یہ پاکستانی معاشرہ کا زوال نہیں تو پھر کیا ہے؟

عارف عزیز( بھوپال)

مادہ پرستی کا دور دورہ ہے،لوگوں کی اکثریت لوٹ کھسوٹ کے چکر میں ہے، بس اپنے اپنے دائرہ اختیار کی بات ہے جس کا جتنا بس چلتا ہے وہ اتنا ہی بڑا ہاتھ مارتا ہے۔ یقینا ہم اپنی اقدار فراموش کر چکے ہیں، ایک زمانہ تھا جب معاشرے میں موجود بدمعاشوں کے بھی اپنے قاعدے قوانین ہوتے تھے، وہ بھی نیک و بد میں تمیز روا رکھتے تھے، اپنے علاقے کے بچوں بچیوں کا بڑا خیال رکھتے تھے، اپنے محلے کے غریب لوگوں کی مدد کیا کرتے تھے، اب تو پاکستان کے اخبار دیکھئے تو اس طرح کی دو چار خبریں ضرور پڑھنے کو ملتی ہیں کہ موٹر سائیکل سوار بھرے بازار میں خاتون سے پرس چھین کر فرار ہوگیا۔ دن دہاڑے گھروں مین داخل ہوکر لوگون کو لوٹ لیا جاتا ہے۔ اب تو عورتیں بھی اس حوالے سے میدان عمل میں کود پڑی ہیں، یہ ٹولیوں کی صورت میں مختلف گلی محلوں میں پھرتی ہیں، کسی ایک گھر کو واردات کی غرض سے تاڑ لیتی ہیں اور پھر موقع ملتے ہی باقاعدہ دروازہ کھٹکھٹا کر اندر داخل ہوتی ہیں اور بڑی دیدہ دلیری سے واردات کرکے فرار ہوجاتی ہیں۔ اب یہ خبر بڑی عام ہوگئی ہے کہ ڈاکوؤں نے کسی خاتون کو اس کے پرس اور نقدی سے محروم کر دیا۔
جہالت کی انتہا یہ ہیکہ اگر کسی جگہ رشتے کے حصول میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑے تو لڑکی کے چہرے پر تیزاب ڈال دیا جاتا ہے۔ چوری چکاری،لوٹ مار کے واقعات مسلسل ہورہے ہیں، کبھی کبھی تو یہ خیال آتا ہے کہ آخر ایسا کیا ہوا ہے کہ پاکستانی اتنے ذلیل ہوگئے، اُن کے اخلاق تباہ ہوگئے،وہ اخلاقی طور پر کتنے گر چکے ہیں،خواتین کے کالج اور اسکولوں کے سامنے پڑھے لکھے نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد موجود ہوتی ہے۔ ان کے لئے راہ چلتی خواتین پر آوازے کسنا ان کی بے عزتی کرنا بڑی معمولی بات ہے، حالانکہ یہ وہی نوجوان ہیں جن کے اپنے گھروں میں مائیں بہنیں موجود ہوتی ہیں لیکن اس کے باوجود انہیں خواتین کی عزت کا کوئی خیال نہیں ہوتا۔ ایک پاکستانی خاتون یہ واقعہ سنا رہی تھیں کہ ایک مرتبہ وہ ایک لیڈی ڈاکٹر کے کلینک میں موجود تھیں کہ اچانک تین نوجوان لڑکے ڈاکٹر کے کلینک میں داخل ہوگئے، اس وقت خواتین کی ایک بڑی تعداد کلینک میں موجود تھی، سب کا یہی خیال تھا کہ شاید یہ کسی مریضہ کیساتھ آئے ہوں گے لیکن انہوں نے اچانک پستول نکال لئے اور خوتین سے کہا کہ خاموشی سے اپنے پرس اور سیل فون ان کے حوالے کر دیں۔ سب کو اپنی جان عزیز ہوتی ہے، کلینک میں موجود ملازمین بھی خوف کے مارے اپنی جگہ پر ساکت ہوگئے، اس لئے خواتین کو زیادہ حیرت نہیں ہوئی اور انہوں نے خاموشی سے اپنے سیل فون اور پرس ڈاکوؤں کے حوالے کر دیے لیکن اس وقت خواتین کو بڑا دکھ ہوا اور ان کی چیخیں نکل گئیں جب ڈاکوؤں نے ان کی کلائیوں سے سونے کی چوڑیاں زبردستی اتارنا شروع کر دیں۔ اسی طرح ان کے گلے میں پڑے ہوئے زیورات نوچنے کھسوٹنے لگے۔ جب ڈاکو یہ ظلم کرنے کے بعد چلے گئے تو خواتین کافی دیر تک رو رو کر یہی کہتی رہیں کہ ہم نے انہیں خود اپنے سیل فون اور پرس دے دئے تھے ان کے ہاتھوں میں پستول تھے،ہم کیا کرسکتے تھے، اگر وہ ہم سے زیورات بھی مانگ لیتے تو ہم انہں دے دیتے، لیکن اس طرح ہماری بے عزتی کرنے کا انہیں کوئی حق نہیں پہنچتا۔
آخر یہ بھی کسی ماں کے بیٹے ہیں، کسی بہن کے بھائی ہیں، ان کے نوجوانون کو کیا ہوگیا ہے کہ یہ اپنی ماؤں، بہنوں کے تقدس کو بھی بھول جاتے ہیں، ان کی نگاہوں میں رشتوں کی کوئی اہمیت نہیں رہتی، نفسانفسی کے اس دور میں اب کسی پاکستانی خاتون کی عزت محفوظ نہیں ہے، کسی کے ساتھ کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ جب معاشرہ پر بگاڑ آتا ہے تو سب سے پہلے سچائی شہید ہوتی ہے، اقدار تباہ ہوتی ہیں، مادہ پرستی کا دور دورہ ہوتا ہے، اخلاقیات کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہتا۔

 

Related Articles