تیونس پر آمریت کے سائے

تحریر:محمد صادق کھوکھر۔۔۔ لیسٹر
عالمِ اسلام کا سب سے بڑا مسئلہ آمریت ہے، مسلم ممالک ابھی تک جبرو استبدادیت سے نجات حاصل نہیں کر سکے، خاص طور پرعرب ممالک بری طرح ملوکیت اور آمریت کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں، جہاں انسانی جان کی کوئی قدر و قیمت اور وقعت نہیں ہے، ان ممالک میں اختلافِ رائے اور آزادی اظہار کی اجازت نہیں ہے بلکہ مخالفین اور تنقید کرنے والوں کو سولی پر لٹکا دیا جاتا ہے تاکہ مخالفین پر خوف طاری رہے اور کوئی حکومت کے خلاف بولنے کی جرآت نہ کرسکے۔ اس خطہ ارض میں تیونس واحد ایسا ملک تھا جہاں جمہوریت کی کونپلیں نمودار ہوئیں، لوگوں نے کچھ امیدیں باندھی تھیں لیکن اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آمرانہ ظلمت کے مہیب سائے یہاں بھی مسلط ہوتے جا رہے ہیں ،قارئین کو یاد ہوگا کہ تیونس میں 2011 میں عرب بہار کا طوفان اٹھا تھا جہاں ایک پریشان حال شخص نے صدارتی محل کے سامنے خود کشی کرلی تھی جس کی وجہ سے ملک میں زبردست ارتعاش پیدا ہوا عوام خاص طور پر طلبہ سڑکوں پر آگے تھے، یہ اتنا بڑا احتجاج تھا کہ آمر صدر زین العابدین نے موقع کی نزاکت دیکھ کراپنے اہل و عیال سمیت ملک سے فرار ہوکر سعودی عرب میں پناہ حاصل کر لی، اس واقعہ نے تمام عرب ممالک میں ہلچل پیدا کر دی تھی، ہر جگہ آمریت کے خلاف مظاہرے شروع ہوگئے، آمر اور بادشاہ عوامی خوف سے تھر تھر کانپنے لگے تھے، مصر کا تحریر اسکوئر کئی ہفتے مظاہرین سے سجا رہا، جنہیں مبارک حکومت نے بڑی بے دردی سے کچلنے کی کوشش کی لیکن بالآخر اسے رسوائی کا منہ دیکھنا پڑا، ان کا بھی تختہ الٹ دیا گیا اور وہ گرفتار ہوئے، ایک عبوری حکومت معرضِ وجود میں آئی جسے بادلِ ناخواستہ انتخاب کرانے پڑے جس کے نتیجے میں ڈاکٹر محمد مرسی شہید مصر کی تاریخ کے پہلے اور آخری جمہوری صدر منتخب ہوئے لیکن عرب ممالک کے حکمرانوں اور مصری فوج نے ان کے خلاف محاذ بنا لیا،ٹھیک ایک سال بعد اس کی حکومت ختم کرکے اقتدار فوج نے سنبھال لیا، بدقسمتی سے دیگر پڑوسی ممالک میں بھی عرب بہار کیاثرات پوری طرح اثر انداز نہ ہو سکے۔ شام، لیبیا، الجزائر اور یمن وغیرہ میں آمروں نے جبر سے مظاہرین کو کچل دیا تھا لیکن تیونس جہاں سے اس بہار کا آغاز ہوا تھا، وہاں کے عوام نے مقتدر قوتوں کو مجبور کیا کہ وہ جلاوطن رہنما استاذ راشد الغنوشی کو واپس وطن لائے۔ راشد الغنوشی النہضہ پارٹی کے رہنما ہیں جنہیں تیونس کے بانی صدر حبیب بورقیبہ نے اپنے دورِ اقتدار میں جیل میں ڈال رکھا تھا۔ بعد ازاں انہیں جلا وطن کر دیا تھا، وہ طویل عرصہ سے یورپ میں جلا وطنی کی زندگی بسر کر رہے تھے، فوج نے انہیں وطن بلا کر عبوری حکومت کی سربراہی کی پیش کش کی لیکن انہوں نے سمجھ داری کا ثبوت دیتے ہوئے کہا کہ عوام نے نظام کی تبدیلی کے لیے قربانیاں دی ہیں، اس لیے سب سے اولین ضرورت آئین ہے جس کے لیے انتخابات کا انعقاد ضروری ہے، انہوں نے عبوری حکومت سے تعاون کیا جس نے متناسب نمائندگی کے تحت انتخابات کرائے، ان انتخابات میں راشد الغنوشی کی پارٹی النہضہ نے سب سے زیادہ نششتیں حاصل کیں، النہضہ جماعت نے دیگر جماعتوں کی حمایت سے ایک متفقہ آئین بنایا جس میں انسانی حقوق کو بڑی اہمیت دی گئی، اس آئین کے تحت پولیس تفتیش کے دوران بھی تشدد نہیں کر سکتی، ہر ضلع میں انسانی حقوق کی کمیٹیاں تشکیل دیں جن کا مقصد ہر قسم کے تشدد کا خاتمہ تھا، آزادی اظہار کو قانونی تحفظ دیا گیا، راشد الغنوشی کی کوششوں سے ملکی حالات بہت بہتر ہوگئے، سیاست دان ایک دوسرے کے قریب آئے، ان میں اختلاف رائے سننے اور برداشت کرنے کا جذبہ پیدا ہوا، سب سیاست دان مختلف نظریات رکھنے کے باوجود آئین کااحترام کرتے تھے، پہلی منتخب حکومت نے آئینی مدت ختم ہونے سے قبل ہی الیکشن کرا دیئے تاکہ جمہوری کلچر پروان چڑھے، اب تک تین پارلیمانی انتخابات ہو چکے ہیں گزشتہ انتخاب میں قیس سعید صدر منتخب ہوئے جنہیں النہضہ کی حمایت بھی حاصل تھی، ملکی نظام ٹھیک چل رہا تھا لیکن صدرِ مملکت نے ایک عجیب غلطی کر دی، انہوں نے پارلیمنٹ کو توڑ کر وزیرِ اعظم کو گھر بھیج دیا۔ صدر قیس سعید قانون کے پروفیسر اور بار ایسوسی ایشن کے صدر بھی رہ چکے ہیں ان کے قریبی جاننے والے بھی حیرت زدہ ہیں کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا ہے، کیوں کہ وہ قانون دان ہیں، اس طرح کے اقدامات ان کے مزاج کے خلاف ہیں لیکن انہوں نے اب مظاہرین کو سختی سے کنٹرول کرنے کا اعلان کر دیا ہے، وہ عموما ٹھنڈے دماغ کے مالک ہیں لیکن اس بار وہ کسی اور کی زبان بول رہے ہیں، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ فوج کے ہاتھوں استعمال ہو رہے ہیں، تیسری دنیا میں فوج عموما” اپنی راہ ہموار کرنے کے لیے پہلے دوسروں کو استعمال کرتی ہے اور پھر خود مسلط ہو جاتی ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس ملک کو آمریت سے بچائے، ورنہ اندیشہ ہے کہ کہیں یہ ملک بھی مصر کی طرح دوبارہ آمریت کے شکنجے میں نہ کَس دیا جائے اور عوام ایک بار پھر سیاسی آزادی اور بنیادی انسانی حقوق سے محروم کر دئیے جائیں گے۔

Related Articles