سکوِڈ گیم: جنوبی کوریا کے ڈراموں کی دنیا بھر میں بڑھتی مقبولیت کا راز کیا ہے؟

سیول/لندن،اکتوبر۔اگر آپ کے لیے بھی نیٹ فلکس پر دکھائی جانے والی سیریز سکوِڈ گیم دیکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کو دیکھتے ہوئے آپ گیمنگ کی دنیا میں چلے جائیں گے تو آپ غلط ہیں، اور اگر یہ سیریز دیکھتے ہوئے بچپن کی پیاری یادوں کی بجائے آپ کی رگوں میں خوف کی ایک لہر دوڑ جاتی ہے، تو یقین مانیے آپ اکیلے نہیں ہیں۔جنوبی کوریا کی اس سنسی خیز سیریز میں قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے کچھ لوگ ایک بہت بڑے نقد انعام کے حصول کے چکر میں بچوں کی کمپیوٹر گیمز میں حصہ لیتے ہوئے ایک دوسرے کو مات دینے کی سرتوڑ کوشش کرتے ہیں۔ یہ نیٹ فلکس کی تاریخ کی سب سے زیادہ مقبول سیریز ہے جسے پہلے 28 دنوں میں 11 کروڑ دس لاکھ سے زیادہ ناظرین دیکھ چکے ہیں۔اس سیریز نے ثابت کر دیا ہے کہ اب جنوبی کوریا کے بنے ہوئے ڈراموں (جنھیں کے ڈراماز بھی کہا جاتا ہے) نے دنیا بھر میں ناظرین کے دل جیت لیے ہیں اور فی الحال ’کے ڈراموں‘ کا جادو ناظرین کے سر چڑھ کر بول رہا ہے۔کوریائی ڈراموں کی اس مقبولیت کا راز کیا ہے اور اگر ان ڈراموں میں آپ کی دلچسپی نئی نئی ہے تو آپ کو اور کون سے ’کے ڈرامے‘ دیکھنے چاہییں؟سکوِڈ گیمز کی اس قدر شاندار کامیابی دراصل کوریائی کلچر کی اس سونامی میں تازہ ترین اضافہ ہے جس نے گذشتہ چند برسوں میں پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔اس سیریز میں آپ کو ’بی ٹی ایس‘ اور ’بلیک پِنک‘ جیسے کوریائی پاپ میوزک کے بڑے بڑے فنکار دکھائی دیتے ہیں جو اپنے گانوں اور پیراسائیٹ اور مِناری جیسی مشہور فلموں کے حوالے سے دنیا بھر میں مقبول ہیں۔لیکن کوریائی ڈراموں کو یہ پزیرائی راتوں رات حاصل نہیں ہوئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا بھر میں ناظرین ان ڈراموں کے گرویدہ پچھلے چند برسوں میں ہوئے ہیں، لیکن ایشیا میں کوریائی ڈرامے کئی عشروں سے مقبول ہیں۔1990 کی دہائی میں جب کوریا میں کاروباری دنیا کو آزادی ملی اور دیگر شعبوں کی طرح نجی چینلز میں بھی اضافہ ہوا تو فنون لطیفہ کے شعبے میں بھی بے تحاشہ سرمایہ کاری دیکھنے میں آئی۔ ان برسوں میں جاپان اپنی گرتی ہوئی معیشت سے لڑ رہا تھا اور چین ایک نئی معاشی طاقت کے طور پر ابھر رہا تھا، تو جنوبی کوریا کا کلچر خوب ابھر کے سامنے آیا۔اس وقت ٹی وی پر ایسے پروگراموں کو لوگوں نے بہت پسند کیا جو امریکی شوز کی نسبت ایشیائی ناظرین کی زندگی کے زیادہ قریب تھے اور اخلاقی لحاظ سے چین کے لیے بھی زیادہ قابل قبول تھے۔اور پھر اگلی ایک دہائی میں کوریائی ڈراموں نے خطے میں مقبول جاپانی ٹی وی کو مات دے دی۔ یہاں تک کہ سنہ 2003 میں خود جاپان میں 20 فیصد ناظرین کوریا کے ڈرامے ’وِنٹر سوناترا‘ کے گرویدہ ہو گئے۔ کوریائی وزارت ثقافت و اطلاعات کی سنہ 2011 کی رپورٹ کے مطابق ’لگتا ہے کہ کوریائی ڈرامے ایشیا کے شہروں میں لوگوں کے رہن سہن اور صارفین کی سوچ پر اثرانداز ہو رہے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کوریا کی ثقافت میں کتنی جاذبیت ہے۔‘
فلم پیراسائیٹ کی کامیابی:عالمی سطح پر کوریائی ڈراموں میں لوگوں کی دلچسپی میں اضافے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ گذشتہ برسوں میں ’وِکی‘ اور ’ڈرامہ فِیور‘ جیسے چینلوں کے ذریعے کئی ملکوں میں لوگوں کے لیے کوریائی پروگراموں کو دیکھنا قانونی طور پرممکن ہو گیا ہے۔ ان برسوں میں انگریزی زبان میں سب ٹائٹلز کے ساتھ پیش کیے جانے والے کوریائی ڈراموں کو نئے ناظرین ملنا شروع ہو گئے جن کی تعداد مسلسل بڑھتی رہی۔جوں جوں عوام میں یہ ڈرامے مقبول ہوتے گئے تو مغربی ممالک کی ’ہْولْو‘ اور نیٹ فلکس جیسی سٹریمنگ سروسز کے ساتھ معاہدوں میں بھی اضافہ ہونے لگا۔ اور سنہ 2018 میں جب وارنر برادرز نے ’ڈرامہ فِیور‘ دکھانا بند کر دیا تو نیٹ فلکس نے کوریائی ڈراموں میں زیادہ سرمایہ کاری شروع کر دی۔اگلے دو برس میں کے ڈراموں کے شوقین صارفین کی تعداد میں آہستہ آہستہ اضافہ ہوتا گیا اور لوگ نت نئی کہانیوں سے لطف اندوز ہونے لگے اور انھیں حقیقت سے فرار کا اچھا ذریعہ مل گیا۔ پھر 2019 میں ہر کوئی رومانونی ڈرامے ’کریش لینڈِنگ آن یو‘ کی بات کر رہا تھا۔ یہ ڈرامہ نہ صرف 229 دن تک جاپان میں دس مقبول ترین شوز میں شامل رہا بلکہ امریکہ میں نیٹ فلکس پر چھ سب سے زیادہ دیکھے جانے والے ڈراموں میں بھی شمار ہونے لگا۔ یہی وہ وقت تھا جب ’پیراسائیٹ‘ نے بڑی سکرین پر کامیابی کے جھنڈے گاڑے اور کوریائی ڈراموں کی مقبولیت میں راتوں رات بہت زیادہ اضافہ ہو گیا۔اس کے بعد کورونا کی وبا آ گئی اور مغربی ممالک میں انٹرٹینمنٹ کی صنعت پر باقاعدہ تالے پڑ گئے تو کے ڈراموں نے مقبولیت میں باقی تمام شوز کو پیچھے چھوڑ دیا۔ نیٹ فلکس کا کہنا تھا کہ 2019 کے مقابلے میں 2020 میں ایشیا بھر میں کوریائی ڈراموں کی مقبولیت میں چار گنا اضافہ ہوا۔اس حوالے سے لندن میں مقیم کے ڈراموں کی دلدادہ ٹیلر ڈیور رمبل کا کہنا تھا کہ ’مقبول ترین کوریائی ڈراموں میں آپ کو بہت سٹائل دیکھنے کو ملتا ہے، زرق برق لباس اور حقیقت سے دور کی ایک دنیا دکھائی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوریائی ڈرامے حقیقت سے فرار کا بہترین ذریعہ بن چکے ہیں۔‘’گذشتہ چند تاریک برسوں کے بعد لوگ دلوں کو گرمانے والی انٹرٹینمنٹ کی طرف کھچے چلے آ رہے ہیں۔‘ٹیلر ڈیور رمبل کے بقول کوریا کے ٹی وی شوز میں آپ کو ’بہت سے ایسی کہانیاں دیکھنے کو ملتی ہیں جو بڑی انوکھی ہوتی ہیں اور ان میں ایسے غیرمتوقع موڑ آتے ہیں جو آپ کو برطانوی یا امریکی چینلز پر کبھی بھی دکھائی نہیں دیتے۔‘ان ڈراموں کی مقبولیت کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ آپ انھیں پوری فیملی کے ساتھ دیکھ سکتے ہیں۔ ’ان میں ننگا پن یا سیکس بالکل نہیں ہوتا۔ کوریائی معاشرہ بہت قدامت پسند ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے زیادہ شوز ایسے ہوتے ہیں، یعنی مختلف ثقافتوں کے لوگوں کے لیے پرکشش ہوتے ہیں۔‘رمبل کہتی ہیں کہ آپ ان خوبیوں میں زبردست پروڈکشن اور بے حد خوبصورت مناظر کا اضافہ کر دیں تو یہ ڈرامے ’آپ کو ایک ایسے شاندار تجربے سے روشناس کرواتے ہیں جو آپ کو کسی دوسرے (چینل پر) دکھائی نہیں دیتا۔‘کے ڈراموں کی ایک خاص بات یہ ہے کہ ان میں آپ کو معاشرتی دباؤ کی ایسی کہانیاں دیکھنے کو ملتی ہیں جو مختلف ممالک کے نوجوانوں کو ان کی اپنی زندگی سے قریب لگتی ہیں۔رمبل کے بقول جوں جوں امیر اور غریب کے درمیان فرق میں اضافہ ہو رہا ہے اور دوسری چیزوں میں بھی عدم مساوات بڑھتی جا رہی ہے، تو ایسے میں پیراسائیٹ میں کوریائی معاشرے کی دو انتہاؤں کو جس کھْلے انداز میں پیش کیا گیا ہے، بہت سے لوگوں کو اس میں اپنا آپ دکھائی دیتا ہے۔رمبل کے خیال میں سکوِڈ گیم میں بھی اس قسم کے نشتر پنہاں ہیں۔ ’اس (ڈرامے کے کردار) بہت سے مختلف مسائل کا سامنا کرتے ہیں، مثلاً قرض کا بوجھ اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے خاندان کی دیکھ بھال، یہ چیز کسی حد تک موجودہ حالات کی عکاسی کرتی ہے جہاں دنیا ابھی تک وبا سے نکلنے کی کوشش کر رہی ہے، ایک ایسی وبا سے جس نے بہت سے لوگوں کی جان اجیرن کیے رکھی۔‘اور اگر آپ سکوڈ گیم کے شوقین ہیں تو یہ چھ ڈرامے بھی دیکھیے۔
کریش لینڈِنگ آن یو (رومانونی ڈراموں سے شائقین کے لیے):طوفان، پیراگلائیڈنگ کی ناکام مہم اور شمالی و جنوبی کوریا کی سرحدوں سے ماورا محبت کی داستان۔ اگر آپ کے ڈراموں کی عجیب و غریب دنیا سے تعارف چاہتے ہیں تو شاید اس سے بہتر ڈرامہ کوئی اور نہ ہو۔اس ڈرامے کا مرکزی کردار جنوبی کوریائی حسینہ یون سیری ہے جو کہ نہ صرف ایک کامیاب کروڑ پتی کاروباری شخصیت ہے بلکہ منجھی ہوئی پیراگلائیڈر بھی۔ طوفان میں پھنس جانے کے بعد جب ان کا جہاز فضا میں پھٹ جاتا ہے اور انھیں ہوش آتا ہے تو وہ خود کو ایک جنگ زدہ علاقے میں پاتی ہیں۔ خوش قسمتی سے ان کا سامنا شمالی کوریا کے ایک فوجی، کیپٹن ری سے ہو جاتا ہے۔ یہاں سے محبت کی ایک ایسی داستان کا آغاز ہو جاتا ہے جس میں آپ کو ساز باز، سیاست، اور خوبصورت مزاح سب کچھ دیکھنے کو ملے گا۔
وِنسِنزو ( گینگسٹرز کی کہانیوں کے شائقین کے لیے):وِنسنزو وکیل ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اطالوی مافیا باس کے مشیر بھی ہیں۔ اپنے وطن کوریا واپس آنے کے بعد وہ ایک کمپنی کے بدعنوان سربراہ اور اس کے قریبی شخص سمیت شہر کے تمام بدمعاشوں کا تیا پانچہ کرنے کی ٹھان لیتے ہیں۔یہ ڈرامہ ایک محبت نامہ ہے، جرم، گینگسٹرز اور ڈرامائی قانونی جنگ کے نام جسے آپ دیکھنا شروع کر دیں تو تمام قسطیں دیکھ کر ہی دم لیں گے۔
او مائی گھوسٹ (بھوتوں کی کہانیوں کے شائقین کے لیے):اس ڈرامے میں بھوت ارتھ نامی لڑکی کے پیچھے پڑ جاتا ہے اور اس وقت تک اس کی جان نہ چھوڑنے کی دھمکی دیتا ہے جب تک وہ پہلی بار ہم بستری نہیں کر لیتی۔ ہم اس سے زیادہ کچھ بتائیں گے تو خدشہ ہے آپ کا مزا کرکرا ہو جائے گا۔کِنگڈم (تاریخی اور ڈراؤنی کہانیوں کے شائقین کے لیے)اگر آپ 17ویں صدی کے ایک ولی عہد کی زندگی پر مبنی، عجیب و غریب کرداروں سے لبریز ایک سنسی خیز ڈرامہ دیکھنا چاہتے ہیں تو یہ ڈرامہ آپ کی توقعات پر پورا اترے گا۔
اِن ہیریٹرز (وارث):یہ داستان ہے وراثت کی جس میں آپ کو ایک بہت بڑے خاندان کے وارثوں اور ان کے ارد گرد کے افراد کے درمیان دوستی، دشمنی، عشق و محبت کی نہایت دلچسپ کہانیاں دیکھنے کو ملیں گی۔ اس ڈرامے کے کچھ مناظر تو ایسے ہیں کہ ان کے سامنے ’بولڈ اینڈ دا بیوٹی فْل‘ کے کردار بھی شرما جائیں۔سٹرانگ گرل بونگ سْون (سپر ہیروز کے شائقین کے لیے)اس ڈرامے کا مرکزی کردار ڈو بونگ سْون نامی ایک جوان خاتون ہے جسے ورثے میں بے پناہ جسمانی طاقت ملتی ہے اور اپنی تمام کوششوں کے باوجود وہ اپنی اس صلاحیت کو دنیا سے چھپا نہیں پاتی۔اور جب اس راز سے پردہ اٹھتا ہے تو کچھ ساتھیوں کو جمع کر کے وہ جرائم کی دنیا کے بڑے بڑے ناموں کے خلاف ایک طویل جنگ شروع کر دیتی ہے۔

Related Articles