روبوٹکس: فٹبال کھیلنے والے روبوٹس 2050 تک ورلڈ کپ چیپمیئن کو ہرا سکیں گے؟
لندن،اکتوبر۔پوری دنیا میں فٹ بال کے شائقین کے لیے اس کھیل کی معراج ورلڈ کپ کا فائنل ہے۔ لیکن کیا ہو کہ یہ میچ بہترین انسانوں اور بہترین روبوٹس کے درمیان ہو؟ہو سکتا ہے کہ یہ ایک بہت دور کی بات لگے، لیکن یہ اس تنظیم کا ایک مقصد ہے جو 1997 سے سالانہ روبوٹس کا عالمی فٹ بال ٹورنامنٹ کروا رہی ہے۔روبوٹکس سائنسدانوں کے ایک گروپ کے قائم کردہ روبوٹ ساکر ورلڈ کپ یا روبوکپ نے اپنے لیے ایک انتہائی بلند نظر ہدف مقرر کیا ہوا ہے۔’اکیسویں صدی کے وسط تک ایک ٹیم جو خودمختار ہیومنائیڈ روبوٹ فٹ بال کھلاڑیوں پر مشتمل ہو، اور فیفا کے سرکاری قوانین کی تعمیل کرتے ہوئے، ورلڈ کپ کی حالیہ فاتح ٹیم کے خلاف فٹ بال کا کھیل جیتے۔‘روبوکپ ٹیمیں پہلے ہی انسانی سائز کے روبوٹ استعمال کرتی ہیں جن میں مصنوعی ذہانت (اے آئی) کا جدید سافٹ وئیر سسٹم ہوتا ہے جو انھیں اپنے لیے فیصلے کرنے کے قابل بناتا ہے، جیسے کہ کک لگانی ہے یا پاس دینا ہے۔لیکن کیا یہ روبوٹ 2050 تک اتنے اچھے ہو سکتے ہیں کہ انسانوں کا ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کو شکست دے سکیں؟آسٹن میں یونیورسٹی آف ٹیکساس میں روبوکپ کے صدر اور کمپیوٹر سائنس کے پروفیسر پیٹر سٹون کہتے ہیں کہ ’یہ یقینی طور پر قابل فہم ہے۔ میں اس پر زیادہ شرط تو نہیں لگاؤں گا لیکن میں اس کے بہت زیادہ خلاف بھی نہیں ہوں گا۔‘’تکنیکی لحاظ سے تیس سال ایک طویل عرصہ ہے۔ اس کے درمیان بہت کچھ ہو سکتا ہے۔‘اس دوران روبوکپ کا ایک اور مقصد ہے اور وہ یہ کہ روبوٹکس اور اے آئی دونوں کو فروغ دے۔دنیا بھر سے ٹیمیں عالمی مقابلے میں حصہ لیتی ہیں، جن کے مختلف درجات ہیں۔ سٹینڈرڈ پلیٹ فارم لیگ میں سبھی ٹیمیں ایک ہی روبوٹ استعمال کرتی ہیں لہٰذا ان کی توجہ اے آئی سافٹ ویئر کی ترقی پر ہوتی ہے۔ہیومنائڈ لیگ میں ٹیمیں اپنے روبوٹس بناتی ہیں تاکہ وہ اپنی اے آئی اور جسمانی روبوٹکس تیار کر سکیں۔دیگر ایونٹس میں روبوکپ ریسکیو شامل ہے، جہاں روبوٹ تلاش اور بچاؤ کے آپریشنوں میں حصہ لیتی ہیے۔ ایک اور روبوکپ@ورک ہے جس میں کام دیے جاتے ہیں جیسے مینوفیکچرنگ اور ترسیل۔تاہم فٹ بال کھیلنے پر اہم توجہ ہے۔ ’پروفیسر سٹون کہتے ہیں کہ (چیلنج) ایک ایسا روبوٹ بنانا ہے جو کسی انسان کی طرح تیزی سے اور آسانی سے بھاگ سکتا ہو، بیکہم کی طرح فٹبال کو سوئنگ کر سکتا ہے۔‘’جہاں ہم اس وقت پہنچ چکے ہیں میں 20 سال پہلے اس کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتا تھا، لیکن ابھی بھی بہت راستہ باقی ہے۔‘روبوکپ میں حصہ لینے والی ٹیموں میں سے ایک سائرس ہے، جو کینیڈا کی ڈلہوزی یونیورسٹی کے اے آئی اور روبوٹکس کے عملے اور طلبہ پر مشتمل ہے۔کورونا وائرس کی وجہ سے 2019 کے بعد سے گراؤنڈ پر تو کوئی ٹورنامنٹ منعقد نہیں ہوا ہے لیکن جون میں سائرس نے ایک آن لائن ایونٹ، روبوکپ کی سافٹ ویئر لیگ جیتی تھی، جہاں ٹیموں نے کمپیوٹر گیم کے اندر مقابلہ کیا تھا۔سائرس کی ٹیم کی ایک رکن اور کمپیوٹر سائنس کی پوسٹ گریجویٹ طالب علم مہتاب سرومیلی سمجھتی ہیں کہ یہ ’بالکل ممکن ہے‘ کہ روبوٹک کھیل مستقبل میں وسیع پیمانے پر کھیلے جانے لگیں اور ممکنہ طور پر منافع بخش ہو جائیں گے۔وہ کہتی ہیں کہ ’ایسا شاید ہو یا نہ ہو، لیکن ایک حوصلہ مندانہ وڑن کے طور پر یہ محققین کی ایک عالمی، تخلیقی اور پرجوش کمیونٹی کو مجبور کرتی ہے کہ وہ اے آئی سوکر تیار کرنے کے مقصد کی طرف جائے۔‘’اسے اشتہارات کے ذریعے منافع بخش بنایا جائے گا، بالکل براہ راست (انسانی) کھیلوں کی طرح۔‘تاہم، طویل مدتی طور پر، روبوٹ کھیلوں کے حامی بھی مانتے ہیں کہ اگر مشینیں ایسے مرحلے پر پہنچ جائیں جہاں وہ انسانوں کا مقابلہ کرسکیں تو عوام کی توجہ کو برقرار رکھنا ایک مسئلہ بن سکتا ہے۔اس کی مثال دیتے ہوئے پروفیسر سٹون بتاتے ہیں کہ اگرچہ 1997 میں آئی بی ایم کمپیوٹر ’ڈیپ بلیو‘ کی عالمی شطرنج چیمپئن گیری کاسپاروف پر فتح سے عام لوگ متاثر ہوئے تھے، لیکن آج بھی بہت کم لوگ انسانوں اور کمپیوٹرز کے درمیان ایسے میچوں کو دیکھتے ہیں۔’جب بھی اے آئی کمیونٹی کسی بھی قسم کے کام میں انسانی سطح کے قریب آجاتی ہے تو ہمیشہ چہ مگوئیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ اس پر بہت زیادہ دھوم دھام ہوتی ہے۔۔۔ لیکن اس کے بعد یہ کم دلچسپ ہونا شروع ہو جاتا ہے۔‘پروفیسر سٹون کہتے ہیں کہ روبوکپ کا حقیقی فائدہ اس کے بجائے یہ ہے کہ ’سپن آف (مختلف حصوں والی) ٹیکنالوجیز‘ روبوٹکس کی وسیع دنیا کو آگے بڑھانے میں کس کس طرح مدد دے سکتی ہیں۔روبوٹس کو استعمال کرنے والی دنیا کی ایک سرکردہ کمپنی ایمازون روبوٹکس کو حقیقت میں پہلے روبوکپ کے ہی ایک فاتح رافیلو ڈی آندرے نے قائم کیا تھا۔سنہ 2003 میں انھوں نے کیوا سسٹمز نامی ایک روبوٹک فرم قائم کی تھی، جسے بعد میں سنہ 2012 میں ایمازون نے ستتر کروڑ پچاس لاکھ ڈالر میں خرید لیا تھا۔آج ایمازون روبوٹکس دنیا بھر میں ایمازون کے گوداموں میں ہزاروں روبوٹس چلاتی ہے، جو آرڈرز اور ڈیلیوریوں کو جمع کرنے اور ترتیب دینے میں مدد کرتے ہیں۔پروفیسر سٹون کہتے ہیں کہ ’انھوں نے جو ٹیکنالوجی روبوکپ کے لیے تیار کی تھی کہ روبوٹ ارد گرد گھومیں اور گیند کو لات ماریں، یہ بالکل وہی ٹیکنالوجی ہے جس نے ایمازون روبوٹکس بنانے کی تحریک پیدا کی تھی۔‘کچھ لوگوں کے لیے کھیلوں کی دنیا میں روبوٹ پہلے ہی بہت مختلف قسم کے اثرات مرتب کر رہے ہیں۔اس سال جون میں امریکی روبوٹکس فرم اوہمنی لیبز اور کار بنانے والی کمپنی وولکس ویگن نے ’چیمپ‘ کی نقاب کشائی کی تھی، جو کہ ایک ٹیلی پریزنس روبوٹ ہے جس کے پاس دو طرفہ ٹی وی سکرین، سپیکرز اور مائیکروفون ہیں جو کسی سے کسی دوسرے مقام پر بھی رابطہ قائم کر سکتا ہے۔چیمپ کو اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ وہ بچے جو بہت زیادہ بیمار ہونے کی وجہ سے فٹ بال گیم یا دیگر کھیلوں کے پروگرام میں شرکت نہیں کر سکتے وہ اپنی پسندیدہ ٹیم کے ساتھ کہیں سے بھی میدان میں مل سکتے ہیں۔ وہ دیکھ سکتے ہیں کہ وہاں کیا ہو رہا ہے، اور روبوٹ کے ذریعے کھلاڑیوں سے بات بھی کر سکتے ہیں۔چیمپ کو جولائی میں امریکہ بمقابلہ میکسیکو کے خواتین کے میچ میں استعمال کیا گیا تھا، جس میں ایک نوجوان پرستار لونا پیرون کو، جنھیں ہڈیوں کا کینسر ہے، ذاتی طور پر گراؤنڈ میں موجود ہونے کا تجربہ کرایا گیا تھا۔لیکن جب سنہ 2050 تک دوسرے روبوٹ دنیا کی بہترین انسانی فٹ بال ٹیم کو شکست دیں گے تو کیا چیمپ ان کے لیے تالیاں بجائے گا؟ آکسفورڈ یونیورسٹی کی اے آئی اور روبوٹکس کی ماہر پروفیسر سینڈرا واچٹر کہتی ہیں کہ مشکل یہ ہے کہ فٹبال کے کھیل میں جسمانی اور ذہنی دونوں طرح کی مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔’فٹبال کے میدان میں کھیل کی حکمت عملی اور فارمیشنز ہوتی ہیں جن پر عمل پیرا ہوا جاتا ہے اور جنھیں اکثر تیزی سے اور بے ساختہ ایڈجسٹ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔’گول کرنے کا موقع چند سیکنڈز کے اندر پیدا ہو سکتا ہے، اور اس موقعے سے فائدہ اٹھانے کے لیے بہت تیزی سے کام کرنا پڑتا ہے۔’اکثر اوقات، اس کے لیے کافی حد تک الہامی کیفیت، اعتماد، اور ٹیم کے اراکین کے درمیان بولے اور بولے بغیر رابطے کی ضرورت ہوتی ہے۔’بات جب فٹبال کھیلنے کی ہو تو روبوٹکس شاید انسانی صلاحیت سے بہتر ہو سکتی ہو، لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ ہو گا اور کب ہو گا۔‘