جوہری مذاکرات کی ناکامی پریورینیم 60 فی صد سے زیادہ افزودہ نہیں ہوگا:ایران
تہران،دسمبر۔ایران کی جوہری ایجنسی کے سربراہ نے کہا ہیکہ اگر ویانا میں جوہری مذاکرات ناکام ہوجاتے ہیں توملک کا یورینیم کو 60 فی صد سے زیادہ افزودہ کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ایران کی جوہری توانائی تنظیم کے ڈائریکٹر محمد اسلامی نے روسی خبررساں ایجنسی ریا(آر آئی اے) نووستی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افزودگی کی سطح ملک کی ضروریات سے عین مطابق ہے۔انھوں نے کہا کہ یورینیم کی افزودگی سے متعلق ہمارے اہداف ہماری صنعتی اور پیداواری ضروریات کو پورا کر رہے ہیں اور ہمارے لوگوں کی ضروریات کے مطابق ہیں۔ان سے جب پوچھا گیا کہ اگرویانا میں مذاکرات ناکام ہو جاتے ہیں تو کیا ایران یورینیم کو60 فی صد تک مصفا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے؟اس کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’’نہیں‘‘۔اسلامی آیندہ پیر کو ویانا میں مذاکرات کی بحالی سے قبل گفتگو کررہے تھے۔ان مذاکرات کا مقصد 2015ء میں طے شدہ جوہری سمجھوتے کی بحالی ہے۔ان میں ایران اور جوہری سمجھوتے کے باقی رہ جانے والے پانچ فریق ممالک برطانیہ ،فرانس،جرمنی ، روس اورچین کے مذاکرات کاربراہ راست شریک ہیں جبکہ امریکا ان میں بالواسطہ شریک ہے۔ایران کے سخت حریف اسرائیل نے نومبر میں مبیّنہ طورپر خبردار کیا تھا کہ اسلامی جمہوریہ نے یورینیم کو فوجی گریڈ کی سطح تک 90 فی صد کے لگ بھگ افزودہ کرنے کے لیے تکنیکی اقدامات کیے ہیں۔تاہم ایران کا بالاصرار کہنا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے۔امریکا اور اس کے اتحادی مغربی ممالک ایران سے بار بار مطالبہ کررہے ہیں کہ وہ اپنے جوہری پروگرام کی پْرامن نوعیت کے بارے میں پختہ یقین دہانی کرائے لیکن تہران باربار یہ کَہ رہا ہے کہ پہلے پابندیاں ختم کی جائیں۔ریانووستی کے ساتھ انٹرویو میں اسلامی کا کہنا تھا کہ ایران کی جوہری سرگرمیاں اقوام متحدہ کی بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے قواعد وضوابط کے مطابق ہیں۔تاہم آئی اے ای اے نے حال ہی میں ایران کی جانب سے اعلیٰ سطح کی افزودہ یورینیم کے ذخیرے پر خدشات کا اظہار کیا ہے۔واضح رہے کہ ایران نے اپریل میں یورینیم کو 60 فی صد تک افزودہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔اس نے دشمن ملک اسرائیل پر اپنی ایک جوہری تنصیب میں تخریب کاری کا الزام عاید کیا تھا اور کہا تھا کہ وہ اس کے ردعمل میں یورینیم کومقررہ حد سے زیادہ سطح تک افزودہ کررہا ہے۔ایران نے یورینیم کو 60 فی صد تک افزودہ کرنے کاعمل نطنز میں واقع یورینیم افزودگی کے پلانٹ میں دھماکے کے ردعمل میں شروع کیا تھا۔اس دھماکے سے سینٹری فیوجزمشینوں کو نقصان پہنچاتھا۔ان میں سے بعض ناکارہ ہوگئی تھیں اور بعض نے کام چھوڑدیا تھا۔ایرانی حکام نے اسرائیل پراس تخریبی حملے کا الزام عاید کیا تھا۔انھوں نے اس واقعہ کو’’جوہری دہشت گردی‘‘ قراردیاتھا اور اس کا بدلہ لینے کا اعلان کیا تھا۔یادرہے کہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے فروری میں کہا تھا کہ اگر ملک کو ضرورت پیش آئی تو یورینیم کو 60 فی صد تک افزودہ کیا جاسکتا ہے۔یہ جوہری ہتھیار تیارکرنے کے لیے درکار90 فی صد افزودہ یورینیم سے کہیں کم سطح ہے۔یادرہے کہ امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ مئی 2018ء میں ایران سے جولائی 2015ء میں طے شدہ جوہری سمجھوتے کو خیرباد کَہ دیا تھا اور اسی سال نومبر میں اس کے خلاف سخت پابندیاں عاید کردی تھیں۔ایران اب ان پابندیوں کے مکمل خاتمے کا مطالبہ کررہا ہے جبکہ امریکا اس سے یہ مطالبہ کررہا ہے کہ وہ پہلے جوہری سمجھوتے کے تمام تقاضوں کوپورا کرے۔ویانا میں ان ہی متنازع امور کو طے کرنے کے لیے مذاکرات ہورہے ہیں۔امریکی مذاکرات کار راب میلے نے گذشتہ منگل کو خبردار کیا تھا کہ اگر سمجھوتے کی بحالی کے لیے سفارت کاری ناکام ہوجاتی ہے تو بحران کو تقویت ملے گی اورکشیدگی میں اضافہ ہوگا۔