بڑھتی ہوئی ہم جنسیت

روز آشنائی … تنویرزمان خان

گزشتہ دنوں سوئٹزر لینڈ میں اس بات پر ووٹنگ کرائی گئی کہ ہم جنس پرست جوڑوں کو قانونی شکل ملنی چاہیے یا نہیں یعنی ہم جنس پرست جوڑے قانونی شکل میں میاں بیوی کی طرح تسلیم کرلئے جائیں یا نہیں، ان کی شادی کو سول میرج کے طور پر تسلیم کرلیا جائے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہاں 64 فیصد لوگوں نے اس رشتہ پارٹنر شپ کے حق میں ووٹ دیا، اب اس بات کی باقاعدہ قانون سازی کردی جائے گی اور ہم جنس پرست جوڑے قانونی طور پر وہ تمام حقوق حاصل کرلیں گے جو ہمارے ہاں کسی میاں بیوی کو حاصل ہوتے ہیں، یعنی جائیداد، وراثت وغیرہ پر بھی قانونی حق حاصل ہوجائے گا، ہمارے مسلم معاشروں میں تو اس معاملے کو غیر فطری کار گناہ سمجھا جاتا ہے لیکن دنیا میں LGBTکے حوالے سے آج کل بہت تیزی سے قانونی شکل دینے کی تحریک موجود ہے۔ اس وقت مغربی یورپ کے تمام ممالک کے علاوہ ساؤتھ افریقہ، کینیڈا، ارجنٹائن، برازیل، امریکہ، آسٹریلیا اور مالٹا سمیت دنیا کے 32 ممالک ایسے ہیں جہاں ہم جنس پرست جوڑوں کے اکٹھا رہنے اور شادی کو قانونی حیثیت حاصل ہوچکی ہے، اس وقت انڈیا میں یہ تحریک بڑے زوروں پرہے، وہاں کی عدالتوں میں ہم جنس پرستوں کی شادی کو قانونی حیثیت دینے کے بہت سے مقدمات زیر التوا ہیں۔ وہاں 1987 میں پہلی مرتبہ ایک پولیس میں ملازمت کرنے والی خاتون افسر نے جب دوسری عورت کے ساتھ شادی شدہ ہونے کا اعلان کیا تو ایک دم بہت سے کیس منظر پر آگئے اور نئے کیس رپورٹ ہونے لگے جن میں لوئر مڈل کلاس کی لڑکیاں بڑی تعداد میں شامل تھیں جن کا یوں تو کسی عالمی یا ملکی گے(Gay)تحریک سے کوئی تعلق نہیں تھا لیکن اس پر انڈین سوسائٹی میں ہر طرح کا رد عمل دیکھنے کو ملا، خاندان میں اس کی تائید یا ہلکی مخالفت سے لے کر تشدد اور عدالتوں تک پہنچنے کے واقعات ہوئے لیکن اب وہاں اسے قانونی شکل دینے پر حکومت پر بہت دبائو ہے ،یہ مانا جارہا ہے کہ 2030 تک زیادہ سے زیادہ انڈیا میں ہم جنس پرستی کے تعلق کو قانونی حیثیت دے دی جائے گی، گوکہ اس وقت انڈیا کی حکومت ہم جنس شادی کی مخالفت کررہی ہے ان کا کہنا ہے کہ اس سے خاندان کا روایتی ڈھانچہ بالکل ٹوٹ پھوٹ جائے گا اور افزائش نسل کا سوال کھڑا ہوجائے گا، حکومت کا ملک کی ہائی کورٹ میں پیش کیا جانے والا موقف سامنے آیا ہے کہ وہ اسے مجرمانہ فعل کے زمرے سے نکال بھی دے تو وہ ایسے جوڑوں کو شادی شدہ میاں بیوی والے بنیادی حقوق دینے کو تیار نہیں ہوسکتے۔ اگر آنے والے برسوں میں انڈیا میں Same Sex Marriage کو جائز قرار دینے اور قانونی تحفظ دینے کا قانون منظور ہوگیا تو دنیا کی ایک تہائی آبادی ہم جنس پرستوں کے کیمپ کا حصہ ہوجائے گی۔ ادھر فرانس میں جہاںLGBT کو مکمل آزادی اور ہم جنس پرستوں کو باہم شادی شدہ جوڑے کی طرح زندگی گزارنے کے مکمل حقوق حاصل ہیں، ابھی وہاں نیا قانون جس کا عملی اطلاق یکم جنوری 2022 سے ہوگا جس کے تحت25 سال یا اس سے کم عمر خواتین کو مفت برتھ کنٹرول یا اسقاط حمل کی سہولیات دستیاب ہوں گی جس سے عورتوں کے نہ صرف غیر ارادی طور پر ماں بننے کے امکانات پر 60 فیصد تک کمی آجائے گی بلکہ ایسی لڑکیاں جو اخراجات نہ برداشت کرنے کی وجہ سے اس عمل سے دور رہنا چاہتی ہیں اب احساس تحفظ محسوس کریں گی۔ یہ سب وہ رویے اور آزاد معاشرے کے ایشوز ہیں جہاں زندگی کی ہر طرح کی پابندیوں سے آزاد ہونے کو ہی آزادی مانا جاتا ہے اور اس تمام آزادی کے جانے والے راستے کو قدرتی اور فطری مانا جاتا ہے۔ طبی تحقیقات اور ریسرچ میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ LGBTافراد کے اندر ذہنی اور جسمانی بیماریوں کا زیادہ احتمال رہتا ہے اور ایسے افراد کے اندر خودکشی کا زیادہ رجحان پایا جاتا ہے،جس کی وجہ یہ ہے کہ ریسرچ کے مطابق یہ لوگ خود کو زیادہ احساس محرومی کا شکار محسوس کرتے ہیں اور سماجی طور پر تنہائی کا شکار رہتے ہیں لیکن LGBTیا ہم جنس پرستوں کے حامی دانشور ان تحقیقات اور ریسرچ کی رپورٹس کو تسلیم نہیں کرتے، وہ سمجھتے ہیں کہ ایسا دریافت کرنے اور ایسی رپورٹس جاری کرنے والے دراصل اس سماجی حق کو تسلیم ہی نہیں کرتے ، اس لئے وہ اسکے خلاف نکات ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ گزشتہ کئی برس سے کئی ممالک سے آنے والے مرد وخواتین نے ان یورپی ممالک میں ہم جنس پرستی کے نام پر سیاسی پناہ بھی حاصل کی ہے۔ بلکہ بعض حالات میں ہم جنس پارٹنر کو بھی اپنے ملک میں جان محفوظ نہ ہونے کے سبب یورپ تک پہنچنے والے پہلے پارٹنر کے ساتھ لا کر ملادیا گیا جن میں لڑکیاں بھی شامل ہیں اور لڑکے بھی، مسلم سوسائٹی میں اس عمل کو حرام اور غیر قانونی سمجھا جاتا ہے، وہاں اس کا اطلاق تو دور کی بات اس پر کھل کے بات بھی نہیں کی جاتی، اس پر بحث کرنا بھی اخلاقی گراوٹ کے زمرے میں آجاتا ہے، ان ممالک میں بھی ایسے واقعات کی کمی نہیں۔

Related Articles