نہیں بننا چاہتے۔ وہ ان میں گھل مل کر ان کے جیسا دکھنا چاہتے ہیں۔‘قیمتیں کم کرنے کے باوجود یہ کاروبار رْک گیا ہے۔ ان کے مطابق ’کسی کو اپنے سٹائل یا بالوں کے فیشن کی فکر نہیں ہے۔‘