سمندر میں پھنسنے والے بڑے کارگو جہازوں کو کس طرح ریسکیو کیا جاتا ہے

لندن،جون۔بارش کی موٹی موٹی بوندیں کھڑکیوں سے ایسے ٹکرا رہی تھیں جیسے تھپیڑے مار رہی ہوں۔ بپھرا ہوا سمندر جہاز کے ڈھانچے (ہل) سے ٹکرا رہا تھا اور طاقتور ہوا چنگاڑ رہی تھی۔ یہ سنہ 2010 کی ایک آدھی رات کا وقت تھا۔ 230 میٹر لمبا کوٹا کاڈو جہاز ہانگ کانگ کی ساحل پر پھنسا ہوا تھا۔اس کے عملے کو تو بحفاظت بچا لیا گیا، لیکن جہازوں کو بچانے کے ماہر (سالویج ماسٹر) کپتان نک سلون لائف جیکٹ پہنے جہاز کے پل پر کھڑے آنے والے برے لمحات کے لیے خود کو تیار کر رہے تھے۔ انھوں نے دیکھا کہ اس رات کے وقت بھی طوفان کی طاقت اس بچارے جہاز پر قہر ڈھا رہی تھی۔سلون وہاں سالویج ٹیم کے دوسرے پانچ اراکین کے ساتھ موجود تھے۔ وہ کچھ دن پہلے ہی کوٹا کاڈو کو بچانے کے لیے ساؤتھ چائنا سی پہنچے تھے۔ جب یہ پیشنگوئی کی گئی کہ طوفان پھنسے ہوئے جہاز سے بار بار ٹکرائے گا، تو سلون نے فیصلہ کیا وہ اپنی چھوٹی سی ٹیم کے ساتھ جہاز پر ہی رات گزاریں گے۔وہ یہ جاننا چاہتے تھے کہ طوفان کی وجہ سے جہاز کتنا جھکتا ہے، تاکہ یہ پتہ لگایا جا سکے کہ جہاز کے کس حصے کے ساتھ یہ سب سے زیادہ ٹکراتا ہے، اس کو دیکھ کر انھوں نے اپنا اگلا لائحہ عمل طے کرنا تھا۔ لیکن یہ بہت خطرناک کام تھا۔وہ کہتے ہیں کہ ’اس رات ہم نے تقریباً اسے کھو دیا تھا۔‘دنیا بھر میں کارگو لے کر جانے والے جہازوں کو، جو کہ عالمی تجارت کا 90 فیصد حصہ لے کر جاتے ہیں، ہمیشہ خطرہ رہتا ہے کہ منزل پر پہنچنے سے پہلے ہی ان کے ساتھ کوئی نہ کوئی ناخوشگوار واقع پیش آ سکتا ہے۔انشورنس کمپنی الائنز کی طرف سے کرائے گئے سیفٹی اینڈ شپنگ ریویو کے مطابق 2021 میں ہی 27 کارگو جہازوں کے ساتھ اہم حادثات پیش آئے، اور گزشتہ دہائی میں 357 جہازوں کے ساتھ۔ ان میں آگ لگ گئی، وہ پتھروں، چٹانوں اور ریت کے تودوں سے ٹکرائے، وہ خراب بھی ہوئے۔ لیکن وہ ہمیشہ ڈوبے نہیں۔جب بھی کسی بڑے جہاز کو بچانے کا موقع ہوتا ہے، تو ان کے مالکان تقریباً ہمیشہ اس کی کوشش ضرور کرتے ہیں، کیونکہ یہ جہاز لاکھوں کروڑوں ڈالر کے ہوتے ہیں۔جن لوگوں کو ایسے موقع پر شپنگ کمپنیاں بلاتی ہیں انھیں سالورز کہا جاتا ہے۔ اور انھوں نے سمندروں میں حیرت انگیز چیزیں دیکھی ہیں۔ جب بڑے جہاز ایور گرین نے ریت میں پھنس کر سویز کینال کو بلاک کر دیا تھا، اور جس کی وجہ سے گزشتہ سال عالمی سپلائی چین کے مسائل پیدا ہو گئے تھے، تو سالورز ہی مدد کے لیے آئے تھے۔سلون جو کہ اب ریزولو میرین گروپ کے ڈائریکٹر ہیں، جنوبی افریقہ سے ایک میچ دیکھ کر واپس گھر جا رہے تھے، اچانک ان کے فون کی گھنٹی بجی اور انھیں پتہ چلا کہ کوٹا کاڈو مصیبت میں پھنس گیا ہے۔ انھوں نے اگلے ہی دن ہانگ کانگ کی فلائٹ لی۔جہاز بندرگاہ پر جاتے ہوئے ایک چٹان کے ساتھ ٹکرا گیا تھا، جس کی وجہ سے اس کے ایک طرف ایک سوراخ بن گیا تھا۔ کارگو کے دو خانوں میں پانی جمع ہونا شروع ہو گیا تھا اور یہ اپنی منزلِ مقصود کے جنوب مغرب کے تقریباً 25 نوٹیکل میل (46 کلومیٹر) دور ریت میں پھنس گیا تھا۔ جہاز کی پیشانی سمندر کی سطح میں دھنس چکی تھی۔ جب اس کے تختے پر زیادہ پانی جمع ہونے لگا تو جہاز نے ڈوبنا شروع کر دیا تھا۔سلون کہتے ہیں کہ بہت سے لوگوں کو نہیں لگتا تھا کہ جہاز کو بچایا جا سکتا ہے۔ ’بہت سے سرویئرز نے کہا کہ او کے، جہاز بالکل کھو چکا ہے، اس کا ملبہ اٹھانے کے معاہدے کے لیے تیار رہیں۔‘ لیکن سلون کو لگا کہ ابھی بھی اسے بچانے کا ایک موقع ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ’وہ ڈوبتا جا رہا تھا اور اس کا اگلا حصہ، واقعی ہر دن آدھے میٹر سے ایک میٹر تک ڈوب جاتا تھا۔ یہ بالکل ٹچ اینڈ گو کی طرح تھا۔‘سلون اور ان کی ٹیم نے ایک منصوبہ بنایا کہ جہاز سے سامان کو کم کیا جائے اور جتنا ممکن ہو اس سے پانی نکالا جائے۔ انھیں ہلکی بارجز (سامان لانے والے کشتیاں) چاہیے تھیں جن کے ساتھ ہانگ کانگ میں بڑی کرینیں لگی ہوتی ہیں۔خوش قسمتی سے ہانگ کانگ میں کارگو بھی اسی طرح لوڈ کیا جاتا ہے، اس لیے بہت سی بارجز موجود تھیں اور ان کے آپریٹرز کو اچھی طرح سے پتہ تھا کہ جہاز سے کنٹیرز کو اتار کر ساحل پر کیسے لانا ہے۔سلون چاہتے تھے کہ جہاز سے جتنا زیادہ ممکن ہو سامان اتار لیا جائے۔ آخر کار اس سے 1200 کنٹینرز اتار لیے گئے۔ اس طرح کے آپریشن میں وقت لگتا ہے اور یہ مشکل ہوتا ہے، خصوصاً اس وقت جب کوٹا کوڈا کا اگلا حصہ پانی میں ڈوبا ہوا تھا۔ اس کے علاوہ سب سے ہلکے کنٹینرز سب سے اوپر رکھے ہوئے ہوتے ہیں کیونکہ اس سے جہاز کی سینٹر آف گریویٹی کم رکھنے میں مدد ملتی ہے اور یہ مستحکم رہتا ہے۔ لیکن اس کا مطلب ہے کہ بھاری کنٹینرز تک پہنچنے میں بھی زیادہ وقت لگتا ہے، جن کو نکالنے سے واقعی میں فرق پڑتا ہے۔جہاز میں سے پانی نکالنے کے لیے سلون اور ان کی ٹیم نے پانی کے اندر جہاز کے حصے میں بڑے بڑے پمپ لگائے۔ انھوں نے ڈیک (تختے) پر موجود چھوٹے دروازے (ہیچز) ہٹائے اور ان کے اوپر بڑی بڑی مستطیل ٹیوبیں (سنورکلز) لگا کر انھیں دوبارہ انھیں جگہوں پر واپس لگا دیا۔ اب سنورکلز جہاز کے پیٹ میں نیچے کی طرف لٹک رہے تھے۔ آخر میں تیراکوں کی ایک ٹیم نے نیچے پمپوں کو نالیوں سے جوڑا جو عمودی طور پر سنورکلز سے باہر نکلی ہوئی تھیں۔سلون کہتے ہیں کہ پمپ انجن روم سے پانی نکالنے کے لیے چلتا رہا۔ اس حصے میں جہاز کی سب سے قیمتی اور حساس مشینری لگی ہوتی ہے۔نیچے سے بہت زیادہ پانی نکالنے کے بعد، سالویج ٹیم اس قابل ہوئی کہ جہاز کے بلاسٹ ٹینک میں کچھ ہوا بھرے تاکہ جہاز پانی کے اوپر تیر سکے۔ سلون بتاتے ہیں کہ اگر وہ ایسا کرنے کی کوشش پہلے کرتے تو ٹینک پھٹ جاتا۔ ’جب آپ پانی کے نیچے دس میٹر تک ہوتے ہیں تو آپ کو اس بارے میں بہت محتاط ہونا ہوتا ہے کہ کتنا دباؤ ڈالنا ہے۔‘دو طوفانوں اور اس پیچیدہ کام کے باوجود کوٹا کوڈا کو بچا لیا گیا اور اسے شپ یارڈ مرمت کے لیے کھینچ کر لایا گیا۔ اب بھی یہ جہاز سامان لانے لیجانے میں استعمال ہو رہا ہے لیکن اب کسی اور نام کے ساتھ۔جب جہاز یا بڑی کشتیاں ان جگہوں پر پھنس جاتی ہیں جن کے لیے وہ ڈیزائن نہیں ہوتیں، جیسا کہ مٹی میں پھنسنا یا پتھروں کے ساتھ ٹکرانا، تو قدرتی طاقتیں ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتی ہیں۔ اسی وجہ سے کوٹا کاڈو کو بڑے طوفانوں سے بہت زیادہ خطرہ تھا۔سولس میرین کنسلٹنٹس کی مینیجنگ ڈائریکٹر اور نیول آرکیٹکٹ روزالنڈ بلیزجک کہتی ہیں کہ یہ ’ایک پیپر کلپ کی طرح ہے جسے آپ جتنی زیادہ مرتبہ موڑتے ہیں، تو وہ آخر کار ٹوٹ جاتا ہے۔‘انھوں نے بتایا کہ متواتر لہروں کے درمیان پھنسے ہوئے جہاز کو اٹھانا یا گھمانا کس قدر مشکل ہوتا ہے۔ وہ ہائی ٹائیڈ سے کئی گھنٹے ٹکراتے رہتا ہے، جس سے جہاز کا ایک حصہ کبھی اوپر جاتا ہے تو کبھی نیچے۔ ان حالات میں اچانک سٹیل اتنا مظبوط نہیں لگتا۔ سلون بتاتے ہیں کہ ان کی ٹیم کو کبھی بڑے بڑے گارڈروں (شہتیروں) کو جہاز کے ڈیک کے ساتھ ویلڈ کرنا پڑا تاکہ وہ انھیں پکڑے رہیں۔بلیزجیک کہتی ہیں کہ ان کی طرح کے سالویج کے ماہرین نے جب اکثر کسی جہاز کو بچانا ہوتا ہے تو وہ اس کے تھری ڈائمینشنل (تین جہتی) کمپیوٹر کے ماڈل بناتے ہیں تاکہ اس بات کا بہتر اندازہ لگایا جا سکے کہ ان پر قدرتی طاقتوں کا کتنا اثر پڑت سکتا ہے۔’جہازوں کی کچھ کمپنیوں کے پاس ایمرجنسی ریسپانس سروسز ہوتی ہے جہاں جہاز کا ایک ماڈل بنایا جاتا ہے جو بالکل کام کے لیے تیار ہوتا ہے۔‘سالویج ٹیمیں جہاز کے ہل پر ہر جگہ سینسرز لگا دیتی ہیں تاکہ اس بات کا اندازہ لگایا جا سکے کہ وہ آپریشن کے دوران کس طرح حرکت کرتا ہے۔ سینسرز سے ڈیٹا سیدھا ماڈل کو فیڈ ہوتا ہے، جو کہ یہ بتاتا ہے کہ کب جہاز کے کسی مخصوص حصے کے ٹوٹنے کا خطرہ ہو سکتا ہے۔ سالورز لیزر بھی استعمال کرتے ہیں، تاکہ پھنسے ہوئے جہاز کی حرکات کو تفصیل کے ساتھ مانیٹر کیا جا سکے۔بلیزجیک کہتی ہیں کہ جو کشتیاں (ٹگز) جہازوں کو کھینچنے کی کوشش کرتی ہیں وہ بھی کافی زور لگاتی ہیں، لیکن عام طور پر یہ پھنسے ہوئے جہازوں کو نکالنے کے لیے کافی نہیں ہوتا۔ اس وجہ یہ ہے کہ ٹگز زمینی ردِ عمل کی طاقت کے خلاف لڑائی کر رہی ہوتی ہیں۔ بلیزجیک کہتی ہیں کہ ایک پھنسے ہوئے جہاز کو نکالنے کے لیے انھوں نے اندازہ لگایا کہ انھیں 200 ٹگز درکار تھے، جو کہ ایک ناممکن کام تھا۔ اس کے برعکس ٹیموں کو جہازوں پر سے مال ہٹا کر اکثر انھیں ہلکا کرنا پڑتا ہے یا پھر اسے کھسکانے سے پہلے گاد کو ہٹانا پڑتا ہے جس میں وہ پھنسا ہوتا ہے۔کبھی کبھار ایسا جلد از جلد کرنے کے لیے بہت زیادہ دباؤ ہوتا ہے۔ جب گزشتہ سال 23 مارچ کو دنیا کے سب سے بڑے جہازوں میں سے ایک ایور گرین سویز کینال میں پھنس گیا تھا تو جہاز کینال میں ترچھا پڑا رہا اور ساری سمندری ٹریفک بلاک کر دی۔ اسے نکالنے میں چھ دن لگے، اس دوران 200 سے زیادہ دوسرے جہاز سویز کینال سے نہیں گزر سکے، اور اس طرح 60 میل لمبی جہازوں کی ایک قطار لگ گئی۔جب جہاز پھنس کر دوسرے جہازوں اور کشتیوں کا راستہ روک لیتا ہے تو وہ زیادہ اہمیت اختیار کر لیتا ہے۔ ملٹراشپ کے مینیجنگ ڈائریکٹر لینڈرٹ ملر 2017 میں اینٹورپ کی بندرگاہ کے قریب جہاز سی ایس سی ایل جوپیٹر کے پھنسنے کا واقعہ یاد کرتے ہیں۔ روٹرڈیم کے بعد اینٹورپ یورپ کی سب سے بڑی بندرگاہ ہے۔مولر کہتے ہیں کہ جب تجارت وہاں رک جاتی ہے، تو یہ یورپ کی دوسری بندرگاہوں پر تجارت کو روک دیتی ہے کیونکہ یہ تجارت کا ایک مکمل سلسلہ ہے۔بوسکالیز اور اس کی ذیلی کمپنی ایس ایم آئی ٹی سالویج کی طرف سے ایور گیون کی مدد کے لیے آنے والوں کو اچھی طرح معلوم تھا کہ بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔ ایس ایم آئی ٹی کے مینیجنگ ڈائریکٹر رچرڈ جانسن کہتے ہیں کہ ’ہم افراتفری کو ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘اس معاملے میں، سویز کینال اتھارٹی نے جہاز کے نیچے سے کیچڑ اور ریت کی ایک بڑی مقدار کو ہٹانے کے لیے ڈریجر اور کھدائی کرنے والی مشینوں کی مدد حاصل کی اور مجموعی طور پر 30,000 کیوبک میٹر ریت اور مٹی ہٹائی۔اس واقعے میں عوامی دلچسپی کی شدت اتنی تھی کہ لوگوں نے سوشل میڈیا پر ایور گیون کے بارے میں لطیفے اور میمز شیئر کرنا شروع کر دیں۔ بہت سے لوگوں نے بظاہر کم نظر آنے والے چھوٹے ’ڈگر‘ کا مذاق اڑایا جو جہاز کی کمان کے ارد گرد سے ریت ہٹا رہا تھا۔ یہ ڈگر سویز کینال اتھارٹی کا تھا اور بوسکالیز یا ایس ایم آئی ٹی کا نہیں۔جانسن کہتے ہیں کہ ’ڈگر مضحکہ خیز لگتا ہے کیونکہ یہ جہاز کے سائز کے لحاظ سے نسبتاً چھوٹا ہے لیکن اس نے حقیقت میں نسبتاً اچھا کام کیا۔‘ڈریجنگ یا نکالنا بھی ایک مشکل کام ہے۔ جانسن کہتے ہیں کہ ریت کو ہٹانا آسان ہے، جبکہ کیچڑ زیادہ مشکل ہو سکتا ہے۔مارچ میں ایوگرین کمپنی کا ایک اور جہاز چیزاپیک بے پر بھنس گیا تھا، جو کہ امریکہ کے شمال مشرقی ساحل کے قریب ایک کھاڑی ہے۔ ای ایم آئی ٹی کو دوبارہ مدد کے لیے بلایا گیا۔ جہاز کو آزاد کرانے کی ابتدائی کوششیں ناکام ثابت ہوئیں اس لیے بعد میں اس کے اوپر سے ایک ایک کر کے کنٹینرز اتارے گئے۔ 40 فٹ کے کل 510 کنٹینر جہاز سے اتارے گئے۔کارگو کو اتارنے، ڈریجنگ اور جہاز کا توازن برقرار رکھنے والے وزن کو کم کرنے والی حکمتِ عملیوں کو استعمال کرنے سے تقریباً ایک مہینے کے بعد ایور فاروڈ کو آزاد کرایا جا سکا۔کام کرنے والے جہازوں کا پھنس جانا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے لیکن سمندر میں جہازوں کو آگ لگنا سب سے زیادہ خطرناک تصور کیا جاتا ہے۔ اتنا زیادہ پانی قریب ہونے کے باوجود، سمندر کے بیچ میں لگنے والی آگ کو بھجانا ایک بہت مشکل کام ہے۔اور جب جہاز تیل اور آسانی سے آگ لگنے والے مواد یا کارگو سے بھرے ہوئے ہوں تو خطرہ اور زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ حالیہ برسوں میں وہ جہاز جو کاروں کو لے کر جا رہے تھے، انھیں آگ کا زیادہ خطرہ تھا، کیونکہ ذرا سی بھی خرابی یا شارٹ سرکٹ سے جہازوں میں آگ بھڑک سکتی تھی۔ انشورنس کمپنیاں لیتھیئم آئن بیٹریوں کو، خصوصاً الیکٹرک گاڑیوں میں، اب کارگو جہازوں کے لیے ایک بڑھتا ہوا خطرہ سمجھتی ہیں۔2018 میں میرسک ہونام نامی ایک انتہائی بڑے کنٹینر جہاز کو سویز کینال کی طرف جاتے ہوئے بحیرہ عرب میں آگ لگ گئی تھی۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ اس واقعے میں پانچ افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے، لیکن عملے کے 22 ارکان کو بچا لیا گیا تھا اور ساتھ ہی جہاز کو بھی۔ یہ کارنامہ بھی ایس ایم آئی ٹی سالویج نے سر انجام دیا تھا۔جانسین کہتے ہیں کہ ’جہاز کے آگے والے حصے میں بہت شدید آگ تھی اور یقیناً آپ اندازہ لگا رہے ہوں گے کہ یہ آگ وقت کے ساتھ کیسے بڑھے گی‘۔ آگ کو جہاز کے اگلے حصے تک محدود رکھنے سے انجن روم اور عقب میں رہائشی کمروں کو پہنچنے والے نقصان سے بچا لیا گیا۔جانسین کہتے ہیں کہ ایس ایم آئی ٹی نے اس سے پہلے سمندر میں اتنی بڑی آگ کا سامنا نہیں کیا تھا۔ یہ آگ ایک ماہ تک جہاز کو لگی رہی لیکن بعد میں اس پر قابو پا لیا گیا اور بالآخر جہاز کو دبئی کی بندرگاہ پر لے جانے کے بعد اسے بجھا دیا گیا۔بعد میں شپ یارڈ میں لا کے ہونام کے کمان کے پورے حصے کو کاٹ دیا گیا اور ایک نیا حصہ نصب کیا گیا تاکہ وہ آگ لگنے کے ایک سال بعد ایک نئے نام میرسک ہیلی فیکس کے تحت دوبارہ کام کر سکے۔بلیز جیک کہتی ہیں کہ جہاز میں آگ بجھانے کی مشکلات میں سے ایک یہ ہے کہ اگرچہ آگ پر قابو پانے کے لیے پانی ضروری ہے، لیکن آپ جہاز کو مکمل طور پر پانی سے نہیں بھرنا چاہتے، ورنہ جہاز غیر مستحکم ہو جائے گا یا بس ڈوب جائے گا۔ اس کے علاوہ، آگ جہاز میں موجود ایندھن کے کنٹینرز کو نقصان پہنچا سکتی ہے، دھماکوں کا سبب بن سکتی ہے، اور سمندر میں بڑی مقدار میں آلودگی پھیلا سکتی ہے۔سولس میں بلیز جیک کے ساتھی کیپٹن جان سمپسن کہتے ہیں کہ جہاز میں آگ لگنے کے بعد سمندر میں بہنے والے ایندھن اور آلودہ پانی کو بازیافت کرنا بہت ضروری ہے۔ ’اس میں لاکھوں خرچ ہو سکتے ہیں۔‘مولر کہتے ہیں کہ حالیہ برسوں میں نیویگیشن ٹیکنالوجی میں بہتری آئی ہے، جس کا مطلب ہے کہ جہاز کے تصادم اور گراؤنڈنگز کے واقعات اوسطاً کم ہونے چاہیں۔ لیکن اس کا ایک منفی پہلو یہ ہے کہ پچھلی ایک یا دو دہائیوں میں کنٹینر جہاز نمایاں طور پر بڑے اور زیادہ بے لگام ہو گئے ہیں۔دنیا کے سب سے بڑے بحری جہازوں کی کنٹینر لے جانے کی صلاحیت آج 1960 کی دہائی کے مقابلے میں 15 گنا زیادہ ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا کنٹینر جہاز ایور ایس 1309 فٹ لمبا ہے جبکہ 1969 میں سب سے بڑا جہاز اینکاونٹر بے 745 فٹ لمبا تھا۔مولر کہتے ہیں کہ بڑھتے ہوئے سائز کے ساتھ، گراؤنڈنگز کا اثر بھی بڑا ہو رہا ہے۔ سلون نے مزید کہا کہ جب آگ لگتی ہے یا جب وہ ریت اور مٹی کے کنارے سے ٹکراتے ہیں تو بڑے جہازوں کو بچانا مزید مشکل ہو جاتا ہے۔پریشانی یہ ہے کہ سالورز کو شاید تیزی سے ان رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑے جن پر قابو پانے کے وہ اہل نہیں ہیں۔ اور کون جانتا ہے کہ اگر جہازوں کو بندرگاہوں سے باہر یا مصروف نہروں میں مسلسل حادثات کا سامنا کرنا پڑا تو یہ عالمی سپلائی کو متاثر کر سکتا ہے۔کوٹا کڈو اور ایور فارورڈ کا حوالہ دیتے ہوئے سلون نے مزید کہا کہ ’ہانگ کانگ سے باہر یہ بارجز آپ کو مل سکتی ہیں، چیزاپیک بے میں وہ ارد گرد سے بارجز حاصل کر سکتے ہیں۔‘ لیکن، انھوں نے خبردار کیا کہ اس بات کا خطرہ ہے کہ آخر کار، بڑے کنٹینر جہازوں میں سے ایک ایسی جگہ پھنس سکتا ہے جہاں کسی بھی بحالی کے آپریشن کے لیے اس طرح کی رسائی مشکل ہو۔انھوں نے کہا کہ ’یہ چیلنجنگ ہو گا۔ مجھے لگتا ہے کہ ایسا ہونے والا ہے۔‘

Related Articles