سیریل ارطغرل غازی: اتحاد اسلامی کی ایک کوشش

سیف انور سنبھلی
ارطغرل غازی (اردو)دیرلیش ارطغرل (ترکی) ترکی کے سرکاری چینل TRTپر نشر ہونے والا مشہور و معروف سیریل ہے۔ یہ مسلم دنیا میں سب سے زیادہ مقبول ہونے والی ڈرامہ سیریز ہے۔ دسمبر ۲۰۱۴ء سے مئی ۲۰۱۹ء تک ترکی میں نشر ہونے والا یہ ڈرامہ اس قدر مقبول ہو ا کہ دسیوں زبانوں میں اس کیDubbing (ترجمہ)ہو چکی ہے اور پچاسوں ممالک میں نشر کیا جا چکاہے، کیا جا رہا ہے۔ یہ ڈرامہ سیریز ۵ سیزن(Seasons)اور ۱۵۷، اقساط(Episodes) پر مشتمل ہے۔ ہر قسط کا دوررانیہ دو گھنٹے کاہے۔ ترکی کے خانہ بندوش قبیلہ قائی کی کہانی ہے۔ سب سے اہم کردار عثمانی سلطنت کے بانی عثمان غازی کے والد ارطغرل غازی کا ہے۔ ان کے حیات و کارناموں کی داستان ہے۔ یہ ڈرامہ استنبول کے ایک گائوں Riva میں فلمایا گیا ہے۔ یہ سیریز ادبی، فنی اور موجودہ تمام تکنیکی خوبیوں سے بھی پر ہے۔ اس کی تحریر (script)کا ہر جملہ صاف، واضح، دل کش و دلآویز ہونے کے ساتھ معنیٰ خیز ہے۔ اس کو جس خوبی کے ساتھ فلمایا گیا ہے، خود اپنے آپ میں ایک مثال ہے۔ ’’ارطغرل غازی تیرہویں صدی اناطولیہ (ترکی )کی تاریخ سے ماخوذ ایک عظیم الشان داستان ہے۔ ایمان، انصاف اور محبت کی روشنائی سے لکھی ایک بہادر جنگجو کی کہانی جس نے اپنی ثابت قدمی اور جرات سے نہ صرف اپنے قبیلہ بلکہ تمام عالم اسلام کی تقدیر بدل ڈالی۔ اوغوز ترکوں خانہ بدوش قبیلہ کو ایک ایسے وطن کی تلاش تھی جہاں ان کی نسلیں پروان چڑھ سکیں۔ قائی قبیلہ کے سردار سلیمان شاہ کے بیٹے ارطغرل غازی نے اسلام کی سربلندی کی خاطر اپنی جان و مال اور عزیزو اقارب کو خطرے میں ڈال کر اپنے جنگجوئوں کے ساتھ مختلف ادوار میں صلیبیوں، منگولوں، سلجوق سلطنت میں موجود غداروں اور دیگر اسلام دشمن عناصر کو شکست دی۔ ۱۲۸۰ء میں ارطغرل کی وفات کے بعد اس کے بیٹے عثمان نے عظیم سلطنت عثمانیہ کی داغ بیل ڈالی اور یوں خانہ بدوشوں کے اس قبیلہ نے تین بر اعظموں پر چھہ سو سال تک حکومت کی۔ یہ ڈرامہ سیریل تاریخی کرداروں اور واقعات سے ماخوذ ہے‘‘ اس سیریل کی سب خاص بات یہ ہے کہ یہ ۱۳ویں صدی کی تہذیب و ثقافت، لباس اور روایات کے ساتھ اسلامی عقائد،عبادات، اقدار و آداب کا بھی عکاس ہے۔ قیام و طعام، عدل وانصاف، آداب و رعایات، سزاوقضاء، جنگ و امن، سیر وتفریح، طنزومزاح، سیاست و معاشرت،معاملات وغیرہ تمام امورمیں اسلامی احکام و روایات کی نمائش ہے۔ یہ سیریل ایسے وقت میں جب پوری دنیا کے مسلمان مایوس کن حالات سے گزر رہے ہیں، حوصلہ اور ایک امید کی کرن ہے۔ اس سے ناظرین میں سماجی و سیاسی شعور پید اہو رہا ہے دیکھنے والوں کے اندر سے ڈر، خوف اور احساس کمتری (Inferiority Complex)کا خاتمہ ہو رہا ہے۔ اور مسلم نوجوانوں کے لیے حوصلہ افزا ثابت ہو رہا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس سے مسلم نوجوانوں میں بے جا جذباتیت اورا اشتعال پیداہونے کے بجائے شعور،پختہ خیالی، جذبہء ایمانی، حق و صداقت، عدل انصاف کی حمایت اور ظلم و جبر سے نفرت کے عناصر پیداہو رہے ہیں۔ ارطغرل غازی کا کردار ہمیں مظلوم کی مدد کرنے، عدل وانصاف قائم کرنے، حق و سچ کے لیے اپنی جان تک کی بازی لگانے کا درس دیتا ہے۔ ارطغرل غازی آپسی رنجشوں کے خاتمہ کے لیے ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ اتحاد کو کامیابی و افتخار کا ذریعہ سمجھتا ہے۔ خراب سے خراب تر حالات میں بھی مرکز واحد ( سلجو ق ریاست)سے لا تعلق نہیں ہوتا۔ اور اپنے ساتھیوں کو بھی یہی تلقین کرتا ہے کہ اتحاد ہی اصل ذریعہء نجات ہے۔ جس سماج، قبیلہ یا ریاست کے افراد و اراکین متحد و متفق ہوتے ہیں۔ وہ مضبوط ومستحکم ہوتے ہیں۔ اور زمانہ ان کی طاقت کو تسلیم کرتا ہے۔ ارظغرل غازی کا با حوصلہ، جرائتمندانہ، صبرآزما، آزمائشوں ومصیبتوں سے پر کردار ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ آپ کتنی ہی مصائب و آلام سے گھرے ہوئے ہوں، اگر آپ میں ہمت و جرئت باقی ہے۔ اورآپ مایوس ہوکر ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھے ہیں، مقاصد کی تکمیل کے لیے نڈر اور بے خوف ہوکر راہ راست پر گامزن ہیں، تو یقینا فتح و کامیابی آپ ہی کا مقدر ہوگی۔ آپ اپنے بہادرانہ کردار و رویہ سے نہ صرف اپنے خاندان، قبیلہ یا علاقہ کو مضبوط و مستحکم کر سکتے ہیں بلکہ سلجوق جیسی عظیم ریاست کو غداری سے پاک اور دشمنوں سے بچاسکتے ہیں۔ منگول جیسی ظالم و جابر اور انسان خور قوم کو آپ شکستوں کا مزہ چکھا سکتے ہیں۔ صلیبی جیسے چالباز لوگوں کی سازشوں کو انہیں پر الٹ سکتے ہیں۔ یہ سیریل ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ دشمنان اسلام سے مقابلہ اسی وقت ممکن ہے جب ہماری صفیں اختلاف و غداری سے پاک ہوں۔ کامیابی و کامرانی اسی وقت مقدر ہوسکتی ہے جب ہم مخالفوں کے خلاف متحد و متفق ہوکر نبرد آزما ہوں۔ اس ڈرامہ سیریز میں سب سے زیادہ زور حق، صداقت، عدل، انصاف اور اتحاد و اتفاق پر دیا گیا ہے۔ ارطغرل سیریز مسلمانوں کو مرکز واحد سے منسلک کرنے کے لیے، ذہن سازی کی ایک اہم کوشش ہے۔ مسلمانوں پر اس کے بہت گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ خصوصاً نو جوانوں کی ذہن سازی میں یہ نمایا کردار ادا کر رہا ہے۔ وہ ایک مرکز اور ایک امیر، ایک امام اورایک بے خوف و نڈررہنماء کی اہمیت کو محسوس کر رہے ہیں۔ اس ڈرامہ سے مسلمانوں میں ذہنی و فکری انقلاب کے اثار نظر آ رہے ہیں۔ مسلم دانشوروں کا خیال ہے کہ یہ سیریل ایک انقلاب کا نقیب ثابت ہوگا۔ ایک ریاست وایک مرکز سے منسلک ہونے، اپنا ایک حاکم اور ایک امام، تسلیم کرنے کا جذبہ بیدار ہو رہا ہے۔ مسلمانوں میں ایسے نزاعات واختلافات کا اختتام ہو رہا ہے جس نے انہیں برسوں سے متفرق و متشتت کر رکھا ہے۔ مسلکی و فرقہ وارانہ منافرت کا خاتمہ ہو رہا ہے۔ اتحاد و اتفاق کا جذبہء اسلامی ان کے قلوب میں موجزن ہو رہا ہے۔ وہ یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ اتحاد و اخوت ہی وہ طاقت ہے جو انہیں کھویا ہو ا وقار واپس دلا سکتی ہے۔

Related Articles

Check Also

Close