برکینا فاسو میں ایک سال میں دوسری فوجی بغاوت پر عالمی تشویش
اواگادوگو،اکتوبر۔فوجی اہلکاروں کے ایک گروہ نے جمعے کے روز بغاوت کے بعد سرکاری ٹی وی اور ریڈیو کا کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔ معزول فوجی رہنما کرنل دمیبا کے بارے میں معلوم نہیں کہ ان کیساتھ کیا سلوک کیا گیا۔مغربی افریقی ملک برکینا فاسو میں اس سالکی دوسری فوجی بغاوت کے بعد غیر یقینی کی صورتحال میںاضافہ ہو گیا ہے۔ جمعہ 30 ستمبر کو چند جونیئر افسران نے ملک کے فوجی لیڈر کو یہ کہتے ہوئے ان کے عہدے سے معزول کر دیا تھا کہ وہ ملک میں جہادی حملوں سے لڑنے میں ناکام رہے ہیں۔ دارالحکومت اواگاڈوگو میں ایک مہیب خاموشی ہے جہاں بکتر بند گاڑیوں اور پک اپ ٹرکوں میں سوار فوجیوں نے قومی ٹیلی ویڑن سینٹر کے گرد حفاظتی پہرہ بٹھا رکھا ہے۔ اس دوران سڑکوں پر ٹریفک آہستہ آہستہ دوبارہ بحال ہو گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ دوکانیں اور کاروبار بھی دوبارہ کھلنا شروع ہو گئے ہیں۔ اس سے قبل جمعے کے روز صدارتی محل کے گرد فائرنگ تازہ ترین بغاوت پر منتج ہوئی۔ فوجی اہلکاروں کے اس عمل کی وسیع پیمانے پر مزمت کی جا رہی ہے۔مغربی افریقی ریاستوں کے علاقائی اتحاد کی اقتصادی برادری نے اقتدار پر تازہ ترین قبضے کی ‘سخت ترین ممکنہ الفاظ میں مذمت‘‘ کی ہے، اور اسے ایسے وقت میں ‘نامناسب‘‘ قرار دیا ہے جب یکم جولائی 2024 ء تک اس انتہائی غربت کے شکار ملک کی آئینی نظام کی طرف واپسی کے لیے پیش رفت ہو رہی تھی۔برکینا فاسو کے سابق نوآبادیاتی حکمران ملک فرانس نے اواگاڈوگو میں اپنے چار سے پانچ ہزار کے درمیان شہریوں کو اپنے گھروں میں رہنے کی ہدایت کی ہے جبکہ یورپی یونین نے ان واقعات پر ‘تشویش‘‘ کا اظہار کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکہ نے ‘تمام فریقین سے سکون اور تحمل کی طرف واپسی‘‘کا مطالبہ کیا۔جمعے کے روز فوجی وردیوں میں ملبوس ایک درجن سے زائد افراد نے سرکاری ٹیلی ویڑن اور ریڈیو پر موجودہ فوجی لیڈر لیفٹیننٹ کرنل پال ہنری سانڈوگودمیبا کی برطرفی کا اعلان کیا۔ انہوں نے 34 سالہ کیپٹن ابراہیم ترور کو اپنا نیا لیڈر قرار دیا۔ ان وردی پوش فوجیوں نے اپنے بیان میں کہا، ‘ہم نے ایک ہی آئیڈیل کے تحت یعنی اپنے علاقے کی سلامتی اور سالمیت کی بحالی کے لیے یہ ذمہ داریاں سنبھالنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘ ایک تاجر اور کارکن حبیبتا روامبا نے ہفتے کے روز کہا، ‘دمیبا ناکام رہے۔ جب سے وہ اقتدار میں آئے، ان علاقوں پر حملہ کیا گیا جو پرامن تھے۔ انہوں(دمیبا) نے اقتدار سنبھالا لیکن پھر ہمیں دھوکہ دیا،‘‘ براعظم افریقہ میں ساحل کا زیادہ تر علاقہ بڑھتے ہوئے اسلامی عسکریت پسندوں کی بغاوت سے نبردآزما ہے۔ تشدد کے واقعات کے بعد مالی، گنی اور چاڈ میں 2020 ء سے بغاوتوں کا ایک سلسلہ شروع ہو رکھا ہے۔برکینا فاسو کے معزول فوجی لیڈر دمیبا نے جنوری کے مہینے میں منتخب صدر روچ مارک کرسچن کبور پر جہادیوں کو شکست دینے میں ناکام ہونے کا الزام عائد کرنے کے بعد خود کو 16 ملین آبادی والے ملک کے رہنما کے طور پیش کیا تھا۔ نئے طاقت ور فوجی لیڈر ابراہیم ترور اس سے قبل کایا کے شمالی علاقے میں عسکریت پسندوں کے خلاف اسپیشل فورسز یونٹ ‘کوبرا‘‘ کے سربراہ تھے۔ تاہم اس تازہ فوجی بغاوت کے بعد سے دمیبا کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہے کہ وہ کہاں پر ہیں۔2015 ء سے برکینا فاسومیں جاری لڑائی سے ہزاروں افراد ہلاک اور تقریباً 20 لاکھ بے گھر ہو چکے ہیں۔