افغانستان کی خواتین کرکٹ ٹیم کو کھیلنے کی اجازت دی جا سکتی ہے، چیئرمین بورڈ
کابل،ستمبر۔افغانستان کے کرکٹ بورڈ کے چیئرمین نے دعویٰ کیا ہے کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے باوجود افغانستان کی خواتین کو کرکٹ کھیلنے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ایک آسٹریلوی نشریاتی ادارے کے مطابق عزیزاللہ فضلی نے جمعہ کو ایس بی ایس پشتو ریڈیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گورننگ باڈی اس بات کا تعین کرے گی کہ یہ جلد از جلد کیسے ممکن ہو گا، ویمنز کرکٹ ٹیم کی تمام 25 خواتین افغانستان میں رہیں گی اور انہوں نے انخلا کی پروازوں سے نہ جانے کا فیصلہ کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو اپنی پوزیشن جلد واضح کریں گے کہ ہم خواتین کو کرکٹ کھیلنے کی اجازت کیسے دیں گے اور بہت جلد آپ کو خوشخبری دیں گے کہ ہم کیسے آگے بڑھیں گے۔اگر افغان کرکٹ کے سربراہ کی بات درست ثابت ہوتی ہے تو یہ طالبان کے سخت گیر میں موقف میں بہت بڑی تبدیلی ہو گی جو خواتین کے کھیلوں کے سخت مخالف رہے ہیں۔حال ہی میں طالبان کے ثقافتی کمیشن کے نائب سربراہ احمد اللہ وثق اپنے بیان میں کہا تھا کہ خواتین کے لیے کھیل کھیلنا ضروری نہیں ہے۔افغان کرکٹ کے سربراہ کا یہ بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب آسٹریلیا نے دونوں ممالک کے درمیان تاریخی پہلا رواں سال نومبر میں ہوبارٹ میں شیڈول پہلا ٹیسٹ میچ منسوخ کرنے کی دھمکی دی ہے۔آسٹریلیا نے کہا ہے کہ اگر خواتین کرکٹ ٹیم کے حوالے سے افغانستان واضح موقف اختیار نہیں کرتا اور اگر انہیں کھیلنے کی اجازت نہیں دی جاتی تو آسٹریلیا رواں سال افغانستان کی مردوں کی ٹیم سے شیڈول میچ نہیں کھیلے گا۔آسٹریلین ٹیسٹ ٹیم کے کپتان ٹم پین نے اس حوالے سے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے کہا کہ اگر ایسا ہوا تو ٹیمیں اگلے ماہ ہونے والے ٹی20 ورلڈ کپ سے احتجاجاً دستبردار ہو سکتی ہیں یا پھر افغانستان کے ساتھ کھیلنے کا بائیکاٹ کر سکتی ہیں۔تاہم اب افغانستان کرکٹ بورڈ نے آسٹریلیا پر زور دیا ہے کہ وہ اپنی مرد ٹیم کو طالبان کی ممکنہ پابندی پر سزا نہ دے اور وہ افغانستان کی ثقافت اور مذہبی ماحول کو تبدیل کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں تنہائی کا شکار نہ کریں اور ہمیں سزا دینے سے گریز کریں۔کرکٹ آسٹریلیا نے ہفتے کے روز مختصر تبصروں میں کہا کہ وہ افغانستان کرکٹ بورڈ کے ساتھ مذاکرات کرتا رہا ہے اور ہم نے بیان میں اپنی پوزیشن بہت واضح کر دی ہے۔وہ جمعرات کو دیے گئے اپنے بیان کا حوالہ دے رہے تھے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ ہر سطح پر خواتین کے لیے اس کھیل کی حمایت کرتے ہیں اور اگر طالبان نے خواتین پر پابندی لگائی تو اس کے پاس ٹیسٹ میچ کی منسوخی کے سوا کوئی دوسرا متبادل نہیں ہوگا۔انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے قواعد و ضوابط کے تحت ٹیسٹ اسٹیٹس کے حامل ممالک کے لیے ایک فعال خواتین ٹیم بھی ہونی چاہیے۔حالیہ اطلاعات کے مطابق افغانستان کی خواتین ٹیم کی کئی اراکین کابل میں روپوش ہیں اور طالبان کے ارکان انہیں تلاش کررہے ہیں لیکن افغان کرکٹ بورڈ کے سربراہ کا کہنا ہے کہ وہ محفوظ ہیں۔عزیز اللہ فضلی نے کہا کہ خواتین کرکٹ کوچ ڈیانا بارکزئی اور ان کے کھلاڑی محفوظ ہیں اور اپنے وطن میں رہ رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ان کھلاڑیوں سے بہت سے ممالک نے کہا کہ وہ افغانستان چھوڑ دیں لیکن انہوں نے افغانستان نہیں چھوڑا اور اس وقت وہ اپنی جگہ پر موجود ہیں۔