کرونا ویکسین کی لازمی پابندی: امریکی کمپنیوں اور ملازمین پر قواعد کا اطلاق کیسے ہوگا؟

واشنگٹن،نومبر۔بائیڈن انتظامیہ نے کرونا وائرس سے نمٹنے کے لئے امریکہ میں ایک سو سے زائد ملازمین کی حامل کمپنیوں اور کاروباری اداروں پر لازم کیا ہے کہ وہ اپنے ملازمین کو کرونا ویکسین لگوائے بغیر کام پر نہ آنے دیں۔ کرونا پر قابو پانے کے لئے ان نئے قواعد کا اطلاق درمیانے اور بڑے حجم کی کمپنیوں میں کام کرنے والے آٹھ کروڑ چالیس لاکھ ملازمین پر ہوگا۔اس مقصد کے لئے امریکی محکمہ محنت کے تحت 1970 میں ‘آکیوپیشنل سیفٹی اینڈ ہیلتھ ایڈمنسٹریشن’ یا اوشا نام سے قائم کئے گئے ادارے کو ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ کاروباری اداروں سے ان قواعد پر عمل درآمد کروائے۔ یہ ادارہ مزدوروں اور کارکنوں کے لئے ملازمت کی جگہوں پر محفوظ ماحول پیدا کرنے کے لئے قائم کیا گیا تھا۔صدر بائیڈن نے جمعرات کو نئے قواعد کی وضاحت کی اور اس پر عمل درآمد کی فوری اہمیت پر زور دیا، تاکہ مزید امریکی شہری ویکسین لگوا سکیں۔ اگرچہ کرونا وائرس کے نئے مریضوں اور اموات کی تعداد میں اس سال کے آغاز سے ہی بڑی کمی واقع ہوئی ہے لیکن یہ شرح اب بھی انتہائی خطرناک سمجھی جا رہی ہے، بالخصوص بعض علاقوں اور بعض صنعتوں کے اندر۔اب بھی روزانہ نئے کیسوں کی تعداد اوسطاً70 ہزار اور اموات کی شرح روزانہ اوسطاً 1200 ہے۔ صدر بائیڈن کا کہنا ہے کہ اب بھی بہت سے لوگ بنا ویکسین لگوائے رہ رہے ہیں اور یہ چیز ہمیں عالمی وبا سے چھٹکارا حاصل نہیں کرنے دے رہی۔امریکہ کی کئی ریاستوں نے جہاں ری پبلکن گورنرز موجود ہیں، ’آکیوپیشنل ہیلتھ اینڈ سیفٹی ایڈمنسٹریشن‘ کے ضابطوں کو عدالت میں چیلنج کرنے کے عزم کا اعادہ کر رہی ہیں۔ یہ ریاستیں ان اقدامات کو وفاقی حکومت کی جانب سے اختیارات پر غیر قانونی تسلط قرار دیتی ہیں۔ نئے قواعد کیا ہیں اور کمپنیوں اور ان کے ملازمین کے لیے ان کا کیا مطلب ہے، اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
نئے قواعد کیا تقاضا کرتے ہیں؟:ان قواعد کے تحت ایک سو یا اس سے زیادہ ملازمین رکھنے والی کمپنیوں کو اپنے ورکرز سے لازمی طور پر یہ تقاضا کرنا ہو گا کہ وہ کووڈ نائنٹین ویکسین کا کورس مکمل کریں یا ہر ہفتے کرونا کا ٹیسٹ کرائیں اور کام پر ہوتے ہوئے ماسک پہن کر بیٹھیں۔ یہ تقاضے ‘آکیوپیشنل سیفٹی اینڈ ہیلتھ ایڈمنسٹریشن’ کے تحت چار جنوری سے نافذالعمل ہوں گے۔ایک اور ضابطے کے تحت ایسے مراکز صحت جو امریکہ میں سستے علاج معالجے کے وفاقی پروگراموں ‘میڈی کئیر’ اور ‘میڈی کیڈ’ سے منسلک ہیں، ان کے لیے لازم ہو گا کہ ان کے کارکنوں نے ویکسین لگوا رکھی ہو۔ یہ قانون 76 ہزار مراکز صحت پر کام کرنے والے 17 ملین کارکنوں پر لاگو ہو گا۔ ان مراکز صحت میں ہسپتال اور طویل مدت نگہداشت کے مراکز شامل ہیں۔ لیکن ایسے کلینک جہاں ملازمین کی تعداد سو سے کم ہے وہ اس اصول کی پاسداری سے مبرا ہوں گے، کیونکہ ان پر وفاق کی ہیلتھ۔ اینڈ سیفٹی ریگولیشنز کا اطلاق نہیں ہوتا۔ملازمین کو ویکسین لگوانے کے لیے جو وقت دیا جائے گا اسے چھٹی تصور نہیں کیا جائے گا، یعنی اس وقت کے لیے انہیں تنخواہ دی جائے گی۔ صرف یہی نہیں بلکہ اگر انہیں ویکسین کے سائیڈ افیکٹس یا کسی بھی نوعیت کے اثرات سے نکلنے کے لیے بھی وقت درکار ہو گا، اس کی بھی تنخواہ دی جائے گی۔ ویکسین کے لیے درکار اخراجات امریکہ کی وفاقی حکومت ادا کرے گی۔ تاہم، ملازمین کو کرونا ٹیسٹ کے لیے رقم ادا کرنا ہو گی۔ وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ قوانین ریاستی قوانین سے بالاتر ہوں گے جو ان معیارات سے متصادم ہیں۔ بعض ریاستوں نے ان قواعد کے خلاف عدالت جانے کی دھمکی دی ہے۔
بائیڈن انتظامیہ ویکسین کی لازمی پابندی کیوں عائد کر رہی ہے؟:خبروں کے مطابق امریکہ کی آبادی میں تقریباً ستر فیصد افراد ویکسین کا کورس مکمل کر چکے ہیں۔ تاہم، اب بھی وائرس کو پھیلاو سے روکنے کے لیے یہ شرح کافی نہیں ہے۔ بالخصوص انتہائی تیزی سے پھیلنے والے ڈیلٹا وائرس کے خلاف۔امریکہ میں ساڑھے سات لاکھ امریکی کرونا وائرس کے سبب ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ اب بھی روزانہ دسیوں ہزاروں کی تعداد میں نئے کیسز سامنے آ رہے ہیں۔ ‘آکیوپیشنل سیفٹی اینڈ ہیلتھ ایڈمنسٹریشن’ یا اوشا کا اندازہ ہے کہ نئے قواعد کے اطلاق کے بعد چھ ماہ کے اندر چھ ہزار پانچ سو افراد کی زندگیوں اور اڑھائی لاکھ افراد کو ہسپتال داخل ہونے سے بچایا جا سکے گا۔
یورپ میں کرونا وبا پھر سر اٹھانے لگی، مسلسل پانچویں ہفتے کیسز میں اضافہ:ڈیوڈ مچلز ادارے کے سابق سربراہ اور جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں پروفیسر آف پبلک ہیلتھ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ملازمتوں کی جگہوں نے کرونا وائرس کے پھیلاو میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ ان کے بقول وہ ملازمین جو کام کی جگہ پر ایکسپوز ہوتے ہیں، وہ وائرس گھر لے کر آتے ہیں۔ وہ بچوں اور اپنے والدین کو متاثر کرتے ہیں۔ اور اپنی کمیونٹی کے لیے خطرہ بنتے ہیں۔
قواعد پر عمل درآمد کیسے ہو گا؟:اوشا (او ایس ایچ اے) کا کہنا ہے وہ کام کی جگہ پر نئے قوانین کا اطلاق اسی طرح کرائے گی جس طرح دیگر حفاظتی قواعد پر عمل درآمد کراتی ہے۔ اس بارے میں زیادہ تر انحصار ‘وسل بلوور’ یعنی شکایت کرنے والوں پر ہو گا اور محدود سطح پر مختلف جگہوں کی چیکنگ بھی کی جائے گی۔ لیکن اس سے مختلف ریاستوں کے اندر شراکت داروں کے پاس 1850 انسپکٹر ہی موجود ہیں جو ملک بھی میں 80 لاکھ مراکز صحت کی نگرانی کریں گے۔
ان قواعد سے استثنیٰ بھی موجود ہے؟:یہ قواعد ان ملازمین پر عائد نہیں ہوتے جو گھر یا دفتر سے اکیلے کام کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں ورکرز مذہبی یا طبی بنیادوں پر استثنیٰ کی درخواست کر سکتے ہیں۔
پرائیویٹ آجروں پر اس کا کیا اثر ہوتا ہے؟:یہاں صورتحال پیچیدہ ہے۔ اٹھائیس امریکی ریاستوں میں جو اوشا ریگولیشن پر عمل درآمد کرانے کو تیار ہیں، وہاں نئے قواعد سرکاری اور نجی آجرین پر عائد ہوں گے۔ ان ریاستوں اور علاقوں میں الاسکا، ایری زونا، کیلیفورنیا، کنیکٹیکٹ، ہووائی، الی نائے، انڈیانا، آئیووا، کینٹکی، مین، میری لینڈ، مشی گن، منی سوٹا، نیویڈا، نیو جرسی، نیو میکسیکو، نیو یارک نیو کیرولائنا، اوریگن، پورٹیریکو، ساوتھ کیلی فورنیا، ٹینیسی، یو ایس ورجن آئی لینڈز، یوٹا، ورماونٹ، ورجینیا، واشنگٹن اور وایمونٹ شامل ہیں۔باقی ریاستوں میں سرکاری ملازم ان نئے مینڈیٹ کے دائرہ کار میں نہیں آتے۔
ان نئے قواعد کے بارے میں کاروباری ادارے کیا کہتے ہیں؟:نئے مینڈیٹ یا ان قواعد کے دائرہ کار میں آنے والی کمپنیاں ملازمین سے محروم ہو سکتی ہیں۔ ایسی بڑی کمپنیوں سے لوگ ملازمتیں چھوڑ کر چھوٹی کمپنیوں میں ملازمت حاصل کر سکتے ہیں جہاں ویکسین کی لازمی پابندی کا اطلاق نہیں ہوتا۔ یہ چیلنج ایسے وقت میں پیدا ہو رہا ہے جب پہلے ہی کئی کاروباروں کو کام کے لیے ملازمین دستیاب نہیں ہو رہے ہیں اور ملازمین بڑی تعداد میں نوکریاں چھوڑ رہے ہیں۔غیر سرکاری ادارے کائزر فیملی فاونڈیشن کے گزشتہ ماہ کے ایک سروے کے مطابق ویکسین نہ لگوانے والے37 فیصد ورکروں کا کہنا ہے کہ اگر ان کے آجروں نے ان سے ہر ہفتے ٹیسٹ کرانے کا تقاضا کیا، تو وہ ملازمتیں چھوڑ دیں گے، اوراگر ٹیسٹنگ کا آپشن موجود ہی نہ ہوا، تو یہ تعداد ستر فیصد تک جا پہنچتی ہے
کیا ویکسین یا ٹیسٹ مینڈیٹ قانونی جنگ کا سامنا کر سکتا ہے؟:امریکہ بھر میں ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے گورنر ان قواعد کے خلاف عدالت میں جانے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ ریاست جنوبی کیرولائنا میں ری پبلکن اٹارنی جنرل ایلن ولسن نے اس پابندی کو ’’ کچرا قانون‘‘ قرار دیا ہے۔ انہوں نے جمعرات کو ایک ترجمان کے ذریعے کہا کہ ”یہ مینڈیٹ غیر آئینی ہے اور ہم اس کے خلاف لڑیں گے‘‘۔ابھی یہ واضح نہیں آیا جنوبی کیرولائنا اور دیگر ریاستیں جہاں حزب اختلاف کی ری پبلکن پارٹی ہے، وہ قانونی طور پر پیٹیشن فائل کریں گی یا نہیں۔

 

Related Articles