زمین کو تباہی سے بچانے کی کوشش، ناسا کا نیا خلائی جہاز روانہ

نیویارک،نومبر۔ناسا کے سائنسدانوں نے ایک ایسی ٹیکنالوجی کو آزمانے کے لیے ایک خلائی جہاز خلا میں بھیج دیا ہے جو مستقبل میں کسی خطرناک سیارچے کو زمین سے ٹکرانے سے روک سکے۔ناسا کے اس مشن کا نام ’ڈارٹ مشن‘ ہے جس کی بنیاد پر وہ زمین کی طرف آنے والی کسی بڑی خلائی چٹان کو ناکارہ بنانے کی طویل مدتی تجویز کا جائزہ لے گا۔یہ خلائی جہاز ڈیمورفس نامی شہابیے سے ٹکرائے گا۔ ناسا کے سائنسدان یہ دیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ڈیمورفس کی رفتار اور راستے کو کس حد تک بدلا جا سکتا ہے۔سائنس دان جو کام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر چند سو میٹر کے کائناتی ملبے کا کوئی حصہ زمین سے ٹکرائے تو پورے براعظم میں تباہی مچا سکتا ہے۔فالکن نائن نامی اس خلائی راکٹ کے ذریعے اس ڈارٹ خلائی جہاز کو بین الاقوامی وقت کے مطابق بدھ کو صبح چھ بجکر 20 منٹ پر کیلیفورنیا کے خلائی اڈے وینڈنبرگ سپیس فورس سے خلا میں بھیجا گیا ہے۔حالانکہ ڈیمورفس سے زمین کو کوئی خطرہ نہیں ہے مگر یہ مستقبل میں زمین کی طرف آنے والے ایسے خطرات سے نمٹنے کے طریقے کو سیکھنے کی پہلی کوشش ہے۔ یعنی اگر کل کوئی ایسا ملبہ زمین کی طرف آئے تو اسے کیسے دور رکھا جا سکتا ہے۔ناسا کے پلانیٹری ڈیفنس کوآرڈینیشن آفس کی کیلی فاسٹ کا کہنا ہے کہ ’ڈارٹ ڈیمورفس کے مدار کی مدت میں ایک چھوٹی سی تبدیلی کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور مستقبل میں ہماری طرف آنے والے کسی سیارچے کو روکنے کے لیے صرف اتنا ہی درکار ہے۔‘ڈارٹ مشن کے لیے بھیجے جانے والے خلائی جہاز کے خلا میں چھوڑے جانے پر تبصرہ کرتے ہوئے کیلی نے کہا کہ ’ہم ابھی بھی مشکل سے باہر نہیں آئے ہیں ہمیں اسے ڈیمورفس تک پہنچانا ہے لیکن یہ اس راہ میں ایک بڑا قدم ہے۔‘خلائی چٹانیں نظام شمسی کے باقی ماندہ ٹکڑے ہیں، جن میں سے اکثر زمین کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہیں۔ لیکن جب ایسی چٹان سورج کے گرد گھومتی ہے اور زمین کی طرف بڑھتی ہے تو پھر اس کے زمین سے ٹکرانے کا امکان ہو سکتا ہے۔تقریباً 32 کروڑ ڈالر کی مالیت کا ڈارٹ مشن سیارچوں کے ایک جوڑے کو نشانہ بنائے گا جو اس وقت ایک دوسرے کے گرد چکر لگا رہے ہیں۔ ایسے مدار کو بائنری کہتے ہیں۔ ان دونوں میں سے بڑے سیارچے کا نام ڈیڈی موس ہے جو تقریباً 780 میٹر چوڑا ہے۔ ڈیمورفس تقریباً 160 میٹر چوڑا ہے۔ڈیمورفس کے سائز والے سیارچے کے زمین سے ٹکرانے کا اثر کئی ایٹم بموں کی توانائی جتنا ہو گا۔ اس سے لاکھوں جانیں ضائع ہو سکتی ہیں۔ لیکن 300 میٹر اور اس سے زیادہ چوڑائی والی خلائی چٹانیں براعظموں کو تباہ کر سکتی ہیں اور ایک کلومیٹر کے سائز کے خلائی پتھر تو پوری زمین کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔ڈارٹ ستمبر 2022 تک خلا میں گھومتا رہے گا اور پھر زمین سے 67 لاکھ میل دور جا کر اپنے ہدف کو نشانہ بنائے گا۔ڈارٹ تقریباً 15,000 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ڈیمورفس سے ٹکرائے گا۔ اس کی وجہ سے ڈیموفورس کی سمت صرف چند ملی میٹر تبدیل ہونے کی امید ہے۔ اگر ایسا ہوا تو اس کی کلاس بدل جائے گی۔یہ ایک بہت چھوٹی تبدیلی کی طرح لگ سکتا ہے، لیکن ایک خلائی چٹان کو زمین سے ٹکرانے سے روکنے کے لیے بس اتنا ہی کرنا ہے۔ تاہم ایسا کرنا آسان نہیں ہے۔
زمین کے قریب موجود خلائی چٹانیں:اس مشن کے لیے ناسا کے پروگرام سائنٹسٹ ٹام سٹیٹلر نے کہا ’خلا میں بڑے سیارچوں کے مقابلے میں بہت سے چھوٹے سیارچے ہیں اور اس لیے یہ سب سے زیادہ خطرہ بھی انہی سے ہے۔‘سنہ 2005 میں امریکی کانگریس نے ناسا کو زمین کے قریب موجود ایسے 90 فیصد سیارچوں کو ٹریک کرنے کی ہدایت کی تھی جو ممکنہ طور پر زمین کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔ ناسا اب تک ان میں سے صرف 40 فیصد کی شناخت کر سکا ہے۔ڈارٹ پر ڈریکو نامی ایک کیمرہ بھی ہے جو اس کے مشن کی تصاویر لے گا تاکہ خلائی جہاز کے ڈیمورفس سے ٹکرانے کے لیے صحیح سمت کا تعین کیا جا سکے۔اپنے ہدف کو نشانہ بنانے سے تقریباً 10 دن پہلے ڈارٹ ایک لیسیا کیوب نام کی ایک چھوٹی سیٹلائٹ کا استعمال کرے گا۔ یہ چھوٹی گاڑی تصادم کے بعد تصاویر واپس بھیج دے گی۔ڈیمورفس کی گردش کے راستے میں چھوٹی تبدیلیوں کو بھی زمین پر دوربینوں سے ناپا جائے گا۔ ٹام سٹیٹلر کا کہنا ہے کہ ’ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کیا ہم نے واقعی سیارچے کے مدار کو تبدیل کیا ہے، اور اگر ایسا ہے تو ہم نے یہ کتنے مؤثر طریقے سے کیا ہے؟‘اس قسم کے ٹیسٹ کے لیے یہ ایک بہترین لیبارٹری ہے۔ اس تجربے سے ڈیمورفس کو اپنا راستہ تقریباً ایک فیصد تبدیل کرنا چاہیے۔ لیکن اس کا صحیح پتہ کئی ہفتوں یا مہینوں میں زمین پر موجود دوربینوں سے معلوم ہو جائے گا۔اس بارے میں بھی غیر یقینی صورتحال ہے کہ ڈارٹ کو ہدف بنانے کے بعد ڈیمورفس کا رویہ کیا ہو گا کیونکہ ہم اس کی اندرونی ساخت نہیں جانتے۔ اگر ڈیمورفس اندر سے ٹھوس ہے تو ظاہر ہے کہ بہت سا ملبہ باہر آئے گا جس سے اسے مزید دھکا لگے گا۔‘

Related Articles