دیوآنند: زندگی سے رومانس کرنے والے اداکار جن پر خواتین کی تین نسلیں فدا تھیں

دہلی،ستمبر۔ہندی سینما میں کسی ایک شخص کے لیے اگر لفظ ’سٹائل آئیکن‘ کا استعمال کیا جا سکتا ہے تو وہ دیوآنند تھے۔ایک خاص انداز میں بولنا، جْھک کر لہراتے ہوئے چلنا، چست پتلون، گلے میں سکارف، سر پر بیگی ٹوپی اور آپ کی آنکھوں میں جھانکتی آنکھیں۔ یہ تھے سدا بہار دیوآنند، جو 88 سال کی عمر میں بھی ’نوجوان‘ کہلاتے تھے۔انھوں نے ایک بار کہا تھا کہ وہ سینما کے لیے تاعمر جوان رہیں گے، اور انھوں نے یہ ثابت بھی کیا۔ سنہ 1923 میں پنجاب کے گورداسپور میں پیدا ہونے والے دیوآنند نے جولائی 1943 میں بذریعہ فرنٹیئر میل لاہور سے بمبئی کا سفر کیا اور اس وقت اْن کی جیب میں محض 30 روپے تھے۔انھوں نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ چار برسوں میں ہندوستان کی تقسیم ہو جائے گی اور انھیں دوبارہ لاہور جانے کے لیے 56 سال انتظار کرنا پڑے گا۔اپنے بارے میں بات کرتے ہوئے دیوآنند نے ایک بار بی بی سی کو بتایا تھا: ’میں نے گورنمنٹ کالج لاہور (جی سی) سے انگریزی میں بی اے آنرز کیا۔ میں ماسٹرز کرنا چاہتا تھا لیکن میرے والد کی مالی حالت اچھی نہیں تھی۔‘’وہ چاہتے تھے کہ میں بینک میں نوکری کر لوں۔ میں نے فرنٹیئر میل کے لیے تھرڈ کلاس کا ٹکٹ خریدا اور بمبئی پہنچ گیا۔ میں نے دو سال تک جدوجہد کی۔ 1945 میں، میں نے اپنی پہلی فلم سائن کی جس کا نام ’ہم ایک ہیں‘ تھا۔‘’میں بہت نیا تھا، لیکن میرے پاس ذہانت تھی۔ میں نے کالج کی تعلیم حاصل کی تھی۔ میں بہت اچھا بولتا تھا۔ لوگ مجھ سے مل کر بہت خوش ہوتے تھے۔ جب میں ہنستا تو لوگ پاگل ہو جاتے تھے۔ جب مجھے موقع ملا تو میں نے پیچھے مْڑ کر نہیں دیکھا۔‘


گرو دت سے کیا وعدہ کیا:اپنے کالج کے دنوں میں دیوآنند معروف شاعر حفیظ جالندھری کی غزل ’ابھی تو میں جوان ہوں‘ بہت گْنگناتے تھے۔دیوآنند کے قریبی ساتھی موہن چوری والا یاد کرتے ہیں ’جب انھوں نے 1961 میں ’ہم دونوں‘ فلم بنائی تو انھوں نے نغمہ نگار ساحر لدھیانوی سے درخواست کی کہ وہ ’ابھی تو میں جواں ہوں‘ کی طرز پر ایک گانا لکھیں۔ ساحر نے اسی وزن میں گانا لکھا: ’ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر کہ دل ابھی بھرا نہیں‘ جو بہت مشہور ہوا۔‘چوری والا بتاتے ہیں ’گرو دت فلمی دنیا میں دیوآنند کے ابتدائی اور قریبی دوست تھے۔ ایک دن انھوں نے دیو سے وعدہ کیا کہ اگر میں ڈائریکٹر بن گیا تو آپ میرے پہلے ہیرو بنو گے۔ دیوآنند نے بھی جوش کے ساتھ جواب دیا کہ اگر میں کوئی فلم پروڈیوس کروں گا تو آپ اس کے ڈائریکٹر ہوں گے۔ دیوآنند کو یہ وعدہ یاد رہا اور جب نوکیتن فلمز نے ’بازی‘ بنانے کا فیصلہ کیا تو انھوں نے ہدایتکاری کی ذمہ داری گرو دت کو دی۔‘للت موہن جوشی بتاتے ہیں کہ اگر آپ ’بازی‘ فلم دیکھیں گے تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ انھوں نے اس فلم کے لیے کیسے لوگوں کو منتخب کیا۔ یہ گرو دت کی پہلی ہدایتکاری تھی۔ بلراج ساہنی نے اس کا سکرپٹ لکھا۔ ساحر لدھیانوی آئے۔ ایس ڈی برمن آئے، زہرہ سہگل آئیں۔ دیوآنند کا ایک ویڑن تھا۔ وہ سوچ سکتے تھے کہ ایک بڑی فلم کیسے بن سکتی ہے۔‘
ثریا سے عشق:دیوآنند اور ثریا کا عشق بالی وڈ کی بہترین محبت کی کہانیوں میں سے ایک ہے۔اس بات کو یاد کرتے ہوئے دیوآنند نے بی بی سی کو بتایا تھا ’پہلے دن سے ہی ہم دونوں نے ایک دوسرے کو پسند کرنا شروع کیا۔ وہ ایک بڑی سٹار تھیں۔ ان کے پاس بڑی کاریں تھیں۔۔۔ کیڈیلک تھی، لنکن تھی اور میں پیدل جاتا تھا۔ میں جوان تھا۔ بہت پریزنٹیبل تھا اور مجھ میں بہت اعتماد تھا۔ ہماری دوستی بڑھتی چلی گئی۔‘لیکن یہ دوستی شادی کے مرحلے تک نہ پہنچ سکی۔دیوآنند نے بمبئی کے زویری بازار سے ثریا کے لیے ایک ہیرے کی انگوٹھی خریدی۔ لیکن ثریا کی نانی بادشاہ بیگم کو یہ رشتہ پسند نہیں آیا۔معروف فلمی تاریخ دان راجو بھارتن اپنی کتاب ’اے جرنی ڈاؤن میلوڈی لین‘ میں لکھتے ہیں کہ ’ثریا مجھے میرین ڈرائیو پر واقع اپنے گھر کرشنا محل کی بالکونی میں لے گئیں اور مجھے بتایا کہ کس طرح ان کی نانی نے دیوآنند کی دی گئی انگوٹھی کو میرین ڈرائیو پر سمندر میں پھینک دیا تھا۔‘لیکن دیوآنند نے اپنی سوانح عمری ’رومانسنگ ود لائف‘ میں اس کی ایک الگ تفصیل دی اور لکھا ’ثریا نے میری بھیجی ہوئی انگوٹی سمندر کے سامنے لے لی۔ اسے آخری بار محبت سے دیکھا اور اسے سمندر کی لہروں میں پھینک دیا۔‘
فلم ’گائیڈ‘ وقت سے پہلے آ گئی تھی:دیوآنند کے کیریئر کی بلندی پر فلم ’گائیڈ‘ تھی۔ آر کے نارائن کے ناول پر مبنی اس فلم کو پوری دنیا میں پذیرائی ملی اور اسے آسکر ایوارڈ کے لیے انڈیا کی جانب سے بھیجا گیا۔موہن چوری والا بتاتے ہیں کہ ’گائیڈ دیو صاحب نے دو زبانوں میں بنائی تھی۔ پہلے وہ اس کی ہدایت کی ذمہ داری اپنے بڑے بھائی چیتن آنند کو دینا چاہتے تھے۔ لیکن وہ ان دنوں فلم ’حقیقت‘ بنا رہے تھے۔ پھر وہ راج کھوسلہ کو بطور ڈائریکٹر لینا چاہتے تھے۔ لیکن ان کے اور وحیدہ رحمان کے درمیان کچھ مسئلہ تھا، اس لیے اس خیال کو بھی ترک کرنا پڑا۔‘’آخر میں انھوں نے اپنے چھوٹے بھائی گولڈی آنند کو اس کے لیے منتخب کیا۔ انھوں نے کہا کہ کہانی کو دوبارہ لکھنا پڑے گا کیونکہ فلم کا موضوع ازدواجی زندگی کے باہر کے تعلقات پر مبنی ہے۔ انھوں نے یہ سکرپٹ دوبارہ لکھا۔ اس پر فلم بنائی، جس کا اختتام نارائن کی کتاب سے مختلف تھا۔ یہ فلم اپنے وقت سے بہت آگے کی تھی۔ بار بار دیکھنے کے بعد لوگ سمجھ گئے کہ دیو صاحب اس فلم میں کیا کہنا چاہتے ہیں۔‘وحیدہ رحمان نے ہمیشہ کہا کہ انھیں اس سے بہتر کوئی فلم نہیں ملی۔ شروع میں آر کے نارائن بھی اس فلم کی شوٹنگ پر ناراض تھے لیکن جب انھیں یہ فلم دکھائی گئی تو وہ بہت خوش تھے۔ انھوں نے کہا کہ ’آپ نے میری کہانی ضرور بدل دی ہے لیکن یہ بھی اپنے آپ میں ایک شاہکار ہے۔‘
’دیو صاحب‘ کہنے پر اعتراض:وحیدہ رحمان نے دیوآنند کے ساتھ اپنی پہلی فلم سی آئی ڈی میں کام کیا تھا۔ دونوں نے کل سات فلموں میں کام کیا۔ وحیدہ رحمان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’انھوں نے مجھ سے کہا وحیدہ تم مجھے صرف دیو کہو۔ میں نے کہا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟‘’آپ مجھ سے بڑے ہیں، اتنے سینیئر، اتنے بڑے سٹار۔۔۔ انھوں نے کہا کہ میں اپنی لیڈنگ لیڈیز کے ساتھ کام نہیں کر سکتا اگر وہ مجھے صاحب، مسٹر آنند کہہ کر پکاریں۔ لیکن یہ میری عادت تھی کہ جب بھی میں سیٹ پر جاتی تو میں انھیں گڈ مارننگ مسٹر آنند کہتی تھی۔ وہ ادھر ادھر دیکھتے اور پوچھتے کہ وہ کون ہے؟ میں کہتی کہ میں آپ سے بات کر رہی ہوں۔ وہ کہتے کہ میں دیو ہوں۔ کچھ دنوں کے بعد انھیں دیو کہنے کی عادت پڑ گئی۔‘
بہت سی صلاحیتوں کی دریافت:دیوآنند نے ہندوستانی فلم انڈسٹری کو بے مثال ٹیلنٹ دیے۔ دیوآنند نے شتروگھن سنہا، جیکی شروف، ٹینا منیم، تبو اور زینت امان کو متعارف کرایا۔للت موہن جوشی کہتے ہیں کہ ’اس کے لیے ان میں تجربہ کرنے اور راہ سے ہٹ کر چلنے کا مادہ تھا۔ وہ منشیات پر فلم بنانا چاہتے تھے ’ہرے راما ہرے کرشنا‘۔ اس کے لیے وہ کبھی لندن، کبھی نیپال اور کبھی دلی جاتے۔ ان میں ایک تجسس تھا۔’وہ اپنا زیادہ تر وقت اپنے موضوع پر صرف کرتے تھے۔ پہلی بار جب انھوں نے زینت کو کسی پارٹی میں دیکھا تو وہ سگریٹ پی رہی تھیں۔ جب دیو صاحب نے جا کر ان سے ہیلو کہا تو انھوں نے بھی ہیلو کہا اور سگریٹ کی پیشکش کی۔ دیو صاحب نے بتایا کہ جب انھوں نے پہلی بار زینت امان کو دیکھا تو انھیں لگا کہ یہ لڑکی ان کی فلم میں کام کرے گی۔‘
زینت امان پر بھی دل آیا:بعد میں دیوآنند کا زینت امان پر دل آ گیا تھا۔انھوں نے اپنی سوانح عمری ’رومانسنگ ود لائف‘ میں لکھا کہ ’ایک دن میں نے محسوس کیا کہ مجھے زینت سے محبت ہو گئی ہے۔ میں نے تاج ہوٹل کے ’ریندیوو‘ ریستوران میں ایک ٹیبل بْک کروایا تاکہ انھیں بتا سکوں۔ اس سے پہلے ہمیں ایک ساتھ پارٹی میں جانا تھا۔ وہاں زینت کا سب سے پہلے شراب کے نشے میں چور راج کپور نے استقبال کیا۔‘’زینت نے جھک کر ان کے پاؤں چھونے کی کوشش کی۔ لیکن میں نے محسوس کیا کہ ان کے درمیان زیادہ ہی قربت ہے۔ راج نے زینت کی میرے سامنے سرزنش کی کہ تم نے ہمیشہ سفید کپڑے پہننے کا اپنا وعدہ پورا نہیں کیا۔‘’اس کے بعد سے ہی زینت میرے لیے اب پہلے والی زینت نہیں رہی۔ میں نے زینت سے کہا کہ آپ لطف اندوز ہوں۔ میں جا رہا ہوں۔ زینت نے کہا، ہمیں کہیں اور جانا تھا۔ میں نے کہا کوئی مسئلہ نہیں۔ میں وہاں سے اٹھا اور باہر آیا۔‘اس کے بعد دیوآنند نے کبھی زینت امان کی طرف نہیں دیکھا۔
نہرو سے دیوآنند کی ملاقات:سنہ 1947 کے بعد تین اداکار ہندی فلموں پر چھا گئے: راج کپور، ٹریجیڈی کنگ دلیپ کمار اور دیوآنند۔دلچسپ بات یہ تھی کہ اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے ایک بار تینوں کو اپنے ہاں مدعو کیا۔دیوآنند نے اپنی سوانح عمری میں لکھا ’جب ہم ان کے مطالعہ کے کمرے میں پہنچے تو نہرو نے ہم تینوں کو گلے لگایا۔ وہ بیمار تھے لیکن جلد ہی موڈ میں آ گئے۔ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے راج کپور نے سوال کیا کہ ’پنڈت جی، ہم نے سْنا ہے کہ آپ جہاں بھی جاتے خواتین آپ کے پیچھے بھاگتی تھیں۔‘اپنی مشہور مسکراہٹ کے ساتھے نہرو نے کہا: ’میں اتنا مقبول نہیں تھا جتنے آپ لوگ ہیں۔‘ دیو نے پوچھ لیا کہ ’آپ کی شاندار مسکراہٹ نے لیڈی ماؤنٹ بیٹن کا دل جیت لیا تھا۔ کیا یہ صحیح بات ہے؟‘نہرو کا چہرہ سرخ ہو گیا اور انھوں نے میرے سوال سے لطف اندوز ہوکر ہنستے ہوئے کہا: ’مجھے اپنے بارے میں یہ کہانیاں سن کر مزہ آتا ہے۔‘درمیان میں دلیپ نے کہا: ’لیکن لیڈی ماؤنٹ بیٹن نے خود تسلیم کیا تھا کہ آپ ان کی کمزوری ہو۔‘ نہرو نے ہنس کر کہا کہ ’لوگ چاہتے ہیں کہ میں ان کہانیوں پر یقین کر لوں۔‘
دیو کو 4711 کولون پسند تھا:انڈیا کے مشہور سٹاک مارکیٹ کے ماہر موہن چوری والا دیوآنند کے بہت قریب تھے۔وہ کہتے ہیں: ’میں نے اپنے بیڈروم میں دیوآنند کی ایک بڑی تصویر لگا رکھی ہے۔ میں اس کے سامنے جھکتا ہوں اور اپنے کام پر جاتا ہوں۔ میرے بیڈروم میں رکھے کشن پر بھی دیوآنند کی تصویر ہے۔ دیوآنند کی موت سے کچھ دن پہلے، میں نے ان کے لیے ان کا پسندیدہ پرفیوم 4711 خریدا۔ انھیں وہ کولون بہت پسند تھا۔‘چوری والا یاد کرتے ہیں: ’ایک بار ہم دونوں کنگ فشر ایئر لائنز سے لندن جا رہے تھے۔ 4711 کولون ان کے فرسٹ کلاس ٹوائلٹ میں رکھا تھا۔ دیو صاحب اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ میں نے ان سے کہا کہ کیا میں ایئر ہوسٹس سے پوچھوں کہ کیا ہم وہ کولون خرید سکتے ہیں؟‘دیو آنند نے کہا ’نہیں انھیں بْرا لگے گا۔ ہم اسے لندن میں خرید لیں گے۔ لیکن لندن میں وہ کولون بہت تلاش کرنے کے بعد بھی نہیں ملی۔ ممبئی آنے کے بعد میں نے ان کے لیے کسی سے کولون منگوائی۔ اس سے پہلے کہ میں اسے انھیں دے سکتا وہ اس دنیا سے چلے گئے۔ میں نے اس کولون کو آج تک ان کی یاد میں اپنے پاس رکھا ہے۔ میں نے آج تک اس کا ڈھکن بھی نہیں کھولا۔‘’ویسے انھیں پولو گرین پرفیوم بھی بہت پسند تھا۔ میرے پاس ان کی ٹوپی، سکارف، جیکٹ، کلائی گھڑی، موبائل اور ان کا قلم سب محفوظ ہے۔ میں نے ان کی استعمال شدہ کار فورڈ آئکن 524 بھی خریدی۔ وہ بہت پرانی ہے لیکن میرے لیے وہ اب بھی جذباتی اہمیت رکھتی ہے۔‘’میرے پاس وہ گاڑی اب بھی مِنٹ حالت میں رکھی ہے۔ وہ گاڑی میرے لیے مندر ہے۔ جب بھی میں اس میں بیٹھتا ہوں، میں انھیں اس میں محسوس کرتا ہوں۔ جب میں نے اپنی نئی مرسیڈیز کار خریدی تو سب سے پہلے میں نے دیوآنند کی ٹوپی اس کے دستانے کے خانے میں ڈال دی۔ میں ان کی سوانح عمری ’رومانسنگ ود لائف‘ کی ایک کاپی ہر گاڑی میں رکھتا ہوں۔‘
فٹنس فریک دیوآنند:دیوآنند اپنی صحت کا بہت خیال رکھتے تھے۔ سنجیو شریواستو، جو کبھی بی بی سی میں کام کرتے تھے، نے مجھے بتایا کہ ایک بار دیو صاحب ممبئی میں ان کے گھر انٹرویو دینے آئے تھے اور 76 سال کی عمر میں بھی انھوں نے لفٹ نہیں بلکہ نویں منزل پر موجود فلیٹ تک پہنچنے کے لیے سیڑھیوں کا استعمال کیا۔موہن چوری والا بتاتے ہیں کہ ’ڈاکٹر کہتے تھے کہ دیوآنند کی صحت کی رپورٹ فریم میں رکھنی چاہیے۔ وہ دن بھر 11 گلاس نیم گرم پانی پیتے تھے۔ ناشتہ بھرپور ہوتا تھا۔ اس میں دلیہ ہوتا، چائے میں شہد ملاتے، کبھی کبھی آملیٹ کھاتے تھے۔ لیکن وہ دوپہر کا کھانا چھوڑ دیتے تھے۔ وہ رات کے کھانے کے بعد تھوڑی دیر کے لیے چہل قدمی کرتے تھے۔ وہ سبزی زیادہ پسند کرتے تھے اور انھیں بینگن کا بھرتا بہت پسند تھا۔ وہ نہ تو شراب پیتے تھے اور نہ ہی سگریٹ۔‘چوری والا بتاتے ہیں کہ ’اداکاروں کے نام اور نمبر بمبئی کی ٹیلی فون ڈائریکٹری میں درج نہیں تھے۔ لیکن دیو صاحب کا نام حرف اے سے آنند دیو، 2 ائیرس پارک جوہو، بمبئی کے زمرے میں آتا تھا اور ان کا نمبر لکھا ہوا تھا۔ وہ اپنا فون خود اٹھاتے تھے۔‘
مگر کیا کوئی آپریٹر یا سیکریٹری نہیں پوچھتا تھا کہ کام کیا ہے؟’اس کی وجہ وہ بتاتے تھے کہ وہ جاننا چاہتے تھے کہ کون ان سے رابطہ کرنا چاہتا ہے۔ وہ سالگرہ پر عمر بتانے کے سخت خلاف تھے اور کہتے تھے کہ بڑھاپا ذہنی کیفیت ہے۔ انھوں نے اپنی زندگی کے اختتام تک دن میں 18 گھنٹے کام کیا۔‘
نواز شریف سے دوستی:نیپال کے مہاراجہ مہندر، انڈیا کے سابق وزیر دفاع کرشنا مینن اور پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف دیوآنند کے قریبی دوست تھے۔ ان سے ان کی پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب اٹل بہاری واجپئی انھیں اپنے ساتھ ایک بس میں لاہور لے گئے۔بس کا سفر شروع کرنے سے پہلے واجپئی نے نواز شریف سے پوچھا کہ وہ ہندوستان سے کیا لائیں، جس پر انھوں نے جواب دیا کہ بس دیوآنند کو اپنے ساتھ لے آئیں۔بعد میں جب دیوآنند لندن جاتے تو نواز شریف بھی ان سے ملنے وہاں پہنچ جاتے تھے۔موہن چوری والا یاد کرتے ہیں کہ ’نواز شریف ہائیڈ پارک میں اپنا ایک ولا رکھتے تھے۔ وہاں وہ دیو صاحب کو ضیافت کے لیے مدعو کرتے۔ وہ مجھ سے پوچھتے ’آپ لوگوں نے آج کیا کیا؟‘’جب میں ان سے کہتا تھا کہ ہم نے ہیرڈس میں ہاٹ چاکلیٹ پی ہے تو وہ کہتے مجھے دیو صاحب کے ساتھ دوبارہ وہاں لے چلو۔ ان کی اہلیہ کلثوم ابھی زندہ تھیں جب ہم ان کے یہاں کھانا کھانے گئے۔
ایک بار انھوں نے کھانے کی میز پر نواز شریف سے پوچھا ’کیا میں دیو صاحب کو آپ کی ایک حرکت بتاؤں؟‘’نواز شریف انھیں ایسا کرنے سے منع کرنے لگے۔ جب میں نے دریافت کیا تو انھوں نے بتایا کہ فلم ’سی آئی ڈی‘ کی ڈی وی ڈی جو ہمارے پاس ہے وہ میاں صاحب نے خراب کر دی ہے۔ جب بھی وہ گانا ’لے کر پہلا پہلا پیار‘ آتا ہے اور جس طرح دیو صاحب گھومتے ہیں وہ اسے بار بار دھیمی رفتار سے دیکھتے ہیں۔‘
ایم ایف حسین نے دیو کی تصویر بنائی:دیو صاحب بھی ایم ایف حسین کو بہت پسند کرتے تھے۔ایک بار انھوں نے دفتر کی کرسی پر لیٹے ہوئے دیوآنند کا خاکہ بنایا اور 15 منٹ میں انھیں پیش کیا۔ موہن چوری والا یاد کرتے ہیں کہ ایک بار فلم فیئر ایوارڈ کی تقریب کے لیے دیو صاحب کو دعوت دی گئی تھی جس پر حسین صاحب کی تصویر چھپی ہوئی تھی۔ اسے دیکھ کر انھیں حسین صاحب یاد آ گئے۔انھوں نے اسی وقت فون پر کہا کہ ’حسین صاحب آپ کی یاد آ رہی ہے۔ آپ کا ہاتھ چومنے کا جی چاہ رہا ہے۔ حسین صاحب اس رات اندور سے ممبئی صرف دیوآنند سے ملنے کے لیے آئے اور اسی رات ان سے ملنے کے بعد واپس اندور چلے گئے۔‘
خواتین میں بہت مقبول:دیوآنند کی اندرونی زندگی نے انھیں کبھی بوڑھا نہیں ہونے دیا۔للت موہن جوشی کہتے ہیں: ’دلیپ کمار، راج کپور اور دیوآنند یہ تینوں اپنے آپ میں مختلف شخصیات تھے۔ دلیپ کمار کی اداکاری میں بڑی سنجیدگی، بڑی گہرائی تھی۔ ایک وقت میں صرف ایک فلم میں کام کیا۔ راج کپور نے پہلی بار انڈین فلموں کو بین الاقوامی درجہ دیا۔ لیکن جو شخص گھر گھر مقبول ہوا وہ دیوآنند تھا۔‘’میری پھوپھی، جو یہاں رہتی تھیں اور لکھنؤ میں پڑھتی تھیں، میری ماں کے برابر تھیں۔ لیکن انھوں نے مجھ سے اعتراف کیا کہ دیوآنند نے ان کو متاثر کیا تھا۔ یہاں تک کہ ہماری عمر کی لڑکیاں بھی دیوآنند کی مداح تھیں اور ان کے چاہنے والے اس کے بعد نسل میں کم نہیں تھے۔ جو مقبولیت دیوآنند کی تھی مجھے نہیں لگتا کہ وہ دلیپ کمار یا راج کپور کو ملی تھی۔ یہ دونوں بڑے فنکار تھے لیکن دیوآنند کی پہچان ایک عام آدمی سے تھی۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں نے انھیں پاگل پن کی حد تک پسند کیا، خاص طور پر خواتین نے۔‘ان کی فلموں کے موضوعات شہری موضوعات تھے جیسے کالا بازار بلیک مارکیٹنگ پر مبنی تھی، تیرے میرے سپنے طبی پیشے پر کیوں کہ ڈاکٹر گاؤں نہیں جانا چاہتے تھے۔ دیس پردیس بیرون ملک مقیم ہندوستانیوں کے مسئلے پر بنائی گئی تھی۔ وہ ہمیشہ ایک خیال کے ساتھ جاتے تھے۔یہ طلسم کم از کم چالیس برسوں تک سینما کے چاہنے والوں کے دلوں پر قائم تھا۔

Related Articles