کروز شپس‘ ہالینڈ میں مہاجرین کی عارضی پناہ گاہیں
ایمسٹرڈم،اکتوبر۔ہالینڈ میں پہلے ہی رہائش کے مسائل ہیں اور یہ مسئلہ اب اس ملک میں آنے والے مہاجرین پر بھی اثر انداز ہو رہا ہے۔ ڈچ حکومت بڑے بحری جہازوں یا کروز شپس کے ذریعے رہائش کے اس مسئلے کو حل کر رہی ہے۔علی نے جب ایران سے ہجرت کی تھی تو انہیں اندازہ نہیں تھا کہ وہ یورپ میں ایک دن سلجا یوروپا‘ پر رہیں گے۔ سلجا یوروپا‘ چودہ عرشوں والا ایک بڑا بحری جہاز ہے۔ عام طور پر یہ تالین اور ہیلسنکی کے درمیان چلتا تھا۔ تاہم اب یہ ایمسٹرڈیم کے شمال میں لنگر انداز ہے۔ سلجا یوروپا شام اور یمن جیسے ممالک سے ہالینڈ آنے والے مہاجرین کی ایک عارضی پناہ گاہ ہے۔علی ایک ہفتے سے اس جہاز پر قیام پزیر ہیں اور آج انہیں پہلی مرتبہ اس جہاز کے عرشے سے اتر کر باہر جانے کی اجازت ملی ہے۔ موسم کے قدرے گرم ہونے کے باجود وہ جیکٹ پہنے ہوئے ہے۔ وہ دی ہیگ میں ایرانی حکومت کے خلاف ہونے والے ایک مظاہرے میں شرکت کرنے کے لیے باہر نکلے ہیں۔ انہیں ساتھ ہی یہ ڈر بھی ہے کہ کہیں اس کی مظاہرے میں شرکت ایران میں موجود ان کے اہل خانہ کے لیے کوئی مصیبت نہ کھڑی کر دے۔بحری جہاز پر موجود دیگر مہاجرین کی طرح علی کو بھی پہلے تیر آپل‘ نامی استقبالیہ مرکز پر اپنا اندراج کرانا پڑا تھا۔اس مرکز پر حد سے زیادہ رش تھا، جس کے وجہ سے علی کو دیگر تقریباً پانچ سو افراد کے ساتھ ایک ہفتے تک کھلے آسمان تلے سونا پڑا تھا۔ علی کے بقول، بارش ہو رہی تھی اور حالات سخت تھے۔ قریبی علاقوں کے لوگوں نے ہمیں ٹینٹ دیے، جس کے بعد ہم اپنی نیند پوری کر سکے اور آرام کر پائے۔ پھر جلد ہی ان چھوٹے خیموں پر بھی پابندی لگا دی گئی۔ وہاں موجود لوگ بیمار ہونا شروع ہو گئے تو پھر ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز جیسی غیر سرکاری تنظیمیں مدد کے لیے میدان میں اتریں۔‘‘علی کو ابھی فی الحال جہاز میں جو کیبن ملا ہے، اس میں ایک چھوٹا سا غسل خانہ ہے اور ایک بستر جہاں وہ آرام سے سو سکتیہیں۔ اس کے علاوہ اسے سلجا یوروپا پر گرم کھانا بھی مہیا کیا جاتا ہے۔اس جہاز کو رہائش کے لیے استعمال کرنے سے تاہم ان خبروں کا خاتمہ ہو گیا، جن میں لوگوں کو تیر آپل میں زمین پر سوتے ہوئے دکھایا جاتا تھا۔ ڈچ حکومت نے پہلے ہی بھانپ لیا تھا کہ مہاجرین کے آنے سے رہائش کا مسئلہ مزید شدت اختیار کر سکتا ہے اس لیے انہوں نے پناہ گزین مراکز میں ان سترہ ہزار افراد سے بستر خالی کرا لیے، جن کی سیاسی پناہ کی درخواست منظور ہو چکی تھی۔ساتھ ہی ڈچ حکومت نے دو بحری جہاز یا کروز شپس کرائے پر بھی لیے، جن میں ایک ہزار مہاجرین کو رکھا جا سکتا ہے۔ان میں سے ایک بحری جہاز فیلسن نارڈ میں لنگر انداز ہے اور یہاں کے پانچ ہزار مقامی افراد اس جہاز کی موجودگی سے کچھ خوش نہیں ہیں۔ جہاز پر جیسے ہی پہلے مہاجر نے قدم رکھا تو قریب موجود کمپنیوں نے عدالت سے رجوع کیا کہ ان کی وجہ سے صنعتی علاقہ غیر محفوظ ہو گیا ہے اور ان کے کام کی جگہ محدود ہو گئی ہے۔ تاہم جج نے یہ درخواست رد کر دی۔مہاجرین کو ولندیزی زبان سکھانے کا بندوبست کیا جاتا ہے اور انہیں ڈچ ثقافت کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔ مہاجر بچے فوری سکول جانا شروع کرتے ہیں۔ دوسری جانب دائیں بازو کے رہنما گیئر ولڈرز کی جماعت پی وی وی‘ کی جانب سے جہاز میں موجود سیاسی پناہ کے کچھ متلاشیوں کی ٹک ٹاک ویڈیوز شائع کر کے یہ تنقید کی جا رہی ہے کہ ان افراد کو کھانا دیا جا رہا ہے جبکہ ڈچ خاندانوں کو افراط زر کی وجہ سے اپنے اخراجات ادا کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔دیکھا گیا ہے کہ صرف ہالینڈ میں ہی نہیں بلکہ جرمنی میں بھی مہاجرین کو چھت فراہم کرنے میں دشواریاں پیش آ رہی ہیں۔ کورونا وبا کے دوران مہاجرین کی تعداد میں کمی آئی تھی تاہم افغانستان اور یوکرین کے حالات کی وجہ سے ان کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ایمسٹرڈیم اور فیلسن نارڈ میں لنگرانداز ان جہازوں کو بھی چھ ماہ بعد واپس کرنا پڑے گا تاکہ وہ اپنے معمول کے سفر پر دوبارہ روانہ ہو سکیں جبکہ مہاجرین کو نئے گھر تلاش کرنے ہوں گے۔