ان معاشرتی خرابیوںپر بھی توجہ دیں
عارف عزیز (بھوپال)
اسلام ایک فطری دین ہے دینی، دنیاوی اور معاشی ہر قسم کی ہدایات اس میں موجود ہیں اس کے اصول وضوابط حکمت ومصلحت سے پر ہیں پھر بھی اسلام کا ماننے والا کلمہ توحید کا اقرار کرنے والا اور خدا ورسول ﷺ کی محبت کا دم بھرنے والا زندگی کے ہر موڑ پر طرح طرح کی معاشرتی واقتصادی مسائل کا اس لئے آج شکار ہے کہ اس نے اسلام کی تعلیمات کو اپنی مرضی وخواہش اور غلط رسم ورواج کے سانچے میں ڈھال لیا ہے جو اس کو اندر ہی اندر کھوکھلا بنارہی ہے اور مسلمانوں کے وسائل کو برباد کرکے انہیں زندگی کے سکون، صبر وقناعت جیسی نعمتوں سے محروم کررہی ہیں۔
آج عام مسلمانوں میں معاملات کی خرابی، فضول خرچی، غلط طریقہ سے دولت کمانے کی جو حرص وہوس بڑھتی جارہی ہے اس میں اصلاح کی شدید ضرورت ہے جو افراد یا جماعتیں اس کی اصلاح کے لئے کوشاں ہیں۔ وہ وقت کی ایک اہم ضرورت کو انجام دے رہی ہیں، بالخصوص جمعیۃ العلماء ہند اور ملی کونسل نے اصلاح معاشرہ کے لئے رہنمائی کی جو سمت مسلمانوں کو دکھائی ہے اس پر چلنے اور دوسرے مسلمانوں کو اس مشن پر آگے بڑھانے کی ترغیب دینا، آج ضروری ہو گیا ہے۔
اس سلسلہ کی ایک اہم برائی شادی بیاہ کی تقریبات میں رقم کا بے جا اصراف ، ناچنے گانے کا اہتمام، آتش بازی کا مظاہرہ اور آرائش وزیبائش کے نام پر آنکھیں بند کرکے خرچ کردینا ایسی برائیاں ہیں جو اللہ تعالیٰ کے غیض وغضب کو دعوت دیتی ہیں اور اسی طرح مسلمانوں نے نکاح جیسی پاک عبادت کو پورے معاشرہ کے لئے ایک سنگین مسئلہ بنادیا ہے اس کی ایک کڑی جہیز بھی جو مسلمانوں نے برادرانِ وطن سے اختیار کی ہے اور اس لعنت نے غریبوں کی تو کمر توڑ کررکھ دی ہے اور اس کا سب سے زیادہ ناخوشگوار اثر لڑکیوں کی شادی پر مرتب ہورہا ہے اس بارے میں ایک سوال یہ بھی کیاجاتا ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں نے اس برائی کو آخر اپنے گلے کیوں لگا لیاہے، ہمارے خیال میں مسلمان بالکل غیر محسوس اور غیر شعوری طو رپر اس لعنت میںگرفتار ہوئے۔ سب سے پہلے ان کے خوشحال طبقہ نے اس کو اپنایا اس کے بعد ان کی نقل اور جھوٹی نمائش میں متوس اور دوسرے غریب طبقوں کے مسلمانوں نے اس کو اعتبار کرلیا اور آج یہ صورت حال ہے کہ خواہ وہ خوشحال مسلمان ہوں یا بد حال سب ہی اس تکلیف دہ رسم کی شدت اور چبھن کو محسوس کرنے لگے ہیں لہذا ایسی مسلم لڑکیوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے جو سنِ بلوغیت کو پہونچنے کے بعد بھی کنواری بیٹھی ہیں اس لئے کہ ان کے والدین اتنی مالی استطاعت نہیں رکھتے کہ جہیز کے لئے بڑی رقم کا انتظام کرسکیں، حیدرآباد وغیرہ شہروں میں تو اور بھی بُرا حال ہے جہاں اس کے نتیجہ میں دوسری معاشرتی خرابیاں بڑھ رہی ہیں۔
اس کا ایک ہی علاج ہے کہ اسلام نے ہمیں جس اچھے معاشرہ کا تصور دیا ہے اس پر روایات وراجوں کا جو پردہ پڑگیا ہے اس کو ہم ہٹائیں اور صحیح اسلامی تعلیمات کی پیروی کریں جو انسانی فطرت ومزاج کے عین مطابق ہیں۔ اگر یہ نہیں کیاگیا تو مسلمان ایک طرف خدا کے غضب کا شکار ہوتے رہیںگے دوسری طرف طرح طرح کے دنیاوی مسائل ومشکلات بھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑیں گے خدا کرے کہ یہ بات عام مسلمانوں کے سمجھ میں آجائے اور اس پر وہ کاربند ہوجائیں۔٭