کرونا کی نئی قسم اومیکرون‘، دیگر اقسام سے زیادہ مہلک
ڈبلیو ایچ او،نومب۔عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او نے جنوبی افریقہ میں پائے گئے کرونا وائرس کی نئی قسم B.1.1.529 کو’اومیکرون‘ نام دیا ہے۔ انتہائی تیزی سے پھیلنے والی کرونا کی اس قسم کے مدنظر مزید اعداد وشمار اکٹھا کرنے اور حالات پر نگاہ رکھنے کی اپیل کی ہے۔ڈبلیو ایچ او نے کورونا کی نئی قسم اومیکروں کے پہلی مرتبہ جنوبی افریقہ میں دریافت ہونے کے بعد اس کے تیزی سے پھیلنے کے ممکنہ خدشات کے مدنظر جنیوا میں جمعے کے روز ایک ہنگامی میٹنگ کی۔عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ اومیکرون کے حقیقی خطراب ابھی تک سمجھ میں نہیں آ سکے ہیں لیکن ابتدائی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ وائرس کے تیزی سے پھیلنے والی اقسام کے مقابلے میں یہ نئی قسم زیادہ تیزی سے دوبارہ مرض میں مبتلا کر سکتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ جو کووڈ 19میں مبتلا ہونے کے بعد صحت یاب ہو گئے ہیں وہ بھی اومیکرون کا شکار ہو سکتے ہیں۔ابھی اس بات کا بھی کوئی اندازہ نہیں ہے کہ موجودہ ویکسینز اس کے خلاف کتنی موثر ہیں اور اس کا پتہ لگانے میں کئی ہفتے لگ سکتے ہیں۔ڈبلیو ایچ او کا مزید کہنا ہے، اومیکرون کی متعدد اقسام ہیں اور ان میں سے بعض انتہائی تشویش ناک ہیں۔ اس نے تمام ملکوں سے کرونا وائرس کی اس نئی قسم پر زیادہ نگاہ رکھنے، اس کی تحقیق کرنے اور جانچ رپورٹوں سے آگاہ کرنے کی اپیل کی ہے۔ ڈبلیو ایچ او نے عوام سے بھی اس وائرس کے سلسلے میں زیادہ چوکنا رہنے کے لیے کہا ہے۔ڈبلیو ایچ نے کہا کہ کسی شخض کے اومیکرون سے متاثر ہونے کا پتہ اب بھی پی سی آر ٹسٹ ہی کے ذریعہ لگایا جائے گا یعنی کرونا وائرس کی جانچ کا موجودہ طریقہ کار کام کرتا رہے گا۔
جنوبی افریقا میں آئسولیشن:ڈبلیو ایچ او کی ترجمان کرسٹیان لنڈمیئر نے ملکوں سے فوری طورپر سفری پابندیاں عائد نہیں کرنے کی اپیل کی اور کہا کہ حکام کو خطرات پر مبنی اور ایک سائنسی اپروچ‘‘ اپنانے کی ضرورت ہے۔ لنڈمیئر کا کہنا تھا، اس وقت ہم سفری پابندیاں عائد کرنے کے خلاف ہیں۔‘‘تاہم اس کے باوجود کرونا وائرس کے نئے ویرینٹ کا پتہ چلنے کے بعد متعدد ممالک نے جنوبی افریقہ سے آمدورفت پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔جرمنی، امریکا، برطانیہ، اسرائیل،اٹلی، کینیڈا، یورپی یونین اور متعدد دیگر ملکوں نے جنوبی افریقی خطے کے سفر پر پابندیاں عائد کردی ہیں۔ روس نے بھی سفری پابندیاں عائد کردی ہیں۔ جنوبی افریقہ نے تاہم اسے جلد بازی میں اٹھایا گیا قدم قرار دیا۔جنوبی افریقہ کے ایک سرکاری عہدیدار نے بتایا کہ صدر سیریل رام فوسا نے اتوار کے روز کرونا کی وبا کے موضوع پر بات چیت کے لیے قومی کمان کونسل کی میٹنگ طلب کی ہے۔ کرونا وبا سے نمٹنے کے حوالے سے حکومت اسی کونسل کے فیصلوں پر عمل کرتی ہے۔امریکی صدر جو بائیڈن نے صحافیوں سے بات چیت کے دوران نئی سفری پابندیوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا یہ (نیا وائرس) تیزی سے پھیلنے والا لگتا ہے-میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم احتیاط سے کام لیں گے۔‘‘طبی ماہرین، جن میں ڈبلیو ایچ او کے ماہرین بھی شامل ہیں، نے خبردار کیا ہے کہ اومیکرون پر جامع تحقیق سے قبل ضرورت سے زیادہ ردعمل کا اظہار نہ کیا جائے لیکن عالمی سطح پر 50 لاکھ سے زیادہ افراد کی موت کا سبب بننے والی کرونا وائرس کی وبا کے پیش نظر پریشان حال دنیا خوف میں مبتلا ہے۔جرمن وزیر صحت ڑینس اشپاہن کا کہنا تھا جو آخری کام ہمیں کرنے کی ضرورت ہے وہ نئے ویرینٹ پر قابو پانا ہے۔‘‘ یورپی یونین کی صدر ارزولا فان ڈیئر لائن نے کہا، جب تک ہم اس نئے وائرس کے خطرے کو واضح طور پر نہیں سمجھ لیتے تب تک پروازیں معطل رہیں گی اور اس علاقے (جنوبی افریقہ) سے واپس آنے والے مسافروں کو قرنطینہ کے اپنے سخت قواعد کی پابندی کرنی چاہیے۔‘‘امریکا کے صحت کے صحت کے سرکاری ادارے کے وبائی امراض کے ماہر ڈاکٹر انتھونی فاؤچی کا کہنا تھا کہ ابھی اومیکرون کی امریکا میں موجودگی کی شناخت کرنا باقی ہے۔ہو سکتا ہے کہ یہ وائرس کی دوسری اقسام کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے پھیلنے والا اور ویکسینز کے خلاف مزاحمت رکھنے والا وائرس ہو۔انہوں نے کہا، ہم ابھی یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہہ سکتے۔‘‘