عکس برعکس

تحریر: صبا زبیری۔۔۔لندن

رات کی تاریکی شر کو جنم دیتی ہے اور گناہ کے پودے میں شگوفے پھوٹنے لگتے ہیں کچھ شگوفے اتنے طاقتور ہوتے ہیں کہ دن کے اجالوں کو بھی نگل جاتے ہیں، قوموں کی زندگی میں معاشرہ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، کسی معاشرہ کا بننا، ٹھہرنا اور پھر زوال پذیر ہو جانا دنوں یا مہینوں نہیں بلکہ برسوں پر محیط ہوتا ہے، تقاضا یہ تھا کہ ایک نئے معاشرے کی بنیاد ڈالی جائیلیکن ممکن نہ ہوسکا جس عمارت کی بنیادیں ہی کمزور ہوں اس کی تعمیر کیونکر مضبوط ہو سکتی ہے، لہذا آج اگر ہم معاشرہ کے موجودہ مسائل کی فہرست تیار کریں تو کتنے ہی مسائل ہیں جو ہمیں عادتاً اور عملاً دونوں طرح سے نظر آتے ہیں، باالخصوص خصوصی مسائل جواب عمومی روپ دھار چکے ہیں ان میں سرفہرست جھوٹ، دھوکہ، فریب، قتل و غارت اورعصمت دری ہیں اور بھی کتنے ہی ایسے مسائل ہیں جو جرائم کی فہرست میں آتے ہیں جن پر بندھ باندھنا ناگزیر ہے، آج کے عصری مسائل میں عصمت دری نے جو طوفان برپا کر رکھا ہے اس نے پورے معاشرے کو تہس نہس کرکے رکھ دیا ہے۔گویادن کے اجالے میں ہے رات کا سناٹا،رات کی تاریکی میں ایک مخصوص طبقے میں شر پھیلانے والے مردوں نے عام معاشرے میں شیطانیت کا جو برہنہ کھیل کھیلنا شروع کیا ہے، آج تک سمجھنے سے قاصر ہوں کہ وہ کون سی خواہش ہے جو معصوم بچیوں، بچوں، خواتین اور خسروں سے بھی نہیں ختم ہوتی، لاقانونیت عروج پر ہے، جنگل کے قانون میں ایک ٹی وی چینل پر ایک ادھورے انسان کا انٹرویو دیکھا، جب تک گناہوں میں لت پت تھا نوٹوں کے بستر پر سوتا تھا، جب ہدایت پائی تو فاقوں میں گھر گیا، کسی جگہ سوتیلا باپ بیٹی کے ساتھ تو کہیں سسر بہو کے ساتھ اور کہیں مولوی معصوم بچے بچیوں کے ساتھ۔بقول اقبال ،سبق شاہین بچوں کو دے رہیہیں خاکبازی کا،رشوت اور سفارش کے بل پر بننے والے ڈاکٹرز، انجینئرز، وکلاء￿ حتیٰٰ کہ ججز کی حالت بھی سب کے سامنے ہے مثلاً لاقانونیت نے عوام کی چیخیں نکلوا دی ہیں، کیا اپنی نسلوں کو خون کے آنسو رلانے کے لئے اس معاشرے کی بنیاد ڈالی گئی تھی؟ ذرا نہیں پورا سوچئے، کہیں تو کوئی کمی رہ گئی ہے، کہیں جھول رہ گیا ہے، کہیں تو کچھ رہ گیا ہمارے اجداد سے۔بقول فیض،جس دیس سے مائوں بہنوں کو،اغیار اٹھا کر لے جائیں،جس دیس کی گلیوں کوچوں میں،ہرسمت فحاشی پھیلی ہو،جس دیس میں بنت حوا کی،چادر بھی داغ سے میلی ہو،جس دیس میں غربت مائوں سے،بچے نیلام کراتی ہو،اس دیس کے ہر اک لیڈر پر،سوال اٹھانا واجب ہے۔

 

Related Articles