غربت کی تاریخ اور سرمایا درانہ نظام

واشنگٹن،نومبر۔تہذیب کی ترقی کے ساتھ انسانی معاشرے طبقات میں منقسم ہوئے۔ امیر اور غریب کے درمیان فرق بڑھا۔ ایک طرف مراعات یافتہ طبقہ مزید طاقتور ہوا تو دوسری طرف نچلا یعنی محروم طبقہ غربت اور مفلسی کی دلدل میں مزید دھنستا چلا گیا۔مراعات یافتہ یا حکمران طبقہ پیداواری عمل میں شریک نہیں ہوتا تھا جبکہ نچلے طبقے کے لوگ جن میں غلام کسان مزدور اور کاریگر شامل ہوتے تھے وہ اپنی محنت سے پیداواری عمل کو آگے بڑھاتے تھے لیکن حکمران طبقہ ان کی پیداوار کو ہتھیا کر ان کو مفلس اور غریب کر دیتا تھا اور ان کی محنت سے کمائی پیداوار پر اپنی شان و شوکت کو قائم رکھتا تھا۔سوسائٹی کے یہ محروم طبقے اپنی کمزوری کی وجہ سے ظلم اور نااِنصانی کو برداشت کرتے تھے، لیکن جب ظلم حد سے زیادہ بڑھ جاتا ہے تو محروم طبقہ بغاوت کر کے اپنی غربت اور محرومی کا اظہار کرتا ہے۔ حکمران طبقہ ان بغاوتوں کو سختی سے کچلنے کی ہر ممکن کوشش بھی کرتا ہے۔ اس لیے ماضی کی بغاوتوں کے نتیجے میں یہ اپنی محرومی کو ختم نہیں کر سکے، لیکن یہ ضرور ہوا کہ حکمران طبقے نے بغاوت کی وجہ سے ان کے خلاف سخت پالیسی اختیار کی۔طاقت سے نچلے طبقے کو وفادار رکھنے کے علاوہ انہیں مذہبی عقیدے کے تحت بھی ذہنی طور پر غربت میں رہنے کے لیے تبلیغ کی گئی اور غربت کو محرومی کے بجائے اسے باوقار بنایا گیا۔جیسے بدھ مذہب کے بخشو گھر گھر جا کر کھانا لیتے تھے اور پھر خانقاہوں یا غاروں میں جا کر سارا وقت عبادت کرتے تھے۔ وہ غربت کو روحانی درجات بلند کرنے کے لیے ضروری سمجھتے تھے۔ خود سے کام کر کے اپنی روزی نہیں کماتے تھے۔غربت کی وجہ سے معاشرے میں یہ روحانی اثرورسوخ کی وجہ سے مقدس ہو جاتے تھے۔ ان کو خیرات دینے والے بھی ان کو کھانا کھلا کر ثواب حاصل کرتے تھے۔مسحیت میں بھی غریبوں کو امیروں پر ترجیح دی گئی ہے۔ مثلاً یسوع مسیح کے قول کے مطابق امیروں کا جنت میں داخل ہونا ایسے ہی ہے جیسے کسی اونٹ کا سوئی کے ناکے سے نکلنا یہاں وہ غریبوں کو جنت کی خوشخبری دیتے ہیں۔یہی وجہ تھی کہ مسحیت میں کئی ایسے فرقے پیدا ہوئے، جنہوں نے غربت کی زندگی اختیار کر کے عام لوگوں کی خدمت کو اپنا شعار بنایا۔ اس کی ایک مثال Saint Francis of Assis کی ہے جس کا تعلق ایک امیر گھرانے سے تھا مگر اس نے مذہب کی تعلیمات سے متاثر ہو کر غربت کو اختیار کیا اور ایک دن چرچ میں جاکر اپنا امیرانہ لباس اتار پھینکا اور غریبانہ کپڑوں میں ملبوس ہو گیا۔ Assis فرقے میں لوگ شامل ہوتے رہے جو غربت کی زندگی گزارتے تھے اور غریب لوگوں کی خدمت کرتے تھے۔ ان کے اس عمل نے غربت کو قابل احترام بنا دیا۔اسلامی دنیا میں غربت کو ختم کرنے کے لیے صدقہ خیرات کو اختیار کیا گیا مگر اس عمل سے غریب امیر کی سرپرستی کا محتاج رہا اور غربت نے اسے احساس کمتری میں مبتلا رکھا۔دوسرے مذاہب میں بھی غربت کو ختم کرنے کا کوئی طریقہ اختیار نہیں کیا گیا اور جب وہ امراء کا محتاج ہوا تو اس کی عزت اور وقار کا بھی خاتمہ ہو گیا، اگرچہ مذہب نے غربت کو باعزت بنانے کی کوشش ضرور کی مگر وہ اس میں ناکام رہا۔غربت کو قناعت اورصبر کے ساتھ اختیار کرنے میں یونان کے فلسفی Epicurus کا کردار اہم ہے۔ جس کے فلسفے کی بنیاد یہ تھی کہ انسان کو سادہ زندگی گزارنا چاہیے۔ وہ خود اپنے ساتھیوں کے ساتھ اپنے باغ میں رہتا تھا۔ اس کی غذا روٹی اور زیتون کا تیل ہوتا تھا اگر کبھی پنیر آجاتا تھا تو اس کے لیے یہ ایک عیاشی تھی۔وہ اپنے فلسفے کی بنیاد پر غربت کو مسرت اور خوشی کا سبب سمجھتا تھا۔ اس کے نزدیک زندگی جس قدر سادہ ہو گی اسی قدر انسان کو اطمینان اور سکون ملے گا۔ لہٰذا غربت اذیب کا سبب نہیں اس کو اختیار کر کے زندگی کو دنیاوی الجھنوں سے آزاد کرایا جا سکتا ہے۔ہر دور میں ایسے دانشور اور سیاسی اور سماجی کارکن رہے ہیں، جنہوں نے رضا کارانہ طور پر اور شعور کے ساتھ دنیاوی سہولتوں اور زندگی کے آرام کو ترک کر کے غربت کو اختیار کیا تاکہ اپنی صلاحیتوں سے نچلے اور کچلے ہوئے طبقوں کی زندگی کو بہتر بنایا جا سکے۔اس کی ایک مثال Marx Karlکی ہے، جس نے برلن یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری لی اور جرمنی کی ایک امیر خاتون سے جس کا نام Jaini تھا سے شادی کی اور متوسط زندگی گزارنے کو ترجیح دی۔اس کی ساری زندگی اسی جدوجہد میں گزری کہ ایسا نظام قائم کیا جائے کہ جس میں غریبوں اور پرولتاریوں کو انصاف مل سکے۔ اسے جرمنی، فرانس اور بلجیم سے نکالا گیا اور آخر میں وہ لندن جاکر رہائش پذیر ہوا۔اس کی پوری زندگی انتہائی غربت کی حالت میں گزری۔ وہ کرائے کے مکانوں میں رہا۔ جب اس کے بچے مرے تو ان کے کفن دفن کے لیے بھی اس کے پاس پیسے نہیں تھے۔ ایک دفعہ فاقے سے مجبور ہو کر اس نے اپنے کپڑے اورجوتے رہن رکھ دیے تھے۔ایک بار اس نے یہ کوشش بھی کی کہ برٹش ریلوے میں ملازمت کرے یہاں وہ اس لیے ناکام ہوا کیونکہ اس کا رسم الخط انتہائی خراب تھا۔ اس کے فرنیچر اورگھر کے بارے میں اس کے ایک دوست نے لکھا ہے کہ اس کے کمرے میں تین کرسیاں تھیں۔ ایک پر وہ خود بیٹھتا تھا، دوسری اس کے بچوں کے لیے اور تیسری مہمانوں کے لیے ایک مرتبہ جب وہ مکان کا کرایہ نہیں دے پایا تو اس کا مالک مکان عدالت سے بیلف لے آیا جو اس کا سارا سامان لے گئے اور اس کی بیوی نومولود بچے کو لے کر فرش پر بیٹھی رہی۔مارکس کا دوست Engels Friedrieh اس کے مشکل وقت میں مالی امداد کرتا رہا اور مارکس اس غربت اور پریشانی کے باوجود برٹش میوزیم میں بیٹھا اپنی کتاب Kapital” "Das کے لیے مواد جمع کرتا رہا۔ اس غربت کے باوجود مارکس نے دنیا کے مظلوموں کے لیے وہ فلسفہ دیا جس نے اس دنیا کو بدل ڈالا اور آج بھی مارکس اپنے فلسفے کی وجہ سے زندہ ہے۔شاید یہ 1974ء￿ کی بات ہے کہ میں اور نثار شریف دونوں ہائی گیٹ قبرستان کی جانب چلے، جب ہم نے ایک راہگیر سے پوچھا کہ اس کا مین گیٹ کہاں ہے تو اس نے مین گیٹ کا تو بتایا مگر ساتھ ہی یہ بھی پوچھا کہ کیا آپ لوگ کمیونسٹ ہیں۔ہائی گیٹ کے قبرستان میں جہاں مارکس کی قبر ہے وہاں سو سے لے کر ڈیڑھ سو تک لوگ روزانہ آتے ہیں اور اس کی قبر پر تازہ گلاب کے پھول رکھے ہوتے ہیں۔ وقت کے گزرنے کے باوجود لوگوں نے مارکس کو بھلایا نہیں اس نے اپنی غربت کے باوجود جو فلسفہ تخلیق کیا اس نے اس دنیا کو بدل ڈالا۔ہندوستان میں بھی ہمیں ایسے افراد ملتے ہیں کہ جنہوں نے غربت کو اختیار کر کے خود کو لوگوں کی خدمت کے لئے وقف کر دیا تھا۔ حضرت موہانی ایک ایسی ہی شخصیت تھے جنہوں نے سیاست میں آکر غریبانہ زندگی کو اپنایا وہ ہمیشہ ریلوے کے تھرڈ کلاس میں سفر کرتے تھے اور اپنے ہزاروں معتقدین کے باوجود اور سیاست میں اعلیٰ مقام حاصل کرنے کے بعد بھی غربت کو نہیں چھوڑا۔اگرچہ گاندھی جی بھی تھرڈ کلاس میں سفر کرتے تھے، مگر ان کے ڈبے کو پہلے دھویا جاتا تھا اور اس کی سیٹوں کو آرام دہ بنایا جاتا تھا تاکہ گاندھی جی کو کوئی تکلیف نہ ہو۔ اس پر سروجنی نائی دو نے کہا تھا کہ گاندھی جی کو غریب رکھنے پر وہ ہزاروں روپے خرچ کرتے ہیں۔غربت کو دور کرنے کے لیے کئی طریقوں کو استعمال کیا گیا۔ جیسے انگلستان میں ورک ہاؤسز کا قیام عمل میں آیا کہ جہاں غریبوں سے کام کرایا جاتا تھا اور اس کے معاوضے میں انہیں کھانا دیا جاتا تھا، لیکن ان ورک ہاؤسزکی حالت بہت خراب تھی اس وجہ سے بعد میں انہیں ختم کر دیا گیا۔فرانس میں بھی 1830ء کی دہائی میں ورکرز کے لیے نیشنل ورکشاپس قیام عمل میں آیا مگر یہ منصوبہ بھی ناکام رہا۔ انگلستان نے اپنے ملک کو غریبوں سے پاک رکھنے کے لیے انہیں امریکا، آسٹریلیا اور جزائر غریب الہند میں بھیج دیا۔ امریکا میں آج تک افریقی غربت کا شکار ہیں۔پاکستان میں بھی سیاست دان غربت کو اپنے سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جیسے روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ، پھر ایسی سیکمیں بنائی جاتی ہیں جنہیں سپوٹ سکیم کہا جاتا ہے لیکن یہ سارے طریقے غربت کو ختم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ غربت کا خاتمہ اسی وقت ہو گا جب ریاست کے نظام کو مکمل طور پر بدل کر امیر و غریب کے فرق کو ختم نہ کیا جائے گا۔ خیرات، صدقے اور سپورٹ سکیموں سے دنیا میں کبھی بھی غربت کا خاتمہ نہیں ہوا۔

Related Articles

Check Also

Close