بیلسٹک میزائل: شمالی کوریا کے غیرمعمولی میزائل تجربے کیا چین کے ساتھ خفگی کا اظہار ہیں؟
پیونگ یانگ/لندن،جنوری.شمالی کوریا کی جانب سے رواں سال جنوری کے مہینے میں یکے بعد دیگرے چار میزائل فائر کیے جا چکے ہیں جسے غیر معمولی سمجھا جا رہا ہے۔تازہ ترین میزائل تجربے میں پیر کے روز دو کم فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل جاپان کے ساحل کے قریب سمندر میں فائر کیے گئے۔جنوبی کوریا کی فوج کے مطابق یہ میزائل شمالی کوریا کے دارالحکومت پیونگ یانگ کے قریب واقع ایک ایئر پورٹ سے داغے گئے تھے۔ اس تجربے کی تصدیق جاپان نے بھی کر دی ہے۔واضح رہے کہ شمالی کوریا پر بیلسٹک اور جوہری صلاحیت رکھنے والے ہتھیاروں کے تجربے کرنے پر اقوام متحدہ کی جانب سے ممانعت ہے اور پابندیاں بھی عائد کی جا چکی ہیں۔لیکن شمالی کوریا وقفے وقفے سے اس پابندی کی خلاف ورزی کرتا رہتا ہے۔ شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اْن اعلان کر چکے ہیں کہ وہ اپنے ملک کے دفاع کو مضبوط تر بنائیں گے۔جمعے کے دن شمالی کوریا کی جانب سے اعلان کیا گیا تھا کہ کم فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل کو ٹرین سے فائر کرنے کا تجربہ کیا گیا ہے جب کہ چند ہی دن بعد مزید دو ٹیسٹ کیے گئے جن سے متلعق دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ ہائپر سونک میزائل تھے جن کو ٹریس کرنا مشکل ہوتا ہے۔
شمالی کوریا اس وقت میزائل کیوں داغ رہا ہے؟:جنوری کے مہینے میں شمالی کوریا کی جانب سے کیے جانے والے میزائل تجربوں کی تعداد اور وقت دونوں ہی غیر معمولی ہیں۔عام طور پر شمالی کوریا اس وقت ایسے تجربے کرتا ہے جب ملک میں سیاسی اہمیت کا حامل کوئی واقعہ ہو یا پھر امریکہ اور جنوبی کوریا کے درمیان فوجی مشقوں پر ناراضگی کا اظہار مقصود ہو۔کارنیج اینڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس سے منسلک ماہر انکیت پانڈا کے مطابق شمالی کوریا عام طور پر اپنی میزائل صلاحیتیں بہتر کرنے اور جنگ کی تیاری کے لیے ہتھیاروں کے تجربے کرتا رہتا ہے اور حالیہ تجربے بھی اسی جانب اشارہ ہیں۔بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انکیت پانڈا نے کہا کہ ساتھ ہی ساتھ کم جونگ کو چند اندرونی معاملات کا بھی خیال رکھنا ہوتا ہے۔ ’ایک ایسے وقت پر جب ملک کو معاشی مشکلات کا سامنا ہے، اس طرح کا تجربہ ان کی جانب سے پیغام دیتا ہے کہ ملک کی دفاعی ضرورریات کو پس پشت نہیں ڈالا جا سکتا۔’واضح رہے کہ شمالی کوریا کو اس وقت ایک بدترین معاشی بحران کے ساتھ ساتھ غذائی قلت کا بھی سامنا ہے۔ اس کی ایک وجہ وہ خود ساختہ پابندیاں ہیں جن کے تحت کورونا سے بچاؤ کے لیے ہمسایہ ملک چین سے تجارت بند کر دی گئی ہے حالانکہ چین شمالی کوریا کا اہم سیاسی اور معاشی اتحادی ہے۔ چند رپورٹس کے مطابق ممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں چین کے ساتھ تجارت کا دوبارہ آغاز کر دیا جائے۔کم جونگ اْن نے حالیہ دنوں میں تسلیم کیا ہے کہ اْن کا ملک اس وقت زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ انھوں نے ہائپر سونک میزائل صلاحیت سمیت دفاعی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔واضح رہے کہ شمالی کوریا اور امریکہ کے درمیان بات چیت کا سلسلہ بھی جو بائیڈن کے صدر منتخب ہونے کے بعد سے تعطل کا شکار ہے۔ امریکہ کی خواہش ہے کہ شمالی کوریا کو جوہری ہتھیاروں کو ترک کرنے پر مجبور کر دیا جائے۔ گذشتہ ہفتے شمالی کوریا کے ایک تجربے کے جواب میں صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے شمالی کوریا پر پہلی بار پابندیوں کا اعلان بھی کیا تھا۔ایوا وومینز یونیورسٹی میں شمالی کوریا سٹڈیز کے ماہر پارک وون گون کے مطابق شمالی کوریا کی جانب سے سوموار کو ہونے والے میزائل تجربے امریکہ کی جانب سے عائد پابندیوں کا جواب بھی ہو سکتے ہیں ’جس کا مقصد یہ بتانا ہے کہ شمالی کوریا کسی صورت امریکہ کو اپنے اوپر فیصلے مسلط نہیں کرنے دے گا۔’
کیا ان تجربوں کی وجہ چین تو نہیں؟:شمالی کوریا کے یہ تجربے ایک ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب چین میں سرمائی اولمپکس چند ہی ہفتوں کی دوری پر ہیں۔ چار فروری سے بیجنگ میں شروع ہونے والا یہ ایک ایسا ایونٹ ہے جو چین کے لیے سیاسی طور پر بھی نہایت اہم ہے۔شمالی کوریا کے معاملات پر ماہر سمجھے جانے والے چاڈ او کیرل نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ’میرے خیال میں چین اپنے دروازے پر ایسے وقت میں میزائل تجربوں پر خوش نہیں ہو گا جب وہاں سرمائی اولپکس کا آغاز ہونے والا ہے۔‘’اگر (تجربوں کا) یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تو ہم یہ امکان مسترد نہیں کر سکتے کہ شمالی کوریا چین سے کسی بات پر نالاں ہے۔’انکیت پانڈا اس مفروضے سے متفق نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہو سکتا ہے کہ بیجنگ ان تجربوں سے خوش نہ ہو لیکن وہ ان کو برداشت کر لیں گے کیوںکہ یہ جوہری ہتھیاروں یا طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلز نہیں تھے جو چین کے لیے ریڈ لائن ہیں۔’شمالی کوریا پر ایک اور ماہر لیف ایرک نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس کی حمایت یوں کی کہ ’تجربوں کے وقت سے جب کہ چین اور شمالی کوریا میں تجارت کی بحالی کی بات ہو رہی ہے ایسا لگتا ہے کہ چین اس وقت شمالی کوریا کا مکمل ساتھ دے رہا ہے۔’’چین سے شمالی کوریا کے تعلقات کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ شمالی کوریا بیجنگ اولمپکس شروع ہونے قبل اس سال کے تجربے مکمل کر لینا چاہتا ہے۔’وہ کہتے ہیں کہ ’اس وقت یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ شمالی کوریا یہ بھی نہیں چاہتا کہ جنوبی کوریا کے صدارتی انتخابات سے قبل خاموش رہے۔‘’وہ یہ بھی نہیں چاہے گا کہ ایک ایسے وقت میں جب چین کی جانب سے امداد بھیجی جا رہی ہے، شمالی کوریا سے متعلق یہ تاثر قائم ہو کہ وہاں معاشی حالات بہت ابتر ہیں۔’