سنگاپور کے جنگل میں زندگی گزارنے والا شخص جس نے 30 سال بعد ٹیلی ویڑن دیکھا

سنگاپور،فروری۔سنگاپور کی پہچان ایک ایسے شہر کی ہے جہاں ہر جانب فلک بوس عمارتیں اور لگڑری اپارٹمنٹس نظر آتے ہیں۔ لیکن اتنے بڑے شہر میں ایک شخص کو رہنے کی جگہ نہ مل سکی اور اس نے اسی ملک کے جنگلات میں اپنی جھونپڑی بنا لی۔اوہ گو سینگ سے ملتے ہوئے سب سے پہلی چیز جو آپ کو متوجہ کرتی ہے وہ ہے ان کی آنکھوں کی چمک ہے۔ ایسا گمان ہوتا ہے کہ زندگی کے 79 سال انھوں نے بہت ہی سکون میں گزارے ہیں شاید اسی لیے وہ اپنے سے آدھی عمر کے بہت سے لوگوں سے کہیں بہتر نظر آتے ہیں۔اس مہینے کے شروع میں جنگل میں رہنے والے اوہ کی کہانی سنگاپور میں وائرل ہوئی، جسے جان کر ملک میں بہت سے لوگ حیران رہ گئے۔کچھ لوگوں نے سوال کیا کہ ان کی مدد کیوں نہیں گئی۔۔۔ اور بہت سے لوگ یہ جاننا چاہتے تھے کہ انھوں نے کسی کی نظروں میں آئے بغیر 30 سال تک جنگل میں زندگی کیسے گزاری۔یہ سب کرسمس کے دن شروع ہوا جب حکام نے اوہ کو روکا اور انھیں معلوم ہوا کہ وہ بغیر لائسنس کے کاروبار کر رہے تھے۔ کووڈ کی وجہ سے ان کی بازار میں پھول بیچنے والی نوکری ختم ہو گئی تھی لہذا وہ خود اگائی ہوئی سبزیاں اور مرچیں بیچ رہے تھے۔اوہ کا خیال ہے کہ ایک ناراض گاہک، جس نے سبزی کی ایک ڈالر (0.55 پاؤنڈ) قیمت پر ان سے بحث کی تھی، اسی نے حکام کو ان کے متعلق اطلاع دی۔جس وقت اوہ حکام سے بات کر رہے تھے اسی وقت خیراتی ادارے کے لیے کام کرنے والی خاتون وہاں گزر رہی تھیں۔ اور انھوں نے دیکھا کہ جو اہلکار اوہ سے بات کر رہے ہیں انھوں نے ان کی سبزیاں بھی ضبط کر لی ہیں۔ویوین پین کہتی ہیں کہ انھیں یہ منظر دیکھ کر غصہ آیا ’میں نہیں چاہتی تھی کہ وہ اس دن خالی ہاتھ گھر جائیں۔ لیکن میں جانتی ہوں کہ قانونی لحاظ سے وہ سڑک پر سبزیاں فروخت نہیں کر سکتے۔‘انھوں نے اس واقعے کی ویڈیو بنا کر اسے فیس بک پر پوسٹ کیا، جہاں یہ وائرل ہو گئی۔ اور بالآخر اوہ کے حالات مقامی رکنِ پارلیمنٹ کی نظر میں آئے۔لیکن پھر ایم پی لیانگ اینگ ہوا کو معلوم ہوا کہ اوہ کی کہانی میں تو اور بھی بہت کچھ ہے۔ وہ کسی کی نظروں میں آئے بغیر 30 سال سے جنگل میں رہ رہے تھے۔اوہ اپنے خاندان کے ساتھ ایک مقامی گاؤں سونگی تنیگا میں پلے بڑھے۔ تاہم 1980 کی دہائی میں ایسے کئی دیہات کو مسمار کر دیا گیا تاکہ نئی بلند و بالا عمارتوں کے لیے جگہ بن سکے۔ان دیہات میں رہنے والے زیادہ تر لوگوں کو حکومت کی طرف سے نئے مکانات دیے گئے، لیکن اوہ اپنے لیے گھر لینے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ تاہم ان کے بھائی کو ایک سرکاری فلیٹ مل گیا اور انھوں نے اوہ کو رہنے کے لیے اپنے پاس بلا لیا۔ لیکن چونکہ اوہ بھائی کے خاندان پر بوجھ نہیں بننا چاہتے تھے لہذا ایک دن انھوں نے وہ فلیٹ چھوڑ دیا۔وہ جنگل کی طرف چل دیے وہیں جہاں کبھی ان کا پرانا گھر ہوا کرتا تھا۔ انھوں نے لکڑی، بانس اور ترپال سے ایک جھونپڑی بنائی اور وہیں راتیں گزارنے لگے۔جھونپڑی کے قریب پہنچیں تو آپ کو راکھ نظر آتی ہے، اوہ یہیں لکڑیاں جلا کر اپنا کھانا پکاتے ہیں۔ جھونپڑی کے درمیان میں ان کے سامان کا ڈھیر پڑا ہے اور پچھلے حصے میں وہ سوتے ہیں۔اس جھونپڑی کے قریب وہ باغ ہے جہاں وہ اپنی سبزیاں اگاتے تھے۔ یہاں سبزیوں کو محفوظ رکھنے کے لیے ایک باڑ لگائی گئی ہے۔اوہ کہتے ہیں کہ ان کی جھونپڑی کے ساتھ لگا جیک فروٹ کا درخت کافی سایہ دار ہے، اور سنگاپور کی تیز گرمی سے انھیں بچائے رکھتا تھا۔وہ کہتے ہیں کہ تنہائی کبھی بھی مسئلہ نہیں بنی۔ انھوں نے خود کو اپنے باغ کی دیکھ بھال میں مصروف رکھا۔ وہ کہتے ہیں کہ یہاں سبزیاں آسانی سے اگ جاتی ہیں جس نے چیزوں کو آسان بنا دیا تھا۔ جس چیز نے انھیں تنگ کیا وہ چوہے تھے۔ وہ ان کی جھونپڑی میں گھس آتے اور ان کے کپڑوں میں سوراخ کر جاتے۔سبزیاں بیچنے کے علاوہ جب کبھی موقع ملا اوہ نے کئی دوسرے کام بھی کیے۔ جو پیسے وہ کما پاتے ان سے انڈونیشیا کے ایک چھوٹے سے جزیرے باٹام تک جانے والی فیری کا کرایہ ادا کر دیتے۔ یہیں پر ان کی ملاقات تاچی سے ہوئی، ان دونوں کی ایک بیٹی بھی ہے۔ہر ہفتے کے آخر میں وہ باٹام جاتے تھے، اور پھر واپس سنگاپور کے جنگل میں بنی اپنی جھونپڑی میں آ جاتے۔ سنگاپور میں اوہ کے خاندان کی طرح ان کی اہلیہ اور بیٹی، جو کہ اب 17 سال کی ہیں، کا کہنا ہے کہ انھیں کبھی پتا نہیں چل سکا کہ اوہ کیسے اور کہاں رہ رہے ہیں۔ایک رشتہ دار کا کہنا ہے کہ وہ اپنی رہائش کے بارے میں ہمیشہ یہی کہتے کہ ’میں باغ میں رہتا ہوں۔‘کووڈ کے بعد سے اوہ باٹام نہیں جا سکے، کیونکہ وبا کے بعد سے سنگاپور نے اپنی سرحدیں بند کر دیں تھیں اور صرف ان لوگوں کے لیے سفر کی اجازت دی جو قرنطینہ اور کووڈ ٹیسٹ کے لیے ادائیگی کر سکتے تھے۔تاہم وہ پھر بھی اپنے خاندان کو ماہانہ 500-600 ڈالر تک کی رقم بھیجتے رہے۔ سنگاپور میں کسی شخص کا بے گھر ہونا غیر معمولی ہے۔ یہاں دنیا کے امیر ترین لوگ آباد ہیں۔ عالمی بینک کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق اس شہر کی مجموعی قومی پیداوار 60000 ڈالر (44300 پاؤنڈ) فی کس ہے۔سنگاپور میں بڑے پیمانے پر ایک ہاؤسنگ سسٹم بھی موجود ہے اور تقریباً 80 فیصد رہائشی اسی ہاؤسنگ سسٹم کے تحت بنائے گئے گھروں میں رہائش پذیر ہیں۔ ان گھروں کی تعمیر اور انتظامات ہاؤسنگ ڈیولپمنٹ بورڈ کے پاس ہیں۔اگرچہ شہر میں لوگ سڑکوں اور پلوں کے نیچے سوتے نظر نہیں آتے مگر ایک اندازے کے مطابق تقریباً 1000 سنگاپوری بے گھر ہیں۔مقامی ایم پی کی ٹیم کی مدد سے رواں برس فروری میں اوہ کو رہنے کے لیے ایک نیا گھر دیا گیا ہے۔ لیانگ کا کہنا ہے کہ ان کی ٹیم ’اوہ کی مدد جاری رکھے گی‘ اور وہ کوشش کر رہے ہیں کہ انڈونیشیا میں موجود ان کی اہلیہ اور بیٹی سے انھیں ملوا سکیں۔یہ ایک بیڈروم کا چھوٹا سا فرنشڈ (جہاں پہلے سے سامان موجود ہو) فلیٹ ہے جہاں ان کے ساتھ ایک اور شخص بھی رہ رہا ہے۔فلیٹ میں ایک فریج، ٹیلی ویڑن، کیتلی اور واٹر ہیٹر بھی ہے جو خیر خواہوں نے انھیں عطیہ کیے ہیں۔اوہ، واٹر ہیٹر سے بہت خوش ہیں۔ انھیں تو جنگل میں اپنی جھونپڑی کے ساتھ والے تالاب کے پانی سے نہانے کی عادت تھی اور یہاں کے نلکے کا پانی انھیں بہت ٹھنڈا لگا تھا۔اب وہ ڈرائیور کی نوکری کر رہے ہیں، ان کا کام غیر ملکی ملازمین کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانا ہے۔ کبھی کبھی وہ باغبانی بھی کرتے ہیں۔جس دن وہ اپنے نئے فلیٹ میں منتقل ہوئے اسی دن 30 سالوں کے بعد انھوں نے سنگاپور میں اپنے خاندان کے ساتھ نئے قمری سال کا جشن بھی منایا۔ وہ ہنستے ہوئے کہتے ہیں ’میں نے بہت کھایا اور کئی کھانے تو ایسے تھے جنھیں میں نے برسوں سے نہیں چکھا تھا۔‘وہ کہتے ہیں کہ ’30 سال سے بھی زیادہ عرصے کے بعد میں نے پہلی بار ٹیلی ویڑن دیکھا۔ مجھے بہت مزا آیا۔‘اگرچہ وہ اب بھی جنگل میں اپنی آزاد زندگی کو یاد کرتے ہیں مگر ان کا کہنا ہے کہ ’وہ فلیٹ میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔‘انھوں نے چینی زبان کا ایک محاورہ دہرایا ’میں وہاں بہت سالوں رہا، اسی لیے مجھے اس کی یاد آتی ہے۔‘وہ کہتے ہیں کہ اب بھی مجھے جب وقت ملتا ہے میں جنگل میں جاتا ہوں۔ میں صبح تین بجے اٹھتا ہوں اور کام شروع کرنے سے پہلے کپڑے وغیرہ تبدیل کر کے اپنی سبزیاں چیک کرنے جاتا ہوں۔‘

 

 

 

 

Related Articles