مائیکل ہسی کے سعید اجمل کو چھکے: ’والد نے کئی روز مجھ سے بات نہ کی، بیگم کو تنقید بھرے فون سْننے کو ملے‘
کراچی،اکتوبر۔سنہ 2010 کے ٹی ٹوئنٹی عالمی کپ کے سیمی فائنل میں بظاہر ہر چیز پاکستان کے حق میں جاتی دکھائی دے رہی تھی۔ 13ویں اوور میں جب ڈیوڈ ہسی آؤٹ ہوئے تو اْن کی جگہ کریز پر آنے والے اْن کے بڑے بھائی مائیکل ہسی تھے۔اْس وقت آسٹریلیا کا سکور پانچ وکٹوں کے نقصان پر 105 رنز تھا، یعنی آسٹریلیا کو سیمی فائنل جیتنے کے لیے اب بھی 45گیندوں پر 87 رنز درکار تھے۔سینٹ لوشیا کے سٹیڈیم میں پاکستانی ٹیم کے ڈگ آؤٹ میں بیٹھے کوچ وقار یونس اور دیگر کھلاڑیوں نے اس وقت سکون کا سانس لیا جب 17ویں اوور میں کیمرون وائٹ پانچ چھکوں کی مدد سے 43 رنز کی جارحانہ اننگز کھیل کر آؤٹ ہوگئے۔آسٹریلیا کو اس وقت بھی 21 گیندوں پر 53 رنز بنانے تھے لیکن کسے پتہ تھا کہ میدان میں ہوا دوسرے رْخ پر چلنے والی ہے۔مائیکل ہسی کے خطرناک ارادوں کی زد میں آنے والے پہلے بولر کپتان شاہد آفریدی تھے جن کے آخری اوور میں دو چھکے لگے۔ سعید اجمل کے تیسرے اوور میں اگرچہ سٹیو سمتھ کی وکٹ گری تھی لیکن مچل جانسن کے چوکے اور مائیکل ہسی کے چھکے نے آسٹریلوی امیدوں کو برقرار رکھا۔میچ کا 19واں اوور محمد عامر نے کیا جس میں بننے والے 16 رنز نے آسٹریلیا کو جیت سے 18 رنز کی دوری پر لا کھڑا کیا۔ آخری اوور کے لیے کپتان شاہد آفریدی کے پاس یہی ایک آپشن موجود تھا کہ وہ اپنے بہترین بولر سعید اجمل کو گیند دیں۔میڈیم پیسر عبدالرزاق کو گیند دینے کا خطرہ وہ اس لیے مول لینا نہیں چاہتے تھے کہ ان کے شروع کے دو اوورز میں 22 رنز بن چکے تھے۔سعید اجمل کے آخری اوور کی پہلی گیند پر مچل جانسن نے ایک رن لے کر مائیکل ہسی کو مقابلے پر لا کھڑا کیا۔اوور کی دوسری گیند پر مائیکل ہسی نے ْپل شاٹ کھیل کر گیند کو شائقین کے سٹینڈز میں پہنچا دیا۔ اگلی گیند پر انھوں نے یہی سلوک روا رکھا اس مرتبہ گیند لانگ آن کے باہر جا گری۔ سعید اجمل نے چوتھی گیند آف سٹمپ کے باہر کی جس پر مائیکل ہسی نے کٹ کیا، گیند بیک ورڈ پوائنٹ پر ہوا میں اچھلنے والے فیلڈر سلمان بٹ کے ہاتھ سے لگ کر باؤنڈری کی طرف چلی گئی اور یوں سکور برابر ہو گیا۔مائیکل ہسی نے اس میچ کو لانگ آن پر ایک اور چھکے کے ذریعے ِختم کر کے اپنی ٹیم کو فائنل میں پہنچا دیا۔آسٹریلوی کھلاڑی ڈگ آؤٹ سے میدان میں دوڑ پڑے۔ سعید اجمل مایوسی کے عالم میں بولنگ اینڈ پر بیٹھے تھے اور ساتھی کرکٹرز انھیں حوصلہ دینے میں مصروف تھے۔مائیکل ہسی نے پاکستان کو مسلسل تیسری مرتبہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے فائنل میں پہنچنے سے محروم کر دیا تھا بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ اس شکست نے پاکستان کو عالمی اعزاز سے محروم کر دیا تھا جو اس نے ایک سال قبل لارڈز میں جیتا تھا۔سعید اجمل کو اچھی طرح یاد ہے کہ اس میچ کے بعد غیر تو غیر اپنے بھی بدل گئے تھے۔سعید اجمل بی بی سی اْردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ٹورنامنٹ کے بعد جب میں گھر واپس آیا تو مجھے لوگوں کے منفی رویے کا سامنا کرنا پڑا۔ میرے اپنے محلے میں لوگ فقرے کستے تھے۔ میں گراؤنڈ میں اپنے خلاف نعرے سْنتا تھا۔ میرے اپنے گھر والے مجھ سے خفا تھے۔ بیگم کو تنقید بھرے فون سننے کو مل رہے تھے۔‘وہ بتاتے ہیں کہ ’میرے والد نے کئی روز تک مجھ سے بات نہیں کی۔ انھوں نے دو ٹوک انداز میں کہہ دیا کہ جو کچھ ہوا ہے اس کا جواب گراؤنڈ میں ہی دو گے تو تمہاری ساکھ بحال ہو گی ورنہ ساری زندگی یہ داغ لگا رہے گا۔‘سعید اجمل کہتے ہیں ’والد صاحب کی اسی بات نے مجھ میں نیا حوصلہ پیدا کر دیا اور میں نے پہلے سے زیادہ محنت کرنی شروع کر دی، یہ اسی محنت کا نتیجہ ہے کہ میں دنیا کا نمبر ایک بولر بھی بنا۔‘سعید اجمل کہتے ہیں ’لوگوں کو وہ ایک میچ تو یاد رہ گیا لیکن اس کے بعد میں نے کتنے میچ جتوائے یا مائیکل ہسی کے ساتھ جو کچھ کیا وہ کوئی یاد نہیں رکھتا۔ میں نے اس میچ کے بعد تین مرتبہ مائیکل ہسی کو آؤٹ کیا تھا۔‘سعید اجمل کہتے ہیں ’میچ ہارنے کے بعد ڈریسنگ روم کا ماحول یہ تھا کہ تمام کھلاڑیوں کے منھ لٹکے ہوئے تھے۔ کھلاڑیوں کو زیادہ افسوس اس بات کا تھا کہ آسٹریلیا کو ایک بڑا سکور کروا دیا۔‘سعید اجمل بتاتے ہیں ’جب میں ہوٹل پہنچا تو کچھ دیر بعد منیجر اور کوچ وقار یونس میرے کمرے میں آئے اور مجھے تسلی دینے لگے۔ وہ کہنے لگے کہ پریشان مت ہو تم نے اس سے پہلے جنوبی افریقہ کے خلاف میچ جتوایا تھا۔ وہ کہنے لگے ہمارے پاس آخری اوور کے لیے تم ہی بہترین آپشن تھے، کوئی دوسرا بولر نہیں تھا۔‘’میں نے انھیں جواب دیا کہ ٹھیک ہے لیکن آپ نے مجھے غلط اینڈ سے بولنگ دی جہاں سے تیز ہوا چل رہی تھی۔ میں نے اپنی پوری کوشش کی کہ میچ جتوا سکوں۔ وقار یونس کا کہنا تھا جو ہونا تھا وہ ہوگیا تم مثبت سوچ رکھو۔ اس ایک کارکردگی کی وجہ سے تم ٹیم سے باہر نہیں ہو سکتے۔‘سعید اجمل کہتے ہیں ’جب چوتھی گیند پر مائیکل ہسی نے چوکا لگایا تو میں سمجھ چکا تھا کہ بازی ہاتھ سے نکل گئی ہے۔ سلمان بٹ کی غلطی تھی کہ وہ سنگل روکنے کے لیے سرکل میں آگے آ گیا تھا حالانکہ یہ بات سب جانتے ہیں کہ اس وقت ہسی نے ایک رن تو بنانا نہیں تھا۔ اس روز ہماری قسمت نہیں تھی اور مائیکل ہسی کے لیے وہ دن بہت ہی اچھا تھا۔اس نے واقعی ایک غیرمعمولی اننگز کھیلی تھی۔‘سعید اجمل بتاتے ہیں ’جب میں ریٹائر ہوا تو مائیکل ہسی نے مجھے ایک ویڈیو پیغام بھیجا تھا چونکہ وہ ذاتی نوعیت کا تھا لہذا میں نے اسے سوشل میڈیا پر شیئر نہیں کیا۔ مائیکل ہسی نے یہ بات مجھ سے کہی تھی کہ جب مجھے آپ کے خلاف کھیلنا ہوتا تھا تو میں ساری رات یہی سوچتا رہتا تھا کہ صبح کس طرح آپ کی بولنگ کا سامنا کروں گا۔‘مائیکل ہسی نے اپنی اس شاندار اننگز کے بارے میں ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’انھیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ سعید اجمل جیسے بہترین بولر کے سامنے اٹھارہ رنز بنانا آسان نہ تھا۔ وہ ایسے بولر رہے ہیں جنھوں نے ان کے لیے ہمیشہ مشکلات پیدا کی ہیں۔‘مائیکل ہسی کا کہنا تھا کہ سب سے بڑا فائدہ انھیں یہ ملا تھا کہ اس گراؤنڈ میں لیگ سائیڈ کی باؤنڈری چھوٹی تھی اور ہوا بھی اسی جانب چل رہی تھی اور مجھے ہٹ مارنے میں آسانی رہی۔ ’شاہد آفریدی کی کوشش تھی کہ آسٹریلیا کو جتنا جلد ہو سکے اس میچ سے مکمل طور پر باہر کر دیں تاکہ آخری اوورز میں اسے جیتنے کے لیے زیادہ سے زیادہ رنز درکار ہوں۔‘’ایسی صورت میں پھر یہ نہیں دیکھا جاتا کہ آخری اوورز کون کرے گا۔ اگر اس وقت ہمیں پچیس چھبیس رنز آخری اوور میں بنانے ہوتے تو ہمارا کوئی چانس نہ ہوتا۔ محمد عامر نے انیسواں اوور بہت اچھا کیا تھا جس میں ہم خوش قسمت تھے کہ دو چوکے ہمیں مل گئے تھے۔‘مائیکل ہسی نے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے سیمی فائنل کی میچ وننگ اننگز سے صرف پانچ ماہ قبل سڈنی ٹیسٹ میں بھی پاکستانی ٹیم کے خلاف ناقابل شکست 134 رنز کی اننگز کھیلی تھی جس میں انھوں نے پیٹر سڈل کے ساتھ نویں وکٹ کی شراکت میں 123 رنز کا اضافہ کیا تھا۔لیکن اس سنچری کے لیے وہ وکٹ کیپر کامران اکمل کے شکرگزار تھے جنھوں نے دانش کنیریا کی بولنگ پر ان کے تین کیچ ڈراپ کر دیے تھے۔مائیکل ہسی کی اس اننگز کی بدولت آسٹریلوی ٹیم پاکستان کو 176 رنز کاہدف دے کر ٹیسٹ 36 رنز سے جیتنے میں کامیاب ہوگئی تھی۔