افغانستان میں طالبان: وہ جنگجو گروہ جو اس وقت افغانستان میں فعال ہیں
کابل،ستمبر۔طالبان کے 15 اگست کو افغان دارالحکومت کابل پر قبضہ کرنے کے بعد سے جہاں کئی دوسرے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے وہیں طاقت اور وسائل پر قابض ہونے کے لیے طالبان کے اندر گروہی اور قبائلی تقسیم اور مشکوک وفاداری والے غیر ملکی جنگجو گروہوں کی موجودگی بھی طالبان قیادت کے لیے باعث فکر ہے۔افغانستان اس وقت طالبان کے کنٹرول میں ہے اور یہ بنیادی طور پر تین علاقوں میں تقسیم ہیں۔جنوب مغربی افغانستان کو مرکزی دھارے میں شامل طالبان کنٹرول کرتے ہیں، ان کا اصل مرکز قندھار میں ہے۔ حقانی نیٹ ورک جنوب مشرقی افغانستان پر قابض ہے اور شمالی افغانستان میں غیر پشتون افغان طالبان اور وسط ایشیائی جنگجوؤں پر مشتمل گروہ ہے جس کے حقانی نیٹ ورک کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔القاعدہ اور دولتِ اسلامیہ (داعش) صوبہ خراسان میں خود اپنی ہیئت میں تبدیلیاں دیکھ رہے ہیں یا دوسرے گروہوں کے ساتھ اتحاد بدل رہے ہیں یا ان سے مقابلہ کر رہے ہیں۔جب سنہ 1990 کی دہائی میں طالبان پہلی بار افغانستان کے جنوب میں نمودار ہوئے تو جنوبی رہنماؤں اور کمانڈروں کا، جن کا گریٹر قندھار کے خطے سے تعلق تھا، طالبان کی بننے والی پہلی قیادت اور حکومت پر تقریباً مکمل غلبہ قائم ہو گیا تھا۔تاہم اِس مرتبہ انھیں حقانی نیٹ ورک کی طرف سے ایک بڑے چیلنج کا سامنا ہے جس کی طاقت کا مرکز بنیادی طور پر ملک کے مشرق میں گریٹر پکتیا کے خطے میں ہے۔ حقانی اور ان کے غیر ملکی جنگجو اتحادی گروہ اب کابل سمیت افغانستان کے مشرقی نصف حصے کو عملی طور پر کنٹرول کر رہے ہیں، جس سے جنوبی افغانستان کے طالبان کی قیادت کے ساتھ ان کا ایک بڑا اختلاف پیدا ہو گیا ہے۔طالبان کی موجودہ کامیابی کے بعد حاصل ہونے والے وسائل اور طاقت کی موجودہ تقسیم کے علاوہ، تاریخی قبائلی تنازعات بھی اندر ہی اندر کام کرتے دکھائی دے رہے ہیں، جس نے مشرقی پشتونوں (غلزائیوں) کو جنوبی پشتونوں (درانیوں) کے خلاف لا کھڑا کیا ہے۔اس کے باوجود جنوبی طالبان اس تنظیم کی قیادت پر اپنا قبضہ قائم رکھے ہوئے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ اس گروہ کی مجموعی لڑائی کی قوت کا یہ تقریباً نصف حصہ ہے، جو اندازوں کے مطابق کل ملا کر 85000 جنگجوؤں پر مشتمل ہے۔گریٹر قندھار کے علاقے سے تعلق رکھنے والے دو بااثر طالبان کمانڈر ملا ابراہیم صدر اور ملا قیوم ذاکر نے مبینہ طور پر امریکہ اور طالبان کے درمیان فروری سنہ 2020 ایک اہم امن معاہدے پر دستخط کیے جانے کے بعد اپنا الگ گروہ بنا لیا۔ابتدا میں دونوں کو طالبان حکومت سے باہر رکھا گیا تھا لیکن اس گروپ نے 21 ستمبر کو اعلان کیا کہ ملا ابراہیم صدر اور ملا قیوم ذاکر بالترتیب نائب وزیر داخلہ اور دفاع ہوں گے۔ ان دونوں کا صوبہ ہلمند سے تعلق ہے، جہاں سے طالبان کے بہت سے جنگجوؤں کا تعلق ہے۔طالبان کے مرکزی دھارے سے علحیدہ ہونے والے اس گروہ کو ملا رسول نے طالبان کے بانی ملا عمر کی موت کے بعد اختر منصور کی جانشینی کی مخالفت میں تشکیل دیا تھا۔اس گروہ کو جلد ہی سابقہ افغان حکومت نے اپنے ساتھ ملا لیا تھا اور گذشتہ مئی میں جب اس کے اہم فوجی کمانڈر عبدالمنان نیازی کو قتل کیا گیا تھا تو یہ گروہ ہرات میں مرکزی دھارے میں شامل طالبان کے ساتھ برسرِ جنگ رہا تھا۔ عبدالمنان نیازی کی ہلاکت کے بعد ان کے بیٹے خالد نیازی نے اس گروہ کی قیادت سنبھال لی تھی۔اس چھوٹے سخت گیر نظریات والے گروہ کی بنیاد طالبان کمانڈر ملا داد اللہ نے رکھی تھی جو بعد میں سنہ 2007 میں ہلمند میں ایک فضائی حملے میں مارے گئے تھے۔ اِس وقت اس گروہ کی قیادت ملا نجیب اللہ کر رہے ہیں، جن کا ملا داد اللہ کی طرح جنوبی صوبے زابل سے تعلق ہے۔سنہ 2013 میں اس گروپ نے طالبان قیادت کی امریکیوں کے ساتھ بات چیت کرنے کی مذمت کی اور سب سے پہلے طالبان کے بانی ملا عمر کی موت کی خبر لیک کی۔اس خفیہ گروپ کی جنگی صلاحیتیں نامعلوم ہیں لیکن اس گروہ کا اغوا کے واقعات، جیسے نیو یارک ٹائمز کے رپورٹر ڈیوڈ روہڈے کا اغوا، اور پھر ان کا قتل، ایوارڈ یافتہ سویڈش رپورٹر نلس ہورنر کے قتل اور کچھ خودکش حملوں، خاص طور پر انڈین مفادات کو نشانہ بنانے والے جیسے اہم حملوں میں ان کا گہرا تعلق بیان کیا جاتا ہے۔ سنہ 2013 میں نیوز ویک کی ایک رپورٹ میں ان کا تعلق پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی سے بیان کیا گیا تھا۔حقانی نیٹ ورک جس کی بہت دہشت ہے، طالبان کا ایک حصہ ہے لیکن اسے کافی اختیارات اور مالی خود مختاری حاصل ہے۔حقانیوں کے پاس مرکزی دھارے کے جنوبی طالبان کے مقابلے میں ایک چھوٹی جنگی قوت ہے لیکن ان کے شمالی افغانستان کے غیر پشتون طالبان جنگجوؤں، وسطی ایشیائی عسکریت پسندوں اور القاعدہ کے ساتھ قریبی تعلق کی وجہ سے ان کی جنگی صلاحیت کافی بڑھ جاتی ہے۔کہا جاتا ہے کہ سخت گیر جنگجو گروپ کا پاکستان کی انٹیلیجنس سروس (آئی ایس آئی) کے ساتھ گہرے تعلق ہیں۔اس کے القاعدہ اور آئی ایس-کے سے نظریاتی طور پر تعلقات گہرے ہیں اور اس نیٹ ورک کے دونوں گروپوں کے ساتھ کچھ تعاون کی اطلاعات موصول ہوتی رہی ہیں۔اس گروپ کی قیادت افغانستان کے طاقتور ترین کمانڈر سراج الدین حقانی کر رہے ہیں جن کے سر کی قیمت امریکی ادارے ایف بی آئی نے ایک کروڑ امریکی ڈالر مقرر کی ہوئی ہے۔اس گروہ کے جنگجو سب سے پہلے کابل میں داخل ہوئے اور اب بھی دارالحکومت میں سکیورٹی کے انچارج ہیں۔اس کے جنگجوؤں اور اتحادیوں کے زیر قبضہ علاقے میں کابل، جلال آباد اور شمالی شہر مزار شریف شامل ہیں، اس کے علاوہ پاکستان (طورخم)، ازبکستان (حیرتان) اور تاجکستان (شیر خان) میں بڑی سرحدی چوکیاں بھی ان کے کنٹرول میں ہیں۔سراج الدین کا تعلق پشتونوں کی غلزئی شاخ سے ہے اور ان کے نیٹ ورک کا مرکز مشرقی افغانستان میں ہے، جو بنیادی طور پر گریٹر پکتیا کے علاقے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے وزیرستان قبائلی علاقے بنتا ہے۔حقانی نیٹ ورک برسوں سے مشرقی افغانستان بالخصوص کابل میں ہونے والے بیشتر خونریز حملوں کا ذمہ دار رہا ہے۔طالبان نے سنہ 2008 میں شمالی افغانستان کے تاجکوں اور ازبکوں کو بھی اپنے نیٹ ورک میں شامل کرنا شروع کیا تھا۔ان میں مقامی علما کے علاوہ ایسے طلبا شامل تھا جنھوں نے بنیادی طور پر پاکستانی مدرسوں سے تعلیم حاصل کی تھی۔ کئی برسوں سے طالبان مقامی تاجک اور ازبکوں کو کمانڈر بناتے رہے ہیں اور اپنی متبادل حکومت کے عہدوں پر بھی تعینات کرتے رہے ہیں۔بدخشاں کے مولوی فصیح الدین اور فریاب کے قاری صلاح الدین ایوبی شمال میں تاجک اور ازبک کمانڈروں میں شامل ہیں۔فصیح الدین نے بدخشاں کے لیے طالبان کے متبادل گورنر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور اب وہ طالبان حکومت میں اْن کی فوج کے سربراہ کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔افغان امور کے ایک معروف ماہر انتونیو گوئسٹوزی کے مطابق غیر پشتون طالبان اس گروپ کے 8500 جنگجوؤں کا ایک چوتھائی بنتے ہیں۔شمالی افغانستان کے طالبان جو حقانیوں کے کافی قریب ہیں، ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ موجودہ نگران حکومت میں عہدوں کی تقسیم سے ناخوش ہیں۔غیر ملکی جہادی گروہوں یا جنگجو گروہوں کی جنوبی افغانستان کے مرکزی دھارے کے طالبان سے وفاداری کافی مشکوک سمجھی جاتی ہے کیونکہ یہ تاریخی طور پر مشرقی افغانستان کے طالبان کے گروہوں کے کافی قریب رہے ہیں۔القاعدہ کی ’اعلیٰ قیادت‘ نے 31 اگست کو ایک بیان میں طالبان کو ان کی ’تاریخی فتح‘ پر مبارکباد دی تھی اور اسلامی شریعت نافذ کرنے میں ان کی کامیابی کے لیے دعا بھی کی تھی۔ اس کے علاوہ افغانوں پر زور دیا کہ وہ طالبان کی حمایت میں جلوس نکالیں۔جولائی میں جاری کردہ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان کے 12 صوبوں میں 400 سے 600 القاعدہ کے عسکریت پسند خفیہ طور موجود ہیں۔ اس کے علاوہ امریکہ کے لیڈ انسپکٹر جنرل کی ایک رپورٹ (اپریل تا 20 جون) کے مطابق طالبان نے اس عرصے میں برصغیر پاک و ہند میں القاعدہ کے ساتھ مل کر کچھ حملے کیے تھے۔طالبان نے ملک میں القاعدہ کی اپنے ہاں موجودگی سے متعلق خبروں کو بار بار ’بدنیتی پر مبنی‘ اور ’بیکار‘ قرار دے کر مسترد کیا ہے۔دولت اسلامیہ، صوبہ خراسان (آئی ایس-کے یا آئی ایس کے پی) افغانستان میں طالبان کا ایک اہم جہادی حریف ہے۔یہ امریکی فضائی حملوں اور افغان اور طالبان افواج کے حملوں کی وجہ سے افغانستان کے مشرقی صوبوں ننگرہار اور کنڑ کے چند اضلاع تک محدود ہے۔ آئی ایس-کے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بھی موجود ہے۔آئی ایس-کے افغانستان میں ایک بڑا جنگجو گروہ نہیں۔ طالبان پر حملوں کے علاوہ، یہ بڑی حد تک اس بے قاعدہ جنگ یعنی خودکش حملوں کے ذریعے زیادہ تر کابل میں نرم اہداف کو نشانہ بناتے ہیں، جیسے ہزارہ اور شیعہ برادریوں کے ساتھ ساتھ سکولوں، ہسپتالوں اور میڈیا کے کارکنوں پر حملے کرتا ہے۔آئی ایس-کے نے 26 اگست کو کابل ایئرپورٹ کے باہر ہونے والے اْس تباہ کن بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کی تھی، جس میں مغربی انخلا کی کارروائی کو نشانہ بنایا گیا تھا اور جس میں 13 امریکی فوجی اور 170 کے قریب افغان ہلاک ہوئے۔15 اگست کو طالبان کے قبضے کے بعد سے اس گروپ نے بنیادی طور پر ننگرہار میں طالبان کے اہداف پر درجن بھر چھوٹے حملے کیے ہیں۔نیو یارک ٹائمز کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق اس گروپ کی صفوں میں 1500 سے 2000 جنگجو موجود ہیں جو سنہ 2016 میں جب یہ تنظیم اپنے عروج پر تھی، تو اس کا اب نصف بنتا ہے۔تاہم دہشت گردی پر گہری نظر رکھنے والے محقق انتونیو گوئسٹوزی کے خیال میں القاعدہ میں 5000 جنگجو ہیں۔اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس کے بڑے بڑے عزائم رکھنے والے نئے لیڈر شہاب المہاجر کی قیادت میں آئی ایس-کے جون سنہ 2020 سے زیادہ ’فعال اور خطرناک‘ ہو گئی ہے۔ نیا لیڈر غیر مطمئن طالبان جنگجوؤں اور دیگر جنگجوؤں کو اپنی صفوں میں شامل کر کے اپنی طاقت بڑھانا چاہتا ہے۔ممکنہ طور پر یہ گروپ افغانستان کے طالبان کی اندرونی تقسیم اور غیر پشتونوں کی شکایات کا فائدہ اٹھائے گا، جو آبادی کا 60 فیصد بنتے ہیں۔ طالبان کے لیے اس وقت فضائی طاقت اور وسائل کی عدم موجودگی میں پر قابو پانا مشکل ہو سکتا ہے، خاص کر جب اس کے اپنے جنگجو پورے افغانستان میں پھیلے ہوئے ہیں۔اسلامک موومنٹ آف ازبکستان (آئی ایم یو) کو شمالی افغانستان میں سنہ 1998 میں طاہر یلداش (طاہر یلدوش، طاہر یلداش) اور جمعہ نامنگانی نے طالبان کے پہلے دورِ حکومت میں تشکیل دیا تھا۔جب امریکہ نے سنہ 2001 میں افغانستان پر حملہ کیا تھا تو آئی ایم یو کے جنگجو پاکستانی قبائلی علاقوں میں فرار ہو گئے تھے۔ یہ گروپ غیر عرب القاعدہ کا مضبوط ترین اتحادی اور پاکستانی طالبان (ٹی ٹی پی) کا قریبی اتحادی بن گیا۔بہتر تعلیم یافتہ اور سوویت فوجی پس منظر کے ساتھ، پاکستان میں آئی ایم یو کی کارروائیوں میں کراچی میں مہران نیول بیس پر (2011) اور شہر کے بین الاقوامی ہوائی اڈے (2014) پر حملے شامل تھے۔آئی ایم یو کے رہنما طاہر یلداش اور عثمان عادل بالترتیب سنہ 2008 اور سنہ 2012 میں ڈرون حملوں میں مارے گئے۔جب پاکستانی فوج اور ان کے مقامی اتحادیوں نے سنہ 2014 میں قبائلی علاقوں میں ازبک جنگجوؤں اور ٹی ٹی پی کے خلاف ایک بڑی فوجی مہم شروع کی تو آئی ایم یو کے زیادہ تر جنگجو افغانستان میں طالبان کے زیر کنٹرول علاقوں میں فرار ہو گئے۔سنہ 2014 میں آئی ایم یو کے رہنما عثمان غازی نے دولت اسلامیہ کے رہنما کے ہاتھ پر بیعت کی اور ملا عمر پر تنقید کی۔اس کے بعد مرکزی دھارے میں شامل افغان طالبان کے ساتھ ان کے تعلقات خراب ہو گئے۔ جنوبی صوبہ زابل میں سنہ 2015 کی لڑائی میں طالبان نے آئی ایم یو کے متعدد جنگجوؤں کو ہلاک کیا تھا، جہاں اس گروہ نے خود کو طالبان کے ایک باغی گروپ سے جوڑ لیا تھا۔آئی ایم یو کے باقی عسکریت پسند شمالی افغانستان کے ازبک اکثریتی صوبوں میں چلے گئے جہاں وہ طالبان قیادت کے ساتھ کشیدہ تعلقات میں رہ رہے ہیں۔مئی سنہ 2020 میں اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اس گروہ کے طالبان کے ساتھ تعلقات بہتر ہوئے ہیں اور یہ گروپ ’طالبان کی کمان اور اْن کے مالی کنٹرول میں ہے۔‘آئی ایم یو اب محمد یلداش کی قیادت میں سرگرم ہے اور وہ جنوبی طالبان کے مقابلے میں حقانی نیٹ ورک کے زیادہ قریب ہیں۔مئی سنہ 2020 میں اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کاتبات امام البخاری (کے آئی بی) وسطی ایشیا کے کئی سو جنگجوؤں پر مشتمل ایک تنظیم ہے اور شمالی صوبہ فریاب میں طالبان کی زیر قیادت سرگرم ہے۔ازبک ویب سائٹ نووستی ازبکستان نے رپورٹ کیا کہ سنہ 2011 میں ’افغانستان پاکستان سرحدی علاقے میں‘ میں کے آئی بی کی بنیاد رکھی گئی تھی۔کے آئی بی نے سنہ 2014 سے القاعدہ سے وابستہ گروہوں کے ساتھ مل کر شام کی خانہ جنگی میں اہم کردار ادا کیا تھا لیکن طالبان نے کے آئی بی کے ساتھ اپنے روابط کی خبروں کو مسترد کرتے ہیں۔طلوع نیوز ٹی وی نے 9 جولائی سنہ 2020 کو رپورٹ کیا کہ کے آئی بی نے کہا ہے کہ اس نے طالبان کے ساتھ مشترکہ آپریشن کیا اور افغانستان میں کئی حکومت نواز ملیشیاؤں کو گرفتار کیا۔تاجکستان سے تعلق رکھنے والے جنگجوؤں کے اس جہادی گروپ، جس کی قیادت تاجک قوم کے محمد شریفوف عرف مہدی ارسلان کر رہے ہیں، کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ بدخشاں میں خاص طور پر سرگرم ہے۔ایک اندازے کے مطابق اس گروہ میں 200 جنگجو موجود ہیں۔ریڈیو لبرٹی کی ازبک سروس ویب سائٹ نے جولائی سنہ 2021 میں بتایا کہ اس گروپ نے نومبر سنہ 2020 میں بدخشاں میں مقامی پولیس چوکی پر حملے میں 24 افغان سکیورٹی اہلکاروں کو ہلاک کیا تھا۔رپورٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ افغان طالبان نے تاجکستان کے ساتھ کئی سرحدی علاقوں کا کنٹرول گروپ کو دے دیا ہے۔سنہ 1990 کے دہائی میں تاجکستانی جنگجوؤں کی صفوں سے امیر الدین تبراف نے انصار اللہ نامی تنظیم تشکیل دی تھی جس کے ارکان افغانستان کی خانہ جنگی کے دوران پاکستان چلے گئے تھے۔ تبراف سنہ 2016 میں افغانستان میں مارے گئے تھے۔ یہ گروپ القاعدہ اور طالبان کے قریب بتایا جاتا ہے۔ایسٹرن ترکستان اسلامک موومنٹ (ای ٹی آئی ایم) یا ترکستان اسلامک پارٹی (ٹی آئی پی)، جو چین کے اویغور مسلمانوں کی علیحدگی پسند تنظیم ہے، کے افغان طالبان، آئی ایم یو اور القاعدہ سے روابط ہیں۔اس گروپ نے سنہ 1998 میں کابل میں اپنا ہیڈ کوارٹر کھولا جب طالبان نے افغانستان کے بیشتر حصے پر کنٹرول قبضہ کیا تھا۔جولائی سنہ 2020 میں اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ ای ٹی آئی ایم کے تقریبا 500 ارکان بدخشاں میں موجود ہیں جبکہ کچھ مزید پڑوسی صوبے تخار اور قندوز میں ہیں۔فروری سنہ 2018 میں امریکہ نے کہا کہ اس کے B-52 بمباروں نے بدخشان میں ای ٹی آئی ایم اور طالبان کے اڈوں کو تباہ کر دیا تھا۔ای ٹی آئی ایم کے نائب رہنما مصطفی نومی اْن چھ جنگجوؤں میں شامل تھے جو 30 مارچ سنہ 2018 کو بدخشاں کے ضلع جورم میں ایک فوجی آپریشن میں مارے گئے تھے۔یہ واضح نہیں کہ ای ٹی آئی ایم کے لیڈر، جسے عبدالحق کہا جاتا ہے، زندہ ہیں یا نہیں۔ مبینہ طور پر اس گروپ کے متعدد جنگجو شام میں بھی القاعدہ کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) جسے پاکستانی طالبان بھی کہا جاتا ہے، کی بنیاد سنہ 2007 میں رکھی گئی تھی اور یہ پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا اور شمالی اور جنوبی وزیرستان کے علاقوں میں سرگرم ہیں۔ ان کے کچھ ٹھکانے افغانستان میں بھی ہیں۔ٹی ٹی پی کے کئی رہنماؤں کی ہلاکتوں کے بعد، موجودہ لیڈر نور ولی محسود نے القاعدہ کی مدد سے گروپ کو دوبارہ منظم کیا اور متحد کیا۔افغانستان میں طالبان کی جیت نے اس گروپ کو ایک نیا عزم دیا ہے۔ 17 ستمبر سنہ 2021 کو ٹی ٹی پی نے پاکستانی حکومت کی ہم آہنگی اور عام معافی کی پیشکش کو مسترد کر دیا۔ حال ہی میں پاکستان میں ٹی ٹی پی کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ٹی ٹی پی حقانی نیٹ ورک اور القاعدہ کے قریب ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس نے حال ہی میں مشرقی افغان صوبے کنڑ کے ضلع غازی آباد پر قبضہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔