فکر اقبالؔ کی معنویت عصر حاضر میں

عارف عزیز (بھوپال)
علامہ اقبالؔ کے ناداں پرستاروں اور دانا دشمنوں نے انہیں ایک متنازعہ شخصیت کا درجہ دے دیا ہے، کسی کے نزدیک وہ شاعر کم اور مسلمان زیادہ تھے، کوئی انہیں پاکستان کا بانی اور تقسیم ہند کا ذمہ دار قرار دیتا ہے، حالانکہ اقبال کی فکر ونظر کا تجزیہ ان حالات کے پس منظر میں ہونا چاہئے، جن میں ان کی حیات کا بیشتر حصہ صرف ہوا، ’’فکر اقبال کی معنویت‘‘ پر روشنی ڈالنے سے قبل، یہ بتا دینا مناسب ہوگا کہ شاعرِ مشرق قومیت کے لحاظ سے ہندوستانی، مذہباً مسلمان اور خود کو عالمگیر انسان برادری کا ایک فرد مانتے تھے، ان کے زمانہ کا ہندوستان برطانوی استعمار کے زیر نگیں تھا، ان کا عہد ۱۸۷۷ء سے ۱۹۳۸ء تک کوئی ۶۱ سال پر مشتمل ہے، یہی وہ زمانہ ہے جس میں ہندو اور مسلمانوں کے درمیان انگریزوں کی طرف سے بوئے گئے تفریق کے بیچ برگ وبار لارہے تھے اور بعض سیاست دانوں کے طفیل دونوں فرقوں میں شدت پسندی بڑھ رہی تھی، مسلمان جہاں اپنی نشاۃ ثانیہ کے لئے سرگرم عمل تھے، وہیں ہندو بھی تنگ نظری کا شکار بن گئے تھے، اس ماحول وفضا میں جب انسان کو بحیثیت انسان نہیں، مختلف فرقوں اور گروہوں میں تقسیم کرکے دیکھا جارہا تھا، اقبال نے یہ کہہ کر مساواتِ انسانی کا درس دیا۔ ؎
ہوس نے ٹکڑے، ٹکڑے کردیا نوعِ انسانی کو
اخوت کی زباں ہوجا، محبت کی زباں ہو جا
اقبال نے فلسفہ کے ہندوستانی ذخائر کو خود چھانا اور دوسروں کو بھی اس سے فیضیاب کیا، انہوںنے محسوس کیا کہ اس ملک میں صدیوں سے دوسری قوموں کی آمد جاری ہے، ہون آئے، کشان آئے، دراوڑ آئے، آر ین آئے لیکن اس سرزمین نے سب کو اپنا لیا، بعد میں منوواد نے ہندوستانی سماج میں اثر ورسوخ حاصل کرکے ، تنگ نظری کو ہوادی تو معاشرہ نے دوسروں کو اپنے اندر سمونے کی صلاحیت کھودی، گوتم بودھ نے جو ہندوستان میں پیدا ہوئے، اس تنگ نظری کو توڑنا چاہا، لیکن برہمن ازم نے گوتم کی رواداری کو پنپنے نہیں دیا، یہانتک کہ اس مذہب کا دیس نکالا ہوگیا۔ اقبال اس عمل کو انسانیت کے خلاف قرار دیکر شاکی ہیں۔ ؎
قوم نے پیغام گوتم کی، ذرا پرواہ نہ کی
قدر پہچانی نہ، اپنے گوہر یک دانہ کی
برہمن سرشار ہے، اب تک مے پندار میں
شمع گوتم جل رہی ہے، محفلِ اغیار میں
اقبال کی وفات کو پون صدی ہوگئی ہے، اس عرصہ میں دنیا کے حالات میں کیا تبدیلی آئی اور یہ اقبال کے تصورات کے مطابق تھی یا برعکس، اس کا جائزہ کلام اقبال کو عہدِ حاضر کی روشنی میں سمجھنے میں مددگار ثابت ہوگا۔ دوسری طرف یہ اندازہ لگانے میں بھی کہ اقبال انسانی جذبات واحساس کے کتنے بڑے ترجمان ہیں۔ اقبال کے زمانہ میں نیو کلیر اسلحہ کا فروغ نہیں ہوا، پھر بھی انہوںنے افرنگ کو مشینوں کے دھوئیں سے سیہ پوش دیکھ لیا، اور اس کے نتائج انسانی زندگی پر جس طرح نمودار ہورہے تھے، اس سے لوگوں کو خبردار بھی کیا ؎
بہت دیکھے ہیں میں نے، مشرق ومغرب کے میخانے
یہاں ساقی نہیں پیدا، وہاں بے ذوق ہے صہبا
لبالب شیشۂ تہذیب حاضر ہے، مئے لاسے
مگر ساقی کے ہاتھوں میں نہیں پیمانہ الا
اقبال مادی ترقیات کے خلاف نہیں تھے لیکن ان کو یہ تشویش ضرور تھی کہ تہذیب عصر، بالخصوص مغربیت ایک خود رو جنگل کی طرح پھیل رہی ہے۔ جس کا کوئی مرکز ِ ثقل نہیں ہے، اگر یہ ترقی انسانیت کی سربلندی کیلئے ہوتی تو منشائے فطرت کے عین مطابق تھی، لیکن یہ انسانیت کے زوال کو ظاہر کرتی ہے ، اوپر کی طرف دیکھنے کی ترغیب نہیں دیتی بلکہ اس میں روک بنتی ہے، جس کا نتیجہ یہ برآمد ہورہا ہے کہ انسان کی بے تعلقی ، خلقی رشتوں کی سرد مہری اور ایک قسم کی بے کیفی زندگی کا مظہر بن چکی ہے ؎
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ خود کشی کریگی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائیدار ہوگا
اقبال کے زمانے میں مغربی دنیا کی نمائندگی سلطنت برطانیہ کرتی تھی، مغرب کے تعلق سے اقبال کے تمام افکار ونظریات اس ملک کی تہذیب وتمدن کے حوالے سے ہیں، لیکن عصر حاضر میں مغربی تہذیب کا مرکز ثقل امریکہ بن گیا ہے، جہاں کی روز افزوں صنعتی وزرعی پیداوار کے باوجود، امریکی سیاہ فام آج زندگی کی آرام وآسائش سے محروم ہیں ، اس کے برخلاف سفید فام امریکی، زندگی کی لایعنیت اور عدم تحفظ کے احساس سے مختلف تنائو میں گرفتار ہے، امریکہ کی معیشت کا انحصار اسلحہ سازی پر ہے، اسکے لئے یہ ضروری ہے کہ جو اسلحہ تیار ہو، وہ فروخت بھی ہوجائے، اس غرض سے دنیا کے مختلف علاقوں میں سردجنگ اور کبھی کبھی گرم جنگ کا ماحول پیدا کیا جاتا ہے، بالفاظ دیگر انسان اور انسان کے درمیان نفرت، حقارت ا ور دشمنی کو پروان چڑھا کر ، قتل وغارتگری کا بازار گرم کرتے رہنا امریکی ڈپلومیسی کی بنیاد ہے۔ اس کے بغیر وہاں کی معیشت اپنے پیروں پر کھڑی نہیں ہوسکتی، اقبال جب کہتے ہیں ؎
ظاہر میں تجارت ہے، حقیقت میں جوا ہے
سود ایک کا لاکھوں کیلئے مرگِ مفاجات
تو وہ اس مہلک حکمتِ عملی کو ہدف بناتے ہیں، جس کی نمائندگی آج امریکہ کے ذریعہ ہورہی ہے اور اس کی سب سے زیادہ زد تیسری دنیا کے عام انسان اور پوری انسانیت پر پڑرہی ہے۔
شعرِ اقبا ل میں آزادی کو انسانی زندگی کی فلاح وترقی کے لئے لازم قرار دیا گیا ہے ۔ اقبال کے خیال میں جہاں آزادی نہیں، وہاں زندگی کی قوت برقرار نہیں رہ سکتی، غلامی انسان کی متعدد خوبیوں کو فنا کردیتی ہے اورآزادی سے محرومی گویا انسانیت سے محرومی ہے، اسی طرح اقبال محبت کو جوانسانیت ، اخوت اور رواداری کی روح ہے، دنیا کے فتح کرنے کا وسیلہ قرار دیتے ہیں، انہوں نے افراد اور اقوام کی زندگی میں ترقی وکامیابی کے ضامن تین اصولوں کو نشاندہی کی ہے اول یقین محکم، دوم عمل پیہم اور سوم محبت جو فاتح عالم ہے اقبال کے الفاظ میں ع
محبت ہی سے پائی ہے ، شفا بیمار قوموں نے
شاعر مشرق کے نزدیک انسان کسی بھی نسل، فرقے یا جماعت سے تعلق رکھتا ہو، اس سے امتیاز برتنا جرم ہے کیونکہ اس انسان کو وجود بخشنے والا ایک ہے، جب اس نے بنی نوع انسان کے لئے ہوا ، پانی، غذا اور روشنی کے انتظام میںکوئی تفریق نہیں برتی اور یکساں طور پر سب کے لئے اس کو مہیا کیا تو انسانوں کے لئے یہ کیونکر مناسب ہے کہ وہ باہم تفرقہ اندازی سے کام لیں، اس کا پیغام، پیغمبروں، اوتاروں، مصلحوں اور بزرگوں نے بھی دیا ہے ؎
شکتی بھی شانتی بھی، بھگتوں کے گیت میں ہے
ہم دیش واسیوں کی مکتی، پریت میں ہے
اقبال اپنے اشعار کے ذریعہ جس خودی کی تعلیم دیتے ہیں، وہ صرف مسلمانوں کے لئے نہیں، تمام انسانوں کیلئے ہے، ان کے نزدیک انسان کی خودی کی تکمیل مذہب کی اعلیٰ قدروں میں مضمر ہے، اسی لئے اقبال نے اپنی شاعری کا موضوع انسان کو بنایا ہے اور انسانیت کے مسائل حل کرنا وہ اپنی شاعری کا مقصد قرار دیتے ہیں، ایک ایسے عہد میں، جب قومی و وطنی عصبیت کا بول بالا ہے، ایک ملک کا انسان، دوسرے ملک کے انسان کو گوارہ نہیں کرتا اور ایک فرقہ، دوسرے فرقہ کے خون کا پیاسا نظر آتا ہے، اقبال نے پوری جرأتمندی کا مظاہرہ کرکے اس رویہ کو ننگِ انسانیت قرار دیا ہے؎
یہی آدم ہے سلطان، بحرو برکا
کہو کیا ماجرا، اس بے بصر کا
نہ خود بیں، خدابین جہاںبیں
یہی شہہ کار ہے، تیرے ہنر کا
کلام اقبال میں انسانیت کی معراج کا سب سے بڑا مرقع اور دنیائے شاعری کا عظیم تر شاہکار ’’جاوید نامہ‘‘ میں پیش کیا گیا ہے، ’’جاوید نامہ‘‘ کی بامعنی تمہید کے بعد اقبال افلاک کی سیر کراتے ہیں اس میں بلا امتیاز مذہب وملت دنیاکے مختلف حصوں میں رونما ہونے والے اہم واقعات، موضوعات اور شخصیات کو ایسی بصیرت کے ساتھ زیر بحث لاتے ہیں کہ انفس وآفاق سب روشن ہوجاتے ہیں، اس کا یہ شعر تو آفاقی شاعری اور انسان دوستی کے دستاویز کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ؎
آدمیت احترام آدمی
باخبر شواز مقام آدمی
کلام اقبال کی ان ہی وسعتوں کا مطالعہ کرنے سے احساس ہوتاہے کہ اس نے بیسویں صدی ہی نہیں ، اکیس وی صدی کو کتنا کچھ دیا ہے ’’بانگ درا‘‘ ’’بال جبریل‘‘ ’’ضرب کلیم‘‘ اور ’’ارمغان حجاز‘‘ کے صفحات میں موجود اردو وفارسی کلام یا یادگار خطبات، دل کو چھولینے والا ’’ترانہ ہندی‘‘ ’’ہندوستانی بچوں کا قومی گیت‘‘ ’’گوتم بدھ‘‘ ’’شری رام‘‘ ’’گرونانک‘‘ اور’’ سوامی تیرتھ‘‘ جیسی روحانی ہستیوں کو خراج عقیدت ، ’’گائتری منتر‘‘ کا شستہ اردو میں ترجمہ اور ’’برہمن سے خطاب‘‘ انتہائی بصیرت افروز اور سبق آموز ہیں، جو ہمارے دل کی گہرائیوں میں اتر جاتے ہی۔
ہر بلند پایہ تخلیق کار کی طرح اقبال کو بھی ترسیل وابلاغ کی تنگ دامنی کا احساس ہے، اس سے پہلے غالب بھی یہی گلہ کرتے نظر آتے ہیں، اسی میں ان دونوں شاعروں کی عظمت کا راز پنہاں ہے، لیکن اقبال کا یہ امتیاز ہے کہ وہ اپنے فکر وفن کے ذریعہ ماضی کو حال میں پیوست کردینا چاہتے ہیں، تاکہ انسانی زندگی کی وحدت میں قوت وتاثیر پیدا ہو اور شرفِ انسانی کی جڑیں زیادہ گہری ومستحکم ہوجائیں، اس کوشش کو وہ کھوئے ہوئے کی جستجو سے تعبیر کرتے ہیں، ان کے خیال میں ماضی کے واقعات وحوادث کے اسباب وعلل کو سمجھنے اور ان کے باہمی ربط وتعلق کو جاننے نیز اس کی روشنی میں افراد واقوام کے عروج وزوال کے اصول اخذ کرنے کا مفہوم بھی اس میں شامل ہے، اقبال نے دنیا میں جاری نظاموں کا بغور مطالعہ کیا ہے، ان نظاموں کی خوبیاں وخرابیاں آشکارا کرکے بتایا کہ جب فرد کا فرد کے درمیان فاصلہ باقی نہ رہے تو معاشرہ ایک خود کار مشین میں ڈھل کر ارتقا کے پورے سلسلہ کو منقطع کردیتا ہے، اسی طرح جب فرد اور فرد کے درمیان کا فاصلہ بہت زیادہ بڑھ جائے تو بکھرنے اور لخت لخت ہونے کا عمل وجود میں آتا ہے نیز ایک ایسا استحصالی نظام جنم لیتا ہے، جس میں بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو نگل جاتی ہے، اقبال نے انسانوں کے لئے ایک ایسے سماج کا خواب دیکھا، جس میں توازن ہو، عشق کے ساتھ عقل مل کر ارتقاء کی طرف گامزن رہے، ان کے نزدیک یہی انسانیت کی معراج ہے، اقبال کی فکر کا سرمایہ تقریباً بیس ہزار اشعار پر محیط ہے اور اشعار کی بڑی تعداد ایسی ہے جو آفاقی نوعیت کے حامل ہے۔ انہیں کسی خاص عہد کے تناظر میں نہیں سمجھا جاسکتا، حقیقت یہ ہے کہ اقبال کے اشعار معنوی لحاظ سے اپنے عہد میں جتنے اہم تھے، اتنے ہی آج بھی ہیں اور آج سے زیادہ کل ہونگے، یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پر فکرِ اقبال کی اہمیت ومقبولیت وقت کے ساتھ بڑھتی جارہی ہے۔

 

Related Articles