مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ ہے

عارف عزیز (بھوپال)

فرقہ پرست تنظیموں نے سماج کو مختلف خانوں میں تقسیم کرکے الیکشن میں فائدہ اٹھانے کو ایک مستقل حکمتِ عملی کے طور پر اپنا لیا ہے۔ جب بھی ملک یا ریاستوں میں الیکشن کا اعلان ہوتا ہے تو دو نعرے خاص طور پر لگائے جاتے ہیں، ایک ہندوؤں کی تبدیلیٔ مذہب کے لئے تحریک دوسرے مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ، اس مرتبہ بھی اترپردیش کے اسمبلی الیکشن میں دونوں موضوعات کو خوب بڑھا چڑھا کر اُبھارا گیا۔ یہاں تک کہ اس میں مرکزی وزراء نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مرکزی وزیر ریاست برائے داخلہ کرن رجیجو نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ملک میں ہندوؤں کی آبادی میں کمی آرہی ہے، کیونکہ ہندو دوسروں کے مذہب تبدیل کرا کے اپنی تعداد نہیں بڑھاتے، اس کے برعکس اقلیتوں کی آبادی یہ کام کرتی رہی ہے۔
حالانکہ ۲۰۱۱ء کی مردم شماری کے اعداد و شمار کے بموجب ملک میں ہندوؤں کی آبادی کا تناسب ۸ء۷۹ فیصد اور مسلمانوں کی آبادی کا تناسب ۲۳ء۱۴ فیصد رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق دونوں کی آبادی میں اِس اضافہ کے تناسب کا رجحان ایک دوسرے سے میل کھاتا ہے۔ حالانکہ تقریر بیانات اور سوشل میڈیا کے ذریعہ یہ بھرم پھیلایا جارہا ہے کہ یہی حالت رہی توملک میں مسلمانوں کی آبادی ہندوؤں سے زیادہ ہوجائے گی۔ جس میں کوئی سچائی نہیں کیونکہ ایک دہائی کے دوران مسلمانوں کی آبادی کی شرح بھی پہلے سے کم ہوئی ہے اور اس میں مزید تخفیف تعلیم میں کمی دور ہونے پر ہوجائے گی۔ یہ بھی ایک سچائی ہے کہ کیرالا میں مسلمانوں کی شرح پیدائش شمالی ہندوستان اور خود کیرالا کے ہندوؤں کے مقابلہ میں کم نوٹ کی گئی ہے، کیونکہ وہاں کے مسلمان اول تو زیادہ تعلیم یافتہ ہیں دوسرے آسام، مغربی بنگال، اترپردیش اور مہاراشٹر کے مسلمانوں سے زیادہ خوش حال ہیں۔ اس کی تائید یوں بھی ہوتی ہے کہ دلتوں اور آدیواسیوں میں آبادی کے اضافہ کا تناسب کافی زیادہ ہے اور ان کی ناخواندگی اور پسماندگی ہی اس کی بنیادی وجہ ہے۔
مذکورہ تفصیلات سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ فرقہ پرست عناصر کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف جو پروپیگنڈہ ہورہا ہے کہ ان کی آبادی ہندوؤں سے زیادہ ہوجائے گی اس میں سچائی نہیں ہے اور یہ باتیں ہندوآبادی کو مسلمانوں کے بڑھنے سے خطرات کا ہوا دکھا کر ان کے ووٹ اپنی طرف راغب کرنے کے مقصد سے ہورہی ہیں، الیکشن کے موقع پر خاص طور سے یہ خوف ابھارا جاتا ہے جیسا کہ اترپردیش کے حالیہ الیکشن میں نظر آیا اور اِس کی وجہ سماجی بھید بھاؤ بھی بڑھ رہا ہے۔

 

Related Articles